محمد علی اظہر
ذیابیطس سے نبرد آزما پاکستانی نژاد برطانوی باکسر محمد علی دنیا کے پہلے ڈائیبٹک باکسنگ چیمپئن بننا چاہتے ہیں۔ برطانیہ کے شہر روچڈیل میں رہائش پذیر 24 سالہ باکسر اپنی تینوں ابتدائی فائٹس بآسانی جیت چکے ہیں۔ انہوں نے یہ تینوں فائٹس پوائنٹس کی بنیاد پر اپنے نام کیں اور اب وہ اگلے مقابلے میں حریف کو ناک آؤٹ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ باکسنگ کیریئر کا کامیاب آغاز کرنے والے محمد علی نے ’’امت‘‘ سے خصوصی بات چیت کی، جو انٹرویو کی شکل میں نذر قارئین ہے۔
س: آپ کا آبائی تعلق کہاں سے ہے؟
ج: میرا آبائی تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع لیّہ کی تحصیل کروڑ لعل عیسن سے ہے۔ میرے والد برٹش پاکستانی تھے، جنہوں نے پاکستان آکر میری والدہ سے شادی کی اور پھر دوبارہ برطانیہ آگئے۔ ہم دو بہن بھائی ہیں۔ میرے والدین نے ہر موقع پر مجھے سپورٹ کیا، میرے لئے دعائیں کیں اور مجھے کبھی بھی مایوس نہیں ہونے دیا۔ میں آج جس مقام پر ہوں اپنے والدین اور ٹرینرز کی بدولت ہوں۔ والدہ مجھے ہمیشہ ٹریننگ کی پابندی کرنے کا کہتی ہیں اور ڈائٹ کیلئے خود خوراک تیار کرتی ہیں، تاکہ میں فٹ رہوں۔
س: آپ کو ذیابیطس کی تشخیص کب ہوئی؟
ج: 4 برس کی عمر میں پتا چلا کہ مجھے ٹائپ ون ڈائیبیٹیز ہے۔ میں دن بدن کمزور ہو رہا تھا، جس پر والدین مجھے اسپتال لے کر گئے تو ڈاکٹرز نے انہیں بتایا کہ مجھے یہ بیماری ہے۔ میرے والد اور والدہ دونوں کو شوگر نہیں۔ البتہ میرے دادا کو یہ مرض ضرور لاحق تھا۔ تاہم میں نے ذیابیطس کو کبھی اپنی کمزوری نہیں سمجھا، بلکہ اس مرض سے لڑ لڑ کر میں مزید مضبوط ہوا ہوں اور پہلا ڈائیبٹک باکسر بن کر میں نے تاریخ رقم کی ہے۔
س: پرفیشنل باکسر بننے کا خیال ذہن میں کب آیا؟
ج: میں نے 13 برس کی عمر میں پیشہ ور باکسر بننے کی ٹھان لی تھی۔ میں نے اسکول اور کالج میں کرکٹ، ہاکی اور فٹبال تقریباً سبھی گیم کھیلے ہیں، لیکن باکسنگ میں اپنا کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا اور تمام تر مشکلات کے باوجود ہار نہیں مانی۔ یہی وہ وقت تھا جب میں نے برٹش باکسنگ بورڈ میں پروفیشنل باکسر بننے کی درخواست دی، جسے مسترد کر دیا گیا۔ درخواست یہ کہہ کر مسترد کی گئی تھی کہ برٹش باکسنگ بورڈ ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو ڈائبٹیز کو لائسنس نہیں دیتا۔ اسی سال 2015ء میں میرے مخلص دوستوں نے ٹرینرز اور ڈاکٹرز کی ایک ٹیم تشکیل دی، جنہوں نے مجھے بطور پروفیشنل باکسنگ تیار کیا۔ ان میں اسد شمیم بھی شامل تھے، جو اب میرے منیجر ہیں۔ ڈاکٹر ایان گیلین، اسد شمیم اور اپنے ٹرینر ایلیکس میٹویینکو کی مدد سے میں نے برٹش باکسنگ بورڈ کو چیلنج کیا اور تقریباً تین سال کی مسلسل محنت و کوشش کے بعد مئی 2018ء میں پرفیشنل لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
س: آپ نے مستقبل کے حوالے سے کیا پلاننگ کی ہے؟
ج: میں دنیا کا پہلا ڈائیبٹک باکسر بننا چاہتا ہوں۔ ورلڈ ٹائٹل کیلئے 2020ء تک مشکل حریف کو چیلنج دوں گا۔ یہ میرے کیریئر کی ابتدا ہے۔ رواں برس مئی میں باکسنگ کی اجازت ملنے کے بعد سے تینوں فائٹس اپنے نام کر چکا ہوں۔ 15 سمتبر کو ہونے والی کیریئر کی پہلی فائٹ میں، میں نے لتھوانیا کے باکسر آندریج سیپر کو ہرایا۔ 17 نومبر کو دوسری فائٹ میں ڈینی لٹل کو مات دی۔ اور گزشتہ دنوں 8 دسمبر کو برطانوی حریف جیک فلیٹلی کو بھی شکست سے دو چار کیا۔ یہ میرے کیریئر کی شروعات ہیں۔ میں اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھوں گا اور انشاء اللہ کسی حریف کو ناک آؤٹ بھی کروں گا۔
س: کیا آپ پاکستان آنے کی خواہش رکھتے ہیں؟
ج: جی بالکل…۔ پاکستان میرا مادر وطن ہے۔ پاکستان آنے کی بہت زیادہ خواہش ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی کا 17 فیصد حصہ ذیابیطس کا شکار ہے۔ میں اپنے ملک اور عوام کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ ٭
٭٭٭٭٭
Next Post