دادا جان کے حجرے میں مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا تھا

0

محمد فاروق
یہ ایک بہت ہی روشن و چمکدار صبح کی کہانی ہے۔ میری والدہ نے کچھ خلاف معمول، مجھے سویرے جگاکر، جلدی جلدی نہلایا اور صاف کپڑے پہنا کر بتایا کہ آج ہمارے ہاں کچھ بہت ہی معزز اور بزرگ مہمان تشریف لانے والے ہیں۔ تم نے ان کے قریب بیٹھنا ہے، کسی قسم کی شرارت نہیں کرنی… اور، خاموش رہ کر ان بزرگوں سے بہت ساری دعائیں لینی ہیں۔ مجھے دوسرے بچوں کے بارے میں معلوم نہیں کہ آیا انہیں بھی اس موقع پر اسی طرح تیار کیا گیا یا نہیں، لیکن والدہ ماجدہ کو ساری اولاد کے مقابلے میں مجھ سے بے پناہ عشق، اکثر میرے حق میں، ان کی طرف سے اس قسم کی ’’نا انصافی‘‘ کا باعث بن جایا کرتا تھا۔ باہر نکلا، تو اسپتال کے وسیع لان میں ہمارے نوکروں کو مختلف تیاریوں میں مصروف پایا۔ بہت سارے مرغ ذبح کیے گئے، انہیں گھر لے جایا گیا۔ گھر میں معمول کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے والی دو خواتین تو موجود تھیں ہیں۔ اکثر میری والدہ کی بے حد فیاضیوں کا نتیجہ یہ ہوا کرتا تھا کہ آس پاس کے گھروں کی غریب خواتین ایسے موقعوں پر میری والدہ کا ہاتھ بٹانے پہنچ جایا کرتی تھیں۔ چنانچہ صبح ہی صبح ہمارے گھر دوسری خواتین بھی آنا شروع ہوگئیں۔ سرکاری گھر کے درمیانے سائز کے کچن میں کھانا پکانے کی تیاریاں ہونی لگیں۔ اس موقع پر غالباً اسکول کی یا تو چھٹیاں ہیں… یا اس دن چھٹی ہے، کہ ہم اسکول نہیں گئے ہیں۔ میں مسلسل باہر و اندر گھر آتا جاتا ہوں اور بار بار گھر کے افراد اور باہر نوکروں سے پوچھتا ہوں، مہمان کب آئیں گے؟
مہمانوں کی آمد کا بھی انتظام ہے۔ اس وقفے سے فائدہ اٹھا کر آپ کو اس ماحول کی سر سری سیر کراؤں، جہاں بہت سارے واقعات نے یکجا ہو کر اس ناچیز کی زندگی پر دور رس اثرات چھوڑے ہیں۔
یہ والیٔ سوات کا زمانہ عروج تھا۔ میرے والد علاقہ چغرزئی تحصیل گل بانڈی میں ڈسپنسری انچارج، اور والیٔ سوات کے نظام بیوروکریسی میں ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ کی پوسٹ پر تھے۔ ہماری رہائش کی سرکاری کالونی ایک تحصیل، ایک اسپتال، ایک ان کے لیے مخصوص سرکاری مسجد اور دو گھروں پر مشتمل تھی۔ ایک گھر ہمارے لئے اور ایک گھر تحصیل دار صاحب کے لئے تھا۔ تحصیلدار صاحب بھی اکثر ہمارے سوات لے علاقے سے تعلق رکھنے والا ہوتا تھا اور اکثر و بیشتر میرے دادا جان یا میرے والد صاحب کے ساتھ خاندانی طور پر پہلے سے متعارف یا مانوس ہوا کرتا تھا۔ تحصیلدار کا عہدہ ’’سیاسی‘‘ قسم کا ہوتا تھا، اس لیے والیٔ سوات کی سرکاری پالیسی کے مطابق تحصیلدار صاحب ایک اسٹیشن پر ڈیڑھ دو سال سے زیادہ نہیں رہ سکتا تھا۔ مگر میرے والد جب اسی اسپتال میں بحیثیت انچارج تعینات ہوئے تو کم و بیش دس سال، والیٔ سوات کی حکومت ختم ہونے کے ایک سال بعد تک بھی وہیں پر رہے۔ تحصیلدار صاحب کے بچے اکثر ہمارے ہم عمر اور ہم لوگوں کے ساتھ کے ایک اسکول و کلاس میں آگے پیچھے ہوتے تھے۔ اسکول سے گھر واپس آکر اسپتال کے وسیح و عریض لان میں مشترکہ کھیل کود، قصے کہانیاں… اور میری موسیقی کا شوق۔ والد کو پہلا ریڈیو گھر لانے پر میں نے ہی مجبور کیا تھا۔ یہ چھوٹے سائز کا ریڈیو چمڑے کے ایک کیس میں بند تھا۔ اور ہر وقت میرے گلے میں آویزاں ہوتا تھا۔ تحصیلدار صاحب کے بچوں اور ہمارے درمیان کبھی کبھار معمولی تنازعات کے علاوہ بہت ہی محبت و اپنائیت ہوتی تھی۔ مگر جب تحصیلدار صاحب کی تبدیلی ہوجاتی تھی تو یہ مجھ جیسے زود حس پر بجلی بن کر گرتی۔ کئی کئی دن تک اس کے بچوں میں سے اپنے ہم عمر یا کلاس فیلو کے پیچھے فرقت غم میں تڑپتا تھا اور والیٔ سوات کے اس ’’ظالمانہ‘‘ حکم کی کوئی حکمت سمجھنے سے قاصر رہتا، کہ آخر ان اچھے بھلے لوگوں کو ہم سے جدا کرنے میں اسے ملتا کیا ہے؟
یہ تحصیل و گاؤں گل بانڈی کا علاقہ جہاں تحصیل و اسپتال دونوں واقع تھے، ایک طرف شمال میں علاقہ چکیسر سے ملا ہوا تھا، جہاں منگورہ کی جانب سے ’’مارتونگ‘‘ تک ایک کچی سڑک آئی تھی۔ مگر وہاں مارتونگ تک ہمارے اس مقام سے ٹھیک چھ گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ پیدل سفر تھا، کیوں کہ اس وقت تحصیل گل بانڈی سے مارتونگ تک کوئی سڑک نہیں تھی۔ جنوب میں پہلے ’’دیوانا بابا‘‘ اور پھر ’’بدال‘‘ تک بھی کچی سڑک بنی تھی۔ مگر یہاں پہنچنے کے لیے کم از کم چودہ مقامات پر پہاڑی ندیاں، جن کو پشتو میں ’’خوڑ‘ کہتے ہیں، کراس کرنا پڑتا تھا۔ اور بالآخر پانچ یا چھ گھنٹے کے پیدل سفر سے ہی آپ روڈ اور بس کی سہولت تک پہنچ جاتے تھے۔ ہمارے اسپتال اور تحصیل کی حدود میں چھوٹے چھوٹے دو چار ہوٹل ہوا کرتے تھے، جس میں چائے اور معمولی قسم کا کھانا بھی مل جاتا تھا۔ مگر ہمارے اور ہمارے مہمانوں کے لیے یہ انتظام ناقص یا نہ ہونے کے برابر تھا۔ کچھ تو علاقہ بونیر میں میرے دادا جان کے وسیع تعلقات تھے۔ وہاں سے ان کے دوست جب سوات اپنے سیاسی کاموں یا علاج معالجے کی خاطر آتے تھے تو منگورہ میں ہمارے آبائی گاؤں میں میرے دادا جان کے حجرے میں ہی ان کے مہمان ہوتے تھے، جو گاؤں میں دادا جان کا پہلا اور واحد حجرہ تھا۔ یہی لوگ بشمول والیٔ سوات کی بیرو کریسی، جب سیاحت کی غرض سے یا ذاتی کاموں کے سلسلے میں علاقہ چغرزئی آتے تھے تو ادھر ہمارا یہ سرکاری اسپتال ان کا مہمان خانہ، ہمارا گھر ان کا میزبان، اور گھر و باہر کے خادموں کے ساتھ ہم دو، یعنی میں اور میرا بڑا بھائی ان کے خدمت گار ہوتے تھے۔ ہم پر بیک وقت شمال یعنی مارتونگ کی طرف سے بھی، اور جنوب، دیوانہ بابا، بونیر کی جانب سے بھی مہمان کی ہر وقت یلغار رہتی تھی۔ ہمارے گھر میں کھانے کا کوئی وقت مقرر نہ تھا۔ گھر کے ظل سجانی کا حکم یہ تھا کہ جس وقت جو کوئی بھی آجائے، تیار کھانا تو ہر وقت اسے پیش کیا جانا چاہیے، ہاں…! خبردار جو خاص مہمان کے سامنے ’’عام‘‘ قسم کا کھانا رکھنے کی گستاخی کی گئی…!۔
خدا گواہ ہے کہ ان الفاظ سے احباب نہ تو ان مہمانوں کے حق میں میری طرف سے نفرت کے جذبات کا کوئی نتیجہ نکالیں، نہ اسے خود ستائی و خود نمائی پر محمول کریں۔ یہ رونقین وہ تھیں، جن کے پیچھے آج بھی ذاتی طور پر ہاتھ ملتا ہوں، اور انہیں زندگی کی حسین یادوں پر مشتمل اثاثہ سمجھتا ہوں۔
جن مہمانوں کی آمد کا ابھی انتظار ہے، وہ شمال کی جانب یعنی مارتونگ کی طرف سے وارد ہونے والے ہیں۔ ان مہمانوں نے ہمیں اپنی آمد کی اطلاع دی ہے۔ مگر کیسے؟ اس زمانے میں تحصیل کے اندر ایک سرکاری ’’میکینکل‘‘ ٹیلیفون ہوا کرتا تھا، جسے ’’تور ٹیلیفون‘‘ یعنی کالا ٹیلیفون کہا جاتا تھا۔ ہر مقام کے لیے گھنٹیوں کی تعداد مقرر تھی۔ غالباً تحصیل گل بانڈی کے لیے گھنٹیاں تین تھیں۔ ایک سپاہی سارا دن اس کے قریب بیٹھ کر ہر گھنٹے میں بجنے والی گھنٹیاں گنتا تھا۔ اگر ایک وقت میں گھنٹیاں تین سے کم یا زیادہ ہوتیں، تو کال، گل بانڈئی تحصیل کی نہیں، کسی اور تحصیل، تھانے یا ایکسچینج کے لیے سمجھی جاتی تھی، جسے پھر اٹھانا سخت منع تھا۔ ذرا سا خراب موسم اس جان بلب ٹیلیفون کی جان لینے کے لیے کافی ہوتا تھا۔ آپریٹر صاحب چند گھنٹوں کے فاصلے پر دور ایک گاؤں کے سیاسی اور بااثر خاندان کے چشم چراغ تھے، لہذا مرمت کے کام پر ان کی طرف سے توجہ مرحمت فرمانا گویا جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔ پھر وہ ہمارے ظل سجانی کے ذاتی دوستوں میں سے بھی تھے، چنانچہ تور ٹیلیفون کو درست کرنے کے لیے تشریف آوری پر کئی کئی دن تک… معہ تحصیل میں ذاتی کاموں کے لیے وارد شدہ، ان کے یاران و دوستان، دنوں نہیں، ہفتوں تک شرف میزبانی سے ہمیں مستفید کرواتے۔ ٹیلیفون کا حال اگر یہ تھا تو نہ معلوم ہمارے ان آنے والے مہمانان گرامی نے پہلے سے اپنی آمد کی اطلاع ہم تک کیسے پہنچائی، ہمیں ان کی شایان شان میزبانی کے لیے ’’مناسب‘‘ تیاریوں کا موقعہ کیسے عنایت کیا؟ یہ عقدہ آج تک نہ کھل سکا۔ کیوں کہ ہمارے کچھ وفا شعار اور مستقل مہمانان گرامی کے علاوہ باہر سے تشریف لانے والے اکثر، بلکہ تمام معزز مہمان ’’ناگہانی‘‘ قسم کے ہوتے تھے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More