امت رپورٹ
تحریک انصاف کی حکومت اگلے بلدیاتی الیکشن سے پہلے کھلا میدان چاہتی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت کو توقع ہے کہ اکتوبر 2019ء میں لوکل گورنمنٹ کے نئے انتخابات سے قبل نیب اور ایف آئی اے کے ریڈار پر موجود مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور پیپلز پارٹی کی ٹاپ لیڈر شپ کے بیشتر کیسز اپنے منطقی انجام تک پہنچ چکے ہوں گے اور اس کے نتیجے میں دونوں پارٹیوں کے مزید اہم رہنما سلاخوں کے پیچھے جا سکتے ہیں۔ یوں تحریک انصاف کی بلدیاتی الیکشن میں کامیابی کے لئے میدان کھلا ہو گا کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی دوسرے درجے کی قیادت منظم طریقے سے الیکشن لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔ ذرائع کے مطابق اپنے دورہ چین کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے امور حکومت سے متعلق بہت سی چیزوں کا مشاہدہ کیا، بالخصوص چین میں رائج ’’ون پارٹی رول‘‘ سے وہ بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ وزیر اعظم نے اس چینی درسگاہ کا وزٹ بھی کیا، جہاں سیاستدانوں کی تربیت کی جاتی ہے۔ ذرائع کے بقول چین کے ’’ون پارٹی رول‘‘ سے متاثر وزیر اعظم یہی خاکہ پاکستان میں بھی آزمانے کے خواہش مند ہیں۔ اور اس خواہش پر عمل اس وقت ہی ممکن ہے، جب ملک کی دو بڑی اپوزیشن پارٹیاں سیاسی طور پر غیر فعال ہو جائیں۔ ذرائع کے مطابق یہی وجہ ہے کہ اس وقت حکومت کی نظریں نیب کی طرف ہیں۔ جس قدر تیزی سے نیب اہم سیاسی رہنمائوں کے خلاف کرپشن کیسز کو منطقی انجام تک پہنچاتی ہے، اسی رفتار سے حکومت کی پوزیشن مضبوط ہوتی چلی جائے گی۔ ذرائع کے بقول خواجہ برادران کی گرفتاری سے حکومتی حلقوں میں خوشی کی لہر ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ پہلے ہی قیادت کے بحران سے دو چار نون لیگ کے لئے یہ ایک بڑا دھچکا ہے۔ اور اگر آنے والے دنوں میں مزید چند بڑے لیگی رہنمائوں کی گرفتاریاں بھی عمل میں آ جاتی ہیں تو اس کی بڑی بینیفشری پی ٹی آئی حکومت ہو گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ 25 جولائی کے عام انتخابات میں ہونے والی فتح کو پی ٹی آئی قیادت اب ’’نصف کامیابی‘‘ تصور کر رہی ہے۔ کیونکہ اکثریت نہ ملنے کے سبب اس کے ہاتھ پائوں بندھے ہیں۔ جبکہ اقتدار میں آنے سے قبل بڑے دعوے کر کے پی ٹی آئی نے عوامی توقعات آسمان پر پہنچا دی تھیں، جنہیں محدود مینڈیٹ کے سبب وہ پوری کرنے سے قاصر ہے۔ ذرائع کے بقول ان مشکلات کے پیش نظر ہی وزیر اعظم عمران خان نے ’’مڈٹرم الیکشن‘‘ کا عندیہ دیا۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے بعض رہنما قبل از وقت انتخابات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم کی اس بات کو درست طریقے سے بیان نہیں کیا گیا۔ تاہم پارٹی کے فیصلہ ساز رہنمائوں تک رسائی رکھنے والے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ وزیر اعظم کا یہ بیان محض زبان کا پھسلنا نہیں تھا، بلکہ انہوں نے سوچ سمجھ کر یہ بات کی اور اگر مستقبل قریب میں حکومت کو مطلوبہ اکثریت نہیں مل سکی تو پھر حکومت کی جانب سے ’’مڈٹرم الیکشن‘‘ کے آپشن کو استعمال کیا جانا خارج از امکان نہیں۔ ذرائع کے مطابق تاہم نئے بلدیاتی الیکشن سے پہلے اس آپشن کو اختیار نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ اس دوران حکومت اپنے پرانے اور ادھورے پلان پر دوبارہ عمل کرنا چاہتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس سلسلے میں ایک بار پھر تحریک انصاف کی نظریں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ممکنہ فارورڈ بلاک پر ہیں۔ حکمراں جماعت کا خیال ہے کہ نیب کے شکنجے میں آئے اہم رہنمائوں کی گرفتاری کے نتیجے میں نون لیگی ارکان اسمبلی کے درمیان مایوسی بڑھ رہی ہے اور یہ کہ مستقبل قریب میں چند مزید بڑی گرفتاریاں ہو جاتی ہیں تو ان مایوس ارکان کو توڑنے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ذرائع کے بقول مراد سعید نے جن سات لیگی ارکان قومی اسمبلی کی جانب سے این آر او مانگنے کی بات کی ہے، وہ غلط نہیں۔ کئی ایسے لیگی ارکان، جن کا مسلم لیگ ’’ن‘‘ سے کوئی قلبی لگائو نہیں اور ماضی میں دوسری پارٹیوں میں رہ چکے ہیں، وہ زیر عتاب پارٹی کا مزید حصہ بنے رہنے کے خواہش مند نہیں۔ ان میں سے بعض کو نیب انکوائریاں کھلنے کا خوف بھی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہی ارکان تحریک انصاف کا اصل ہدف ہیں۔ اگر ان کے ذریعے 10 سے 12 ارکان کا فارورڈ بلاک بن جاتا ہے تو محض 4 ووٹوں کی معمولی برتری سے مرکز میں حکومت بنانے والی پی ٹی آئی کی پوزیشن بہتر ہو سکتی ہے۔ جبکہ دو چار ووٹ رکھنے والی اتحادی پارٹیوں کی بلیک میلنگ سے بھی حکومت نکل سکے گی۔ ذرائع کے مطابق الیکشن سے پہلے اسی پلان کے تحت پی ٹی آئی نے نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے بہت سے امیدوار توڑے تھے۔ تاہم مطلوبہ اعداد حاصل نہ ہونے پر یہ پلان نامکمل رہا تھا۔ اب پی ٹی آئی اقتدار کے ایڈوانٹیج کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ادھورے پلان کو مکمل کرنا چاہتی ہے۔ اگر یہ پلان کامیاب نہیں ہو سکا تو پھر بلدیاتی الیکشن کے بعد حکومت ’’مڈٹرم الیکشن‘‘ کے آپشن کی طرف جائے گی۔
نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف اور خواجہ سعد کے بعد مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے جن مزید اہم رہنمائوں پر نیب کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ان میں شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف، حمزہ شہباز، احسن اقبال، ثناء اللہ زہری، انوشہ رحمن اور مریم اونگزیب سرفہرست ہیں۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی ٹھیکے میں نیب کی انکوائری کا سامنا ہے، جبکہ حساس معلومات افشا کرنے کے الزام میں ان کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوئے تھے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے رہنما عثمان ڈار نے حال ہی میں سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے نیب میں شواہد جمع کرانے کا دعویٰ کیا ہے۔ حمزہ شہباز کے خلاف صاف پانی اسکینڈل کی تحقیقات چل رہی ہیں۔ انہیں چند روز پہلے دوہا جانے والی فلائٹ سے نیچے اتارا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق اپنی ممکنہ گرفتاری سے بچنے کے لئے حمزہ شہباز بیرون ملک جانے کی کوشش کر رہے تھے اور یہ کہ ان کی واپسی کا امکان نہیں تھا۔ احسن اقبال کے ایک قریبی ساتھی اور پاکستان اسپورٹس بورڈ کے سابق ڈی جی ڈاکٹر اختر نواز کی کرپشن کیس میں گرفتاری نے سابق وزیر داخلہ کے سر پر بھی نیب کی تلوار لٹکا دی ہے۔ ڈاکٹر اختر نواز کو نارروال اسپورٹس سٹی پروجیکٹ میں گھپلے پر حراست میں لیا گیا تھا۔ اپنے آبائی حلقے میں یہ میگا پروجیکٹ شروع کرنے کے لئے بطور وزیر پلاننگ احسن اقبال نے خصوصی فنڈز مختص کئے تھے۔ مریم اورنگزیب کے خلاف بھی نیب کی انکوائری کھل چکی ہے۔ جبکہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری اور سابق وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمن کے خلاف بھی نیب کے ایگزیکٹیو بورڈ نے تفتیش کی اجازت دے دی ہے۔ لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ڈائے ہارڈ رہنما حنیف عباسی پہلے ہی جیل میں ہیں۔ طلال چوہدری اور دانیال عزیز پانچ، پانچ برس کے لئے نااہل ہو چکے ہیں۔ اسحق ڈار کی واپسی کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نہیں۔ ایسے میں نیب کے ہاتھوں دیگر اہم پارٹی رہنمائوں کی گرفتاری بھی ہو جاتی ہے تو اس کے بعد میدان میں یقیناً دوسرے درجے کی قیادت رہ جائے گی۔ تاہم لیگی ذرائع کا دعویٰ تھا کہ پارٹی کی اصل طاقت کارکنان ہیں، جو ابھی تک اپنے قائدین کے پیچھے کھڑے ہیں۔ لہٰذا مرکزی قیادت کی عدم دستیابی پر بھی پارٹی نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھے گی، بلکہ اپوزیشن کے طور پر بھی اپنا بھرپور کردار کرتی رہے گی۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، شریک چیئرمین آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور ایف آئی اے کے زیر تفتیش ہیں۔ جبکہ نیب کے ریڈار پر آنے والے پیپلز پارٹی کے دیگر ہیوی ویٹ رہنمائوں میں سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ، سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ، موجودہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ، سابق صوبائی وزیر منظور وسان، سابق رکن قومی اسمبلی نواب وسان اور دیگر شامل ہیں۔ خورشید شاہ کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثے رکھنے کے الزام میں قریباً ڈھائی ماہ قبل نیب نے انکوائری شروع کی تھی۔ انہی الزامات کے تحت خورشید شاہ کے بیٹے اور داماد کے خلاف بھی نیب میں تحقیقات جاری ہیں۔ معمر سیاستدان قائم علی شاہ کو غیر قانونی الاٹمنٹ کیس کا سامنا ہے۔ جبکہ ڈیڑھ ماہ قبل نیب نے کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں جن سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کی فہرست جاری کی تھی ان میں مراد علی شاہ کا نام بھی شامل ہے۔
٭٭٭٭٭