سائنسی تحقیق کا اثر معاشرے کی فلاح وبہبود کیلئے ہونا چاہیے- مقررین
کراچی(اسٹاف رپورٹر)جامعہ کراچی کے ڈاکٹر اے کیوخان انسٹی ٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ اور پاکستان سوئٹی فار بائیوکیمسٹری اینڈ مالیکیولربائیولوجی(پی ایس بی ایم بی)کے زیر اہتمام چار روزہ چودہویں بائینیل کانفرنس بعنوان ”مالیکیولر بائیوسائنسزریسرچ اینڈ اینوویشنز“ کے تیسرے روز خطاب کرتے ہوئے پروفیسرڈاکٹرانورعلی صدیقی نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک میں تحقیق کے بحران کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ تحقیقی فنڈنگ بہت قلیل مقدار میں فراہم کی جاتی ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ”پیراشوٹ سائنس“ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مقامی آبادی سے نمونے حاصل کرنے کے بعد تجزیہ کے لئے بیرون ممالک بھیجنا اور وہاں سے حاصل ہونے والے نتائج کا شائع کرنا کسی بھی طرح تحقیق کے معیار کو بڑھانے میں مددگار ثابت نہیں ہوگا۔ سائنسی تحقیق کا براہ راست اثر معاشرے کی فلاح وبہبود کے لئے ہونا چاہیئے ،اسی لئے امپکٹ فیکٹر کے بجائے تحقیق کے امپکٹ کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈبلیو ایچ اواور ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ بیس سالوں میں جان لیوا بیماریوں کی فہرست میں بتدریج تبدیلی آئی ہے اور باوجود یہ کہ تحقیقی پرچوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے ،سائنسی تحقیق کےمعاشرے پرخاطرخواہ اثرات نظر نہیں آتے۔ انسٹی ٹیوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ کے ڈاکٹر عبدالحمید نے کہا کہ جینیات کے مطالعے سے انسانی امراض پربہت سارا جنیانی ڈیٹا اکھٹا کیا جاچکا ہے جس کے تجزیے سے ان امراض کی شناخت ،میوٹیشن اور ان کے مرض سے تعلق کو استوار کرنے میں مدد ملتی ہے۔بیرٹ ہاجسن یونیورسٹی کےپروفیسرڈاکٹر شکیل احمد خان،یونیورسٹی آف پنجاب لاہور کے اسکول آف بائیولوجیکل سائنسز کے پروفیسراور پاکستان سوسائٹی فاربائیوکیمسٹری اینڈ مالیکولر بائیولوجی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر محمد وحید اخترنے بھی خطاب کیا۔