عفت بتول
پرآسائش زندگی کے باوجود میرا دل بے سکون و بیقرار تھا- دین حق قبول کرنے کے بعد زندگی کا حقیقی مقصد حاصل کرلیا-سابق فلپائنی اداکارہ کوئینی پیڈیلادنیا کے تمام مذاہب کے مقابلے میں اسلام سب سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے اور چند دہائیوں بعد یہ عیسائیت کو پیچھے چھوڑ دے گا۔یہ بات ورلڈ اکنامک فورم نے پیو ریسرچ سینٹر کی ایک تحقیق کے حوالے سے بتائی۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 2070 تک اسلام عیسائیت کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔تحقیق میں 2010 میں دنیا کے مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد دی گئی ہے اور 2050 تک اس میں اضافے کا تخمینہ بھی لگایا گیا ۔اسلام کا تیزی سے پھیلنا ہی اس کی حقانیت ، اور سچائی کی دلیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں موجود اسلام کے دشمن جتنی ہی اس دین برحق کے خلاف سازشیں کرتے ہیں اور اللہ کے بھیجے ہوئے اس آخری آسمانی مذہب کو جھٹلاتے ہیں ۔اتنا ہی ان کے حربے ناکام ہوتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ ان ہی کے ملک کے تحقیقاتی ادارے یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اسلام دنیا میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔اسلام کی سچائی اور اس کی حقانیت کو دیکھتے ہوئے ناصرف عام غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا بلکہ کئی ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو کہ اپنے فن کے عروج پر تھے۔پھر ان پر اللہ کی رحمت ہوئی اور وہ اسلام کی جانب راغب ہوئے،اور بالآخر مسلمان ہوئے۔ان کی سابقہ زندگی کو دیکھتے ہوئے جہاں ان کے اس عمل پر حیرانی کا اطہار کیاگیا وہاں ان پر بے وجہ تنقید بھی کی گئی۔ کئی میڈیا کے اداروں نے جاننا چاہا کہ آخر ایسی کیا بات تھی جو انہیں قبول اسلام کی جانب لائی، اگرچہ اس جاننے کے پیچھے بھی تنقید اور تضحیک کا جذبہ کارفرما رہا مگر ان لوگوں نے ہمیشہ سوال کرنے والوںکولاجواب کیا۔اور اعتراف کیا کہ بے شک دین اسلام کی سچائی نے انہیں اس کی جانب راغب کیا اس عمل کے پیچھے کوئی مطلب کوئی لالچ کارفرما نہیں تھی۔ ایسی ہی ایک فلپائیننی اداکارہ جس نے جب اسلام قبول کیا تو اس کے جاننے والے ورطہ حیرت میں ڈوب گئے۔کیوں کہ اس اداکارہ کا تعلق ایک فنکار گھرانے سے تھا ۔بے شک ، اللہ جسے چاہے ہدایت دے۔
فلپائن سے تعلق رکھنے والی اداکارہ کوئینی پیڈیلا نے قبول اسلام کے بعد اپنے ایک بیان میں کہاکہ میں بہت بہکی ہوئی تھی، دنیا کی رنگینیوں میں کھوئی ہوئی تھی، رات اور دن انتہائی مصروف تھے۔ میرے چاہنے والوں کی بھی کمی نہ تھی۔ میری اک اک ادا کو اہمیت دی جاتی تھی۔ میں کلبوں کی میں زینت ہوا کرتی تھی، پیسے کی ریل پیل تھی، نئی سے نئی گاڑی میرے پاس تھی۔ عمدہ اور مزین گھر تھا، لیکن ان سب آسائشوں کے باوجود میرا دل بے قرار تھا۔ میرے دل کو سکون و اطمینان نہیں تھا۔ میں ناخوش رہا کرتی تھی۔ مجھے دنیا میں زندگی گزارنا ادھورا لگ رہا تھا۔ کسی چیز کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی تھی۔ میں اپنی زندگی میں تبدیلی لانا چاہتی تھی۔ ایسی تبدیلی جس میں سکون ہو، طمانیت ہو، ٹھہرائو ہو۔ میرے دل کی آواز رنگ لائی اور میری کایا ہی پلٹ گئی۔
یہ تاثرات تھے کوئینی پیڈیلا کے جو کہ فلپائنی معروف اداکارہ تھیں۔ اس نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی شہرت اور شوبز لائف کو خیر باد کہہ دیا فلپائنی اداکارہ روبن پیڈیلا کی بیٹی ہے، گویا اداکاری اسے وراثت میں ملی تھی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ حج کے لئے چلی گئی۔ اپنے جسم کی نمائش کرنے والی نے اپنے جسم کوکالی چادر میں چھپا لیا تھا۔ اللہ کے گھر کا نظارہ کرنے اور حج کی ادائیگی کے بعد ایک انگریزی چینل نے انٹرویو لیا تو وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی، روئے جا رہی تھی اور کہتی ہے کہ مجھے لگ رہا تھا کہ میرا کوئی ہمدرد نہیں، میں ایک گنہگار شخصیت ہوں۔ پھر الحمدللہ! اللہ نے مجھ ناچیز کو اپنے گھر بلا لیا، میں اللہ کے گھر کو دیکھے جا رہی تھی۔ آنسو آنکھوں سے لگا تاربہہ رہے تھے اور زبان پر شکر کے کلمات تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ یہ اسلام لانے کی خوشی کے آنسو تھے یا کہ بیکار زندگی گزارنے کے آنسو،میں نے اپنے کئی سال غیر حقیقی زندگی میں گزار دیئے اس کا بے حد افسوس ہے۔ لیکن ،الحمدللہ! اب میں اپنے آپ کو اللہ کے بے حد قریب پاتی ہوں۔ اسلام اپنانے سے مجھے تحفظ ملا ہے۔ اس نے اپنا نیا نام خدیجہ رکھ لیا ہے۔ مزید کہتی ہے کہ اسلام زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اب میں جانتی ہوں کہ میری زندگی کا حقیقی مقصد حاصل ہو گیا ہے۔ اسلام ایک امن والا مذہب ہے۔ اس میں ہر قسم کے لوگ داخل ہو جاتے ہیں۔ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں، اسلام مکمل طور پر انسان کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ میں بہت خوش ہوں کہ میں ایک مسلمہ ہوں اب میں اسلام کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کروں گی۔
(کوئینی پیڈیلا) خدیجہ جن کا قبول اسلام سے پہلے کانام کوئینی پیڈیلا تھاکا تعلق فلپائن سے ہے۔ فلپائن عیسائی ملک ہے، جہاں 90 فیصد عیسائی آباد ہیں، 80 فیصد رومن کیتھولک ہیں، کچھ لوگ مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں اور مسلمان تو کم تعداد میں ہیں۔فلپائن میں اسلام کا یہ ایک نیا پودا نمو پذیر ہے۔
نامور اطالوی (ITALIAN) اداکارہ مارشیلا جہان فن کے ان ممتاز اسٹارز میں شامل ہیں، جنہوں نے آبائی مذہب چھوڑ کر دین حق اسلام کی گود عاطفت میں پناہ لی اور دنیوی و اخروی کامیابیوں سے ہمکنار ہو گئی۔ متعدد فلموں کو اپنے جوہر فن سے آراستہ کرنے والی صف اول کی اس اداکارہ اپنے تجربے کو بیان کرتی ہیں
دوسری عالمی جنگ پر بننے والی فلم کی شوٹنگ کے لیے مجھے اپنی یونٹ کے ساتھ مصر کے ایک شہر مرسی مطروح جانا ہوا۔ وہ سفر میرے لیے روشنی کا سفر ثابت ہوا اور میری زندگی کی کایا پلٹ گئی۔ اس شہر سے گزرتے ہوئے ہمیں ایک مقام پر تھوڑی دیر کے لیے رکنا پڑا۔ میں نے دیکھا کہ وہاں پر موجود ایک عمارت سے متصل حصے میں کچھ لوگ ہاتھ منہ دھونے کے بعد جوتے اتار کر ایک عمارت میں داخل ہورہے ہیں اور قطاروں میں کھڑے ہو کر اٹھنے بیٹھنے کا سا عمل کررہے ہیں۔
یہ منظر دیکھ کر مجھے تجسس ہوا۔ جی چاہا اس قدر دیدہ زیب منظر کو قریب سے دیکھنا چاہئے۔ اپنی گاڑی سے اتری۔ اس عمارت کے قریب چلی گئی۔ وہاں پہنچ کر کیا دیکھتی ہوں کہ اب وہ سب لوگ پرسکون انداز میں بیٹھے کچھ پڑھ رہے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک نے بھی میری طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ اس مشاہدے کے پرسکون لمحات مجھے اپنی پوری زندگی میں کبھی میسر نہیں آئے تھے۔
وہاں لوگوں سے پوچھنے پر انہیں پتہ چلا کہ یہ عمارت مسجد ہے۔ اندر موجود لوگ مسلمان ہیں اور عبادت کررہے ہیں۔ مارشیلا انجلو نے زندگی میں پہلی بار مسجد دیکھی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ مسلمان نام کی جماعت ہی کو پہلی بار دیکھا تھا۔ پتہ نہیں کیوں دوسرے دن مارشیلا انجلو کھچی کچھی پھر مسجد کی طرف چلی گئیں۔ وہ دوبارہ مسلمانوں کی اس جماعت کو نماز ادا کرتے ہوئے دیکھنے کی متمنی تھیں۔ انہیں منظم طور پر عبادت کرتے ہوئے دیکھ کر مارشیلا انجلو کو قلبی سکون کا احساس ہوا تھا اور عبادت کے لیے ان لوگوں کی پاکبازی بالخصوص کامل مساوات پر رشک آیا۔ انتشار و افتراق کی اس دنیا میں چند بندگان خدا ایک صف میں کھڑے بے حد بھلے لگ رہے تھے۔ نماز کے اختتام پر جب نمازی مسجد سے باہر آئے تو مارشل انجلو نے بات کرتے ہوئے ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ ان سے بات کرنے کا موقع ملا تو وہ مارشیلا انجلو کو بہن اور بیٹی کہہ کر بات کررہے تھے۔
مصر میں شوٹنگ ختم ہونے کے بعد فلمی یونٹ کے ساتھ مارشیلا انجلو اٹلی لوٹ آئی۔ اٹلی میں اس کا ایک دوست شوہر کی طرح اس کے ساتھ رہتا تھا۔ گھر واپس آنے کے بعد مارشیلا انجلو نے اس رشتے کی حرمت پر غور کیا۔ اس دوران محسوس کرنے لگی کہ یہ رشتہ خرابی پر مبنی ہے، مذکورہ مسجد میں لوگوں کی عبادت، مارشیلا کے سوال پر نیچی نظریں رکھے بات کرنا اور بیٹی، بہن کہہ کر مخاطب کرنا یہ سب باتیں یاد آئیں تو مارشیلا نے مسلمانوں کے متعلق بہت کچھ سوچنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اور ایک مرحلے پر مارشیلا انجلو کو اپنے منہ بولے شوہر کے رشتے سے گھن آنے لگی۔ اور اس نے ’’شوہر‘‘ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ وہ فلموں میں مزید معاہدوں پر دستخط کرنے سے گریز کرنے لگی۔ وہ اپنے گھر کے خاموش حصے میں بیٹھ کر مسلمانوں کی عبادت کے متعلق گھنٹوں سوچتی رہتی۔ اس کے ذہن میں مصر کی وہ چھوٹی سی مسجد جہاں وہ مسلمانوں کا اخلاق، ان کی عبادت بھی بے پناہ سادہ، نماز میں چھوٹے بڑے کی برابری، ان لوگوں کا نظریں زمین میں گاڑے رکھنا، یہ تمام باتیں اس کے قلب و ذہن میں کچھ اس طرح نقش ہو گئی تھیں کہ وہ تصور ہی تصور میں بار بار مصر کی مذکورہ مسجد میں پہنچ جاتی۔
ایک روز وہ ایک رستے سے گزر رہی تھی کہ اس کی نظر ایک بورڈ پر پڑی جس پر لکھا تھا مسجد،وہ اس عمارت میں داخل ہو گئیں۔ وہاں موجود لوگ ان کے ساتھ بے حد شفقت سے پیش آئے۔ انہوں نے ان سے دین اسلام کے بارے میں جاننے کے لیے کچھ کتابیں طلب کیں۔ نہایت ادب سے کتابیں فراہم کر دی گئیں۔
وہ ان کتابوں کا نہایت سنجیدگی کے ساتھ ساتھ دن میں کئی کئی گھنٹے تک مطالعہ کرتی رہیں۔ یہ مطالعہ ہر بار نور اور ہدایت کا ایک نیا باب روشن کرتا رہا۔ ایک شام وہ دوبارہ اسلامی مرکز پہنچیں اور انتظامیہ سے اسلام قبول کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان کا خیال تھا کہ اسلام قبول کرنے کی کارروائی میں کچھ وقت لگے گا۔ مگر اسلامی مرکز والوں نے کہا کہ اسلام قبول کرنے میں کسی خاص کارروائی کی ضرورت نہیں۔ مارشیلا انجلو نے کلمہ طیبہ پڑھا اور مسلمان ہو گئیں۔ کچھ دنوں کے بعد مارشیلا انجلو کے ’’دوست‘‘ نے بھی اسلام قبول کر لیا، جو ان کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ مرکز کے لوگوں نے ان کا نام عبداللہ رکھا۔ وہ مارشیلا انجلو کے ساتھ پابندی سے دینی تعلیم کے مرکز جانے لگے۔ مرکز ہی کے ایک بزرگ نے ان کا نکاح پڑھایا اور مارشیلا انجلو فاطمہ عبداللہ بن گئیں۔دنیائے شوبز سے تعلق رکھنے والی غیرمسلم شخصیات کے اسلام قبول کرنے کی یہ دو مثالیں ہی نہیں ہیںایسی بے شمار مثالیں دنا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں
‘لورین بوتھ برطانوی براڈکاسٹر، صحافی اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ سابق برطانوی وزیراعظم کی اہلیہ شیری بلیئر کی سوتیلی بہن ہیں۔
انھوں نے سنہ 2010 میں ایک مسلمان سہیل احمد سے شادی کے بعد اسلام قبول کیا تھا۔اکتوبر 2010 میں وہ اسلام چینل کے عالمی امن اور اتحاد کی تقریب میں حجاب پہن کر آئی تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ فلسطین میں بطور رپورٹر ان کے تجربات نے ان کے شعور کو جگایا۔
اے آر رحمان کا شمار انڈیا کے کامیاب ترین موسیقاروں میں ہوتا ہے، ان کا جنم ایک ہندو گھرانے میں ہوا تھا اورانھوں نے 20 کے پیٹے کے اوائل میں? اسلام قبول کر لیا تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انھوں نے اپنا اے ایس دلیپ کمار سے اللہ رکھا رحمان رکھ لیا تھا تاہم انھیں اے آر رحمان سے جانا جاتا ہے۔
جرمن ٹی وی میزبان کرسٹین بیکر کا شمار اسلام قبول کرنے والی معروف جرمن شخصیات میں ہوتا ہے۔ سنہ 1992 میں ان کی ملاقات عمران خان سے ہوئی جنھوں نے انھیں اسلام سے متعارف کروایا۔ اس دوران انھوں نے پاکستان کا بھی دورہ کیا اور تین سال غور و فکر اور مطالعے کے بعد سنہ 1995 میں باقاعدہ اسلام قبول کیا۔ معروف برطانوی گلوکار کیٹ سٹیونز نے دسمبر 1977 میں اسلام قبول کیا اور سنہ 1978 میں باضابطہ طور پر اپنا نام تبدیل کرتے ہوئے یوسف اسلام رکھ لیا تھا۔سنہ 1979 میں انھوں نے اپنے فلاحی کاموں کے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے اپنے تمام گٹار فروخت کر دیے اور موسیقی سے دور ہوگئے۔
تاہم سنہ 2006 میں ان کی پاپ موسیقی میں دوبارہ واپسی ہوئی اور 28 سال کے بعد ان کا پہلا البم این ادر کپ ریلیز ہوا تھا۔ حال ہی میں ایک آئرش گلوکارہ شنیڈ او کونر نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔نوے کی دہائی میں اپنے گیت نتھنگ کمپیئرز ٹو یو سے شہرت کی بلندیوں تک پہنچنے والی فنکارہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنا نام تبدیل کر کے شہدا رکھ لیا ہے۔
ٹوئیٹر پر اپنے ایک پیغام میں انھوں نے حوصلہ افزائی پر اپنے ساتھی مسلمانوں کا شکریہ ادا کیا ہے اور اذان دیتے ہوئے اپنی ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے۔ (بشکریہ:غازی)
٭٭٭٭٭
Next Post