نواز شریف جونیجو کو ہٹاکر مسلم لیگ کا صدر بننا چاہتے تھے

0

س: اسی میٹنگ میں میاں نواز شریف نے آپ سے کہا کہ ’’آپ ٹکٹ لے کے لندن چلے جائیں‘‘۔
ج: محمد خاں لندن گئے ہوئے تھے۔ نواز شریف مجھے کہتے ہیں، یہ ٹکٹ لیں۔ سویرے جہاز پر بیٹھ کے لندن جائیں۔ وہاں ایئرپورٹ پر آپ کو ریسیو کرنے کے لیے آدمی موجود ہوں گے۔ ٹرانسپورٹ وہاں ہوگی۔ آپ کے لیے رہائش کا انتظام ہو گا۔ محمد خاں کو وہاں چھوڑ آئیں۔
س: تاکہ مسلم لیگ صدارت پر میں قبضہ کر لوں۔
ج: میں نے کہا، محمد خاں کیا ہے۔ وہ آپ کو کیا کہتا ہے۔ وہ شریف آدمی تو مجھے آپ سے ٹکٹ لے کے نہیں دے سکا۔ حالانکہ قانونی طور پر ٹکٹ اس نے دینا تھا۔ آپ کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ آپ کا وہ کیا بگاڑ لے گا۔ شریف آدمی ہے۔ اس کا نام لوگ اچھے لفظوں میں لیتے ہیں۔ ہم وَرت وُرت لیں گے اس کے نام کو۔ وہ آپ کے راستے میں رکاوٹ نہیں۔ اسے ٹکا رہنے دیں۔ اندر سے تو میں جانتا ہوں کہ محمد خاں کیا ہے۔
س: آپ پھر لندن گئے؟
ج: اتفاق کی بات ہے کہ میں نے مئی میں لندن جانا تھا۔ محمد خاں وہاں گئے ہوئے تھے۔ مسلم لیگیوں نے وہاں ان کا دورہ کر رکھا تھا۔ محمد خاں جس طرح کا بندہ تھا۔ یہ جو ہمارے صدر ہیں نام حامد ناصر چٹھہ، یہ ان کے صحیح جانشین ہیں، محمد خاں جونیجو کے۔ میں نے لندن کے لیے ٹکٹ خریدا ہوا تھا۔ کیونکہ جونیجو صاحب نے کہا تھا کہ آپ آئیں گے تو میں دورے پر جائوں گا، ورنہ نہیں۔ مئی (90ئ) میں جس روز دس بجے کی فلائٹ پر میں نے لندن جانا تھا، اسی شام انور سیف اللہ کا بھائی ہمایوں سیف اللہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گیا۔ سرحد میں کرائسس پیدا ہو گیا۔ میں نے دل میں سوچا کہ اب کیا کروں۔ لندن چلا گیا تو ادھر ٹوٹ پھوٹ ہو جائے گی۔ میں نے وہ دورہ ملتوی کر دیا۔ میں نے محمد خاں کو ٹیلی فون کیا کہ یہ صورت حال ہو گئی ہے۔ اب میں نہیں آرہا۔ وہ ٹکٹ ابھی میرے پاس تھا۔ میں نے نواز شریف سے کہا کہ اگر لندن جانا ہے تو ٹکٹ میرے پاس ہے۔ لیکن میں کیوں جائوں؟ خیر، اٹھ کھڑے ہوئے۔ مجھ سے پوچھا، کل آپ کی کیا مصروفیت ہے۔ میں نے کہا، کوئی نہیں۔ کہتے ہیں، پھر کل گیارہ بجے آجانا۔ میں چلا گیا۔ چوہدری نثار بھی ان کے پاس بیٹھا تھا۔ انہوں نے پوری کارروائی جو کل ہوئی تھی، وہ ساری چوہدری نثار کو سنائی۔ میرا وہی جواب تھا جو پہلے تھا۔ ACTUALLY I WEPT۔ میں سچی مچی رو پڑا۔ میں نے اسے کہا، میاں صاحب باقی چھوڑیں، میں نے پیسے کے ساتھ کبھی سودا نہیں کیا ضمیر کا۔ آپ ساری ہسٹری دیکھیں۔ ہم تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔ میں منافقت نہیں کرتا۔ I DONT LIKE THE MAN (میں اس شخص کو پسند نہیں کرتا) میں نے اسے بڑے خلوص سے ساری کہانی سنائی کونسل اور کنونشن لیگ کی۔ میں نے کہا، سارے اقتدار پرست ایوب خاں کے ساتھ چلے گئے۔ کونسل مسلم لیگ میں چند لوگ تھے۔ VERY FEW PEOPLE کنونشن لیگ بڑی جماعت تھی۔ حکمران جماعت تھی۔ کونسل لیگ کمزور ترین جماعت تھی۔ چند بندے تھے۔
س: پیسے بھی نہیں ہوتے تھے۔
ج: میں نے کہا، آپ تجزیہ کریں تو ایوب خاں کے ڈائون فال (زوال) کا باعث کونسل لیگیوں کا وہ چھوٹا سا گروپ تھا۔
س: مادر ملتؒ بھی ایوب خاں کے خلاف کونسل مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑی ہوئیں؟
ج: میں نے کہا، ایک اینٹ نکل گئی سارا مکان ڈھے گیا۔ پھر اس نے مجھے آخری REQUEST (درخواست) کی، کہ اچھا کونسل کا اجلاس بلوا لیں۔ مطلب یہ تھا کہ میں خود ہی اجلاس سے نپٹ لوں گا۔ میں نے کہا، کونسل کا مسئلہ متنازع ہے۔ میں واپس اسلام آباد چلا گیا۔ غلام حیدر وائیں صاحب نے مجھے ایک LOVE LETTER (محبت نامہ) لکھا، جس میں کونسل کی پوری لسٹ دی ہوئی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ یہ اجلاس بلائیں گے۔ محمد خاں کے خلاف قرارداد پاس کرائیں گے، اور نواز شریف کو صدر بنا دیں گے۔ برادرم، میں نے چٹھی لکھی وائیں صاحب کو کہ یہ کونسل، مسلم لیگ کے آئین کے مطابق نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ لکھ کے میں نے لکھا، لہٰذا میں کونسل جو آئین کے مطابق ہے اسے دہراتا ہوں۔ جب وہ لیٹر ٹائپ شائپ ہو کے آگیا تو مجھے خیال آیا کہ محمد خاں تو بس یونہی سا بندہ رہے گا۔ جب نواز شریف نے محمد خاں کو ٹیلی فون کرنا ہے: سر، خاں صاحب نے وہ لسٹ رجیکٹ کر دی ہے، تو محمد خاں نے کہنا ہے کہ کوئی بات نہیں۔ آپ مجھے بھیج دیں۔ پھر (محمد خاں) مجھے کہیں گے کہ خاں صاحب، آپ نے کیوں رجیکٹ کر دی۔ میں نے سوچا، پھر میرے پلے کیا رہ جائے گا۔ میں اوائڈ کرنا چاہتا تھا کہ نواز شریف بزور شمشیر صدارت پر قابض نہ ہو جائیں، اس لیے میں نے نیا لیٹر لکھا کہ یہ اس لحاظ سے غیرقانونی لسٹ ہے، اس لیے صدر پاکستان مسلم لیگ اور پنجاب مسلم لیگ آپس میں بیٹھ کے اس ایشو کو حل کریں۔ یہ لیٹر لکھ کے میں نے وائیں صاحب کو بھیج دیا۔ (90ء کی) اسمبلیاں ٹوٹنے سے دو تین دن پہلے کا واقعہ ہے کہ نواز شریف مجھے ملے۔ کہنے لگے، آپ بڑی قانونی موشگافیاں کرتے ہیں۔ آپ کو اس کا مُل پڑ جائے گا۔ میں نے کہا، مجھے کیا مُل پڑے گا۔ میں نے فیصلہ کر لیا تو پھر لڑوں گا حلقہ 95 سے۔ نتیجہ جو ہو سو ہو۔ شہباز شریف ساتھ تھا۔ کہنے لگا، حلقہ 95۔ اوں، اوں، آپ باغبانپورہ جاکے لڑیں۔ میں نے کہا، جب میں نے لڑنا ہی ہے تو میں آپ سے براہ راست لڑوں گا۔ باغبانپورہ میں کیوں جائوں۔ تھوڑے دنوں بعد اسمبلیاں ٹوٹ گئیں۔ اب دوسرے محمد خاں کے ساتھ ہمارا واسطہ پڑا ہوا ہے۔
س: آپ نے کہا ہے کہ ’’اندر سے تو میں جانتا ہوں کہ محمد خاں کیا ہے‘‘۔
ج: میں نے تو وہ کبھی بات نہیں کی۔ بندہ چنگا نئیں لگدا۔ وہ فوت ہو چکا ہے۔ ہم اس کے ساتھ رہے تھے۔
س: ویسے وہ اندر سے کیا تھے؟
ج: محمد خاں کوئی شے ہی نہیں تھا، کسی لحاظ سے بھی۔
س: شخصی اعتبار سے۔
ج: کچھ بھی نہیں تھا وہ۔ سوائے اس کے کہ وہ ایک دیانت دار آدمی تھا دیانت دار، کبھی کبھی میں کہتا ہوں کہ ہر کمزور آدمی دیانت دار ہوتا ہے۔ جس میں INITIATIVE (پہل قدمی) ہی نہیں۔ وہ آدمی جو ہے کیا نام ہے اس کا۔ یونس حبیب۔ وہ اگر پانچ چھ سو کروڑ کھا گیا ہے۔ وہ تگڑا تھا۔ اقبال احمد خاں نہیں کھا سکا پانچ روپے بھی۔
س: یہ ضروری نہیں کہ ہر کمزور آدمی دیانت دار ہو۔ میرا فلسفہ یہ ہے کہ بہادر آدمی دیانت دار ہوتا ہے۔ آپ قائداعظمؒ اور ان کے رفقا کو دیکھیں، دیانت دار بھی تھے اور طاقتور بھی۔ اور بہادر بھی۔
ج: بہرحال، اس کا کیا جواب ہے کہ ساری دنیا کو پتہ ہے کہ نواز شریف کا محمد خاں کے ساتھ صدارت کا جھگڑا رہا ہے۔ ساری دنیا کو پتہ ہے کہ محمد خاں کو اس نے کبھی گھاس نہیں ڈالی۔ اپنے پتر کو کیوں اس نے بنوایا ایڈوائزر۔ پتر تو اس کا نواز شریف کا ایڈوائزر تھا۔ WITH THE STATUS OF A FULI MINISTER۔ (ایک مکمل وزیر کے رتبے کے ساتھ)۔ ڈھائی برس رہا وہ لڑکا۔ کیوں بن گیا جی۔ اگر محمد خاں اتنا ہی تھا UPRIGHT (راست باز) پھر پتر کو کیوں بنوایا۔ اس واسطے، چونکہ ذہنیت جاگیردارانہ ہے۔ اقتدار ہونا چاہئے۔ ہم نے کئی بار دیکھنا۔ کہیں جانا ہے۔ نواز شریف تو بڑا SHREWD (ہوشیار) آدمی تھا اس معاملے میں۔ محمد خاں نے مجھے کہنا، ’’سائیں آپ وہاں پہنچ جائیں۔ میاں صاحب کا مجھے ٹیلی فون آیا تھا کہ آپ میرے ساتھ چلیں، سرکاری جہاز پر‘‘۔ ہم نے تو ٹرک شرک پر بیٹھ کے جانا کسی جلسے میں۔ میں نے انہیں کئی بار کہنا، محمد خاں خدا کا خوف کریں۔ آپ ان کے ساتھ جائیں گے تو مر جائیں گے۔ کیونکہ جب وزیر اعظم ساتھ ہو گا اور آپ جب ایئرپورٹ پر اتریں گے، ہار تو اس کے گلے میں پڑیں گے۔ آپ کو کسی نے پوچھنا نہیں۔ سارا ٹی وی میڈیا اس کے ساتھ ہو گا۔ سویرے اخبار میں خبر چھپے گی تو آپ کا نام کہیں نکرے لگا ہوگا۔ اسی کا نام ہوگا۔ آپ اگر انڈی پنڈنٹ جائیں گے تو آپ کو بطور صدر ریسیو کریں گے۔ آپ کا علیحدہ پروٹوکول بنے گا۔ آپ کی الگ خبر بنے گی۔ انہوں نے کہنا، نہیں سائیں، وہ میاں صاحب نے کہا تھا میرے ساتھ جانا۔ میں نے کئی بار کھپ کھپ کے انہیں کہنا کہ نہیں آپ کو تکلیف ہے گی۔ وزیر اعظم کے جہاز میں بیٹھنے کا شوق ہے۔ کبھی گاڑی شاڑی ہو تو کہنا میں میاں صاحب کے ساتھ جائوں گا۔
س: آپ کہتے ہیں کہ یہ جاگیردارانہ سائیکی ہے۔ غلام حیدر وائیں چیف منسٹر پنجاب تھے، وہاں جونیجو صاحب کی زمیندارانہ سائیکی کیا تھی؟
ج: محمد خاں صاحب بڑے تابعدار تھے غلام حیدر وائیں کے۔ بہت تابعدار اس کے۔
س: کیوں؟
ج: وائیں کے تابعدار نہیں تھے، چیف منسٹر کے تھے۔ PSYCHE (نفسیات) کو اسٹڈی کریں نا، زمینداروں کی ذہنیت کیا ہوتی ہے۔ آپ ٹیپ کو بند کر دیں۔ آپ کو ایک نکتہ دیتا ہوں۔ آپ تجربہ کرلیں۔
محمد خاں کو میں بہت متاثر دیکھتا رہا ہوں۔ انہیں تو کوئی عام وزیر مل جاتا تھا تو بھی۔ ایک دن بات ہوئی۔ میں نے کہا، بات سنیں، وائیں کو تو میں جانتا ہوں۔ کہنے لگے، سائیں وہ بڑے آدمی ہیں۔ وہ چیف منسٹر ہیں۔ کئی دفعہ محمد خاں نے میرے ساتھ صلاح کرنی تو انہوں نے کہنا، سائیں ذرا وائیں صاحب سے پوچھ لینے دیں۔ وائیں نہیں کہتے تھے، چیف منسٹر صاحب کہتے تھے۔ یہ ذہنیتیں ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More