سری نگر/ لاہور (امت نیوز / نمائندہ امت) بھارتی فوج نے 11 کشمیری شہید اور250 سے زائد کو زخمی کر کے مقبوضہ کشمیر کو ہلا کر رکھ دیا۔ شہدا میں حزب المجاہدین کے3 مجاہدین و 8 نہتے کشمیری شامل ہیں، جنہوں نے مجاہدین بچانے کیلئے ڈھال بننے کی کوشش میں اپنی جانیں نچھاور کیں۔ بھارت نے کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے بعد اپنا بدنما چہرہ دنیا کے سامنے آنے سے روکنے کیلئے مقبوضہ کشمیر بھر میں موبائل، انٹرنیٹ و ریل سروس بند کر دی۔ ایک شہید مجاہد سابق بھارتی فوجی ہے اور ایک نے ملائیشیا سے ایم بی اے کیا تھا۔ نہتے کشمیریوں کے قتل عام کی خبر پھیلتے ہی مقبوضہ کشمیر بھر میں احتجاجی مظاہرے پھیل گئے۔ مظاہرین نے پاکستانی پرچم اٹھا کر احتجاج کیا، اس دوران فضا بھارت و بھارتی فوج کیخلاف، آزادی و شہدا کے حق میں فلک شگاف نعروں سے گونجتی رہی۔ سری نگر یونیورسٹی و مختلف تعلیمی اداروں میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ کشمیری حریت قیادت نے 3 روز کی ہڑتال اور سوگ کا اعلان کر دیا ہے۔ حریت قائد میر واعظ عمر فاروق نے پیر کو بادامی باغ میں بھارتی فوجی چھاؤنی کی جانب مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مارچ کے شرکا کا مطالبہ ہوگا کہ بھارتی حکومت تمام کشمیریوں کو ایک ساتھ ہی مار دے۔ بھارت نواز کشمیری سیاستدان عمر عبداللہ نے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی دہشت گردی کو نسلی تطہیر قرار دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق بھارتی فوج دہشت گردی کی تازہ وارداتوں میں ہفتہ کو پلوامہ کے خار پورہ علاقے میں جمعہ و ہفتہ کی درمیانی شب نام نہاد سرچ آپریشن کے دوران گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی۔ خواتین و موجود تمام افراد سے بدتمیزی اور لوٹ مار بھی کی۔ اس موقع پر3 نوجوانوں ظہور ٹھکر، عابد و منظور کو شہید کر دیا گیا۔ خار پورہ میں قابض بھارتی فوج کے آپریشن کی اطلاع پھیلتے ہی ہزاروں مرد، عورتیں و بچے سڑکوں پر نکل آئے۔ نہتے کشمیری مظاہرین پر بھارتی فوج، سی آر پی ایف کے اہلکاروں نے وحشیانہ ظلم و تشدد کیا اور انہیں براہ راست فائرنگ کا نشانہ بنایا۔ نوجوانوں کو خاص طور پر پیلٹ گن کا نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں8 کشمیری شہباز علی، سہیل احمد، لیاقت احمد، مرتضیٰ، عامر احمد، توصیف احمد میر، عابد حسین لون اور دیگر شہید، جبکہ فائرنگ اور پیلٹ گن چھرے لگنے سے سیکڑوں افراد زخمی ہوئے، جن میں سے متعدد کی حالت کافی نازک ہے۔ آخری اطلاعات تک بھارتی فوج کی جانب سے خار پورہ میں تلاشی کا سلسلہ جاری تھا۔ نومبر میں بھارتی فوج نے 48 کشمیریوں کو شہید کیا، جبکہ فائرنگ، پیلٹس گن و آنسو گیس کی شیلنگ سے196 کشمیری شدید زخمی اور 26گھر تباہ کئے تھے۔ حریت رہنماؤں سمیت169 کشمیریوں کو حبس بے جا میں رکھا۔ کشمیریوں کے قتل عام کو چھپانے اور کشمیریوں میں احتجاج کی خبر پھیلنے سے روکنے کیلئے بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر بھر میں انٹر نیٹ اور ریل رابطوں پر پابندی لگا دی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ شہید ظہور ٹھکر حزب المجاہدین کے اعلیٰ کمانڈر تھے، جنہوں نے بھارتی فوج کے مظالم کی وجہ سے بھارتی فوج کو چھوڑ کر بھارت کیخلاف مسلح جدوجہد کا راستہ چنا۔ شہید عابد حسین احمد لون نے ایم بی اے میں انڈونیشیا سے ڈگری لی۔ شہید نے انڈونیشیا میں ہی شادی کی اور ان کے بچے کی عمر3 ماہ ہے۔ ڈگری لینے کے بعد انہوں نے کشمیر کے جہاد میں حصہ لینے کیلئے حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کی۔ نہتے کشمیریوں کے قتل عام کی خبر کشمیر بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور وہ رات گئے سڑکوں پر نکل آئے اور شدید احتجاج کرتے رہے۔ خار پورہ کو کشمیریوں کیلئے خار بنائے جانے کی خبر پھیلتے ہی ہزاروں افراد دیوانہ وار پاکستانی پرچم اٹھا کر خار پورہ کی جانب بڑھنے لگے۔ بھارتی فوج تمام راستے بند کرنے کے باوجود انہیں پیش قدمی سے نہ روک سکی۔ احتجاج کے دوران مقبوضہ وادی کشمیر بھارت اور بھارتی فوج کیخلاف، آزادی کے حق میں اور شہدا کے خون سے انقلاب آئے گا، کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔ احتجاج کے دوران اسلام، آزادی اور پاکستان کے حق میں زبردست نعرے بازی کی گئی اور وادی بھر میں پورا دن لاؤڈ اسپیکرز پر جہادی ترانے بجتے رہے۔ وادی کشمیر میں ہر طرف انقلاب کے نعرے گونجتے رہے۔ نہتے کشمیری شہید کئے جانے کیخلاف ہزاروں کشمیری طلبہ نے بھی شدید احتجاج کیا اور شہدا کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ سری نگر کی کشمیری یونیورسٹی میں شہدا کی غائبانہ نماز جنازہ میں سیکڑوں طلبہ نے شرکت کی۔ اس موقع پر طلبہ نے بھارتی حکومت و فوج کیخلاف شدید نعرے بازی کی۔ سوپور کالج کے طلبہ نے بھی زبردست احتجاج کیا اور بھارت کیخلاف نعرے بازی کی جاتی رہی۔ احتجاجی مظاہروں کے دوران پاکستانی پرچم لہرائے جاتے رہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے تحت حیدر پورہ میں زبردست مظاہرہ کیا گیا، جس میں حریت رہنماؤں مولوی بشیر عرفانی، بلال احمد صدیقی، سید بشیر اندرابی، محمد یوسف نقاش، خواجہ فردوس وانی، محمد یٰسین عطائی، محمد مقبول ماگامی، ارشد عزیز، سید امتیاز حیدر، امتیاز احمد شاہ، سید محمد شفیع، مبشر احمد بٹ، ظہور احمد بیگ و عاشق حسین صوفی کے علاوہ عام کشمیریوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے قائد یاسین ملک کی ہدایت پر بھی سری نگر و دیگر علاقوں میں مظاہرے کئے۔ نوہٹہ چوک میں بھی مظاہرہ کیا گیا۔ 11 کشمیریوں کو شہید کئے جانے پر بزرگ کشمیری قائد سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، محمد یٰسین ملک، محمد اشرف صحرائی اور ظفر اکبر بٹ نے 3 روزہ ہڑتال و سوگ کا اعلان کر دیا ہے۔ میر واعظ محمد عمر فاروق نے اپنی ٹوئٹ کے ذریعے17 نومبر کو بادامی باغ سرینگر کی جانب احتجاجی کا اعلان کر دیا ہے۔ افسردہ میر واعظ نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ پلوامہ میں قتل عام اور پیلٹ گن کے چھروں کی برسات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ بھارت کی مودی سرکار نے کشمیر پر قابض اپنی افواج کے ذریعے کشمیریوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ اب ہم 17 دسمبر کو بادامی باغ چھاؤنی سرینگر کی جانب مارچ کریں گے اور بھارت سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ کشمیریوں کو روز مارنے کے بجائے ایک بار ہی ختم کر ڈالے۔ میر واعظ نے اپنی ٹوئٹس میں کہا کہ بھارتی حکومت غیر انسانی سلوک بند کرے۔ ایسے کرتوتوں سے مزید نفرت و مزاحمت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ میر واعظ عمر فاروق نے دنیا بھر کے انسان دوست حلقوں سے ہنگامی مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی افواج کشمیریوں کا قتل عام کر رہی ہیں۔ کشمیری حریت قائدین کا کہنا ہے کہ بھارت کشمیریوں کے قتل کو ریاستی پالیسی کے تحت آگے بڑھا رہا ہے۔ بھارت غیر انسانی کارروائیوں کا ارتکاب کر رہا ہے۔ بھارت طاقت کے بل پر نہتے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کچلنے میں ناکام ہوگا۔ شہدا کی قربانیاں انشا اللہ جلد رنگ لائیں گی۔ جموں و کشمیر مسلم لیگ، جمعیت اہلحدیث، جماعت اسلامی، دختران ملت ودیگر جماعتوں نے بھی کشمیریوں کے قتل عام کی شدید مذمت کی۔ بھارت نواز سیاستدان اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے پلوامہ میں بھارتی فوج کی فائرنگ کے واقعے کو قتل عام قرار دیتے ہوئے کہا کہ طاقت کے استعمال کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کو گورنر راج کے ذریعے چلانے والے گورنر ستیا پال ملک بے گناہ کشمیریوں کی جانوں کے تحفظ میں ناکام ہو گئے ہیں۔ گورنر اور اس کی ٹیم کا واحد کام عوامی فلاح و بہبود اور تحفظ پر توجہ دینا ہے۔
٭٭٭٭٭