سیاسی مصائب میں مبتلا شریف خاندان، کھیلوں سے بھی دور ہو چکا ہے۔ کرکٹ کے رسیا نواز شریف کے رشتہ داروں نے نوے کی دہائی میں دو ٹیمیں بنا رکھی تھیں۔ ہر اتوار کو رائے ونڈ فارم ہائوس کے خوب صورت گرائونڈ پر دونوں ٹیموں کے درمیان میدان سجتا۔ چوکے چھکے یا وکٹ گرنے پر تالیاں بجتیں۔ داد دینے والے یہ شائقینِ کرکٹ صرف شریف خاندان کی مختلف فیملیوں کے ارکان ہوا کرتے تھے۔ ان خواتین و مرد شائقینِ کرکٹ کی تعداد چالیس سے پچاس کے لگ بھگ ہوتی۔ کسی آئوٹ سائیڈر کو میچ دیکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ایک ٹیم کے کپتان نواز شریف کے سگے بھانجے میاں ہارون یوسف تھے۔ دوسری ٹیم کی کمان میاں صاحب کے کزن طارق شفیع نے سنبھال رکھی تھی۔ یہ دونوں بزنس مین ہی اپنی اپنی ٹیم کے تمام اخراجات برداشت کیا کرتے تھے۔
شریف کرکٹ کلب کے کپتان میاں ہارون یوسف کی شریف برادران سے دوہری رشتہ داری تھی۔ وہ شہباز شریف کے بڑے داماد بھی ہیں۔ ان کے والد میاں یوسف عزیز اتفاق فائونڈریز کے ڈائریکٹرز میں سے ایک تھے۔ بھلے مانس آدمی اور انتہائی نفیس۔ وزیراعظم نواز شریف کے کزن اور بہنوئی ہونے کے باوجود نون لیگی اقتدار میں بھی کبھی سیکورٹی اور پروٹوکول لینا پسند نہیں کیا۔ ریس کورس پارک لاہور میں مغرب کے بعد واک کرنا روز کا معمول رہا۔ شریف کرکٹ کلب کے کپتان اور ان کے بیٹے میاں یوسف ہارون نے بھی باپ جیسی طبیعت پائی۔ ڈرائیور اور گھریلو ملازم کو ’’پلیز‘‘ کہہ کر بلاتے۔ دوست احباب اعتراض کرتے تو کہتے ’’ہر بندے کی عزت ہوتی ہے۔ مجھے بھی تو اللہ تعالیٰ کسی کا ڈرائیور بنا سکتا تھا‘‘۔ میاں یوسف عزیز اور ان کے بیٹے میاں ہارون یوسف دونوں سیاست سے دور رہے اور بزنس کو ترجیح دی۔
شریف کرکٹ کلب کا نائب کپتان سابق لیگی رہنما سہیل ضیا بٹ کے بھائی اویس ضیا بٹ تھے۔ سہیل ضیا بٹ کا بھی شریف برادران سے ڈبل رشتہ ہے۔ وہ نواز شریف کے کزن اور بہنوئی ہیں۔ جب اکتوبر 99ء میں شریف فیملی کو مشرف نے جلاوطن کیا تو سعودیہ جانے والوں میں سہیل ضیا بٹ بھی شامل تھے۔ چونکہ ان کے بھائی اویس ضیا بٹ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا لہٰذا وہ لاہور ہی میں رہے لیکن نون لیگی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد ایک عرصے کے لیے خاندانی کرکٹ ٹیموں کے درمیان میچوں کا سلسلہ موقوف رہا۔ سہیل ضیا بٹ کے بیٹے عمر ضیاء بٹ بھی لیگی ٹکٹ پر رکن اسمبلی رہے تاہم گزشتہ عام انتخابات میں پارٹی کی طرف سے بیٹے عمر ضیا بٹ کو ٹکٹ نہ ملنے پر سہیل ضیا بٹ نے اپنی الگ سیاسی پارٹی بنا لی تھی جس کا نام ’’عام عوام پارٹی‘‘ رکھا لیکن پذیرائی نہیں مل سکی۔
دلچسپ امر ہے کہ شریف کرکٹ کلب کے اوپننگ بیٹسمین عابد شیر علی تھے۔ دائیں ہاتھ سے بلے بازی کرتے لیکن بیٹنگ گئی گزری تھی۔ رنز کم بناتے اور شور زیادہ مچاتے۔ درجنوں میچوں میں عابد شیر علی کا سب سے زیادہ اسکور تیس پینتیس سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ عابد شیر علی کے والد شیر علی بھی نواز شریف کے بہنوئی ہیں کہ ان کی شادی سابق وزیراعظم کی کزن سے ہوئی تھی۔ عابد شیر علی کے ساتھ دوسرا اوپننگ بیٹسمین میاں ہارون یوسف کا بھائی عمران بٹ ہوتا تھا۔ بائیںہاتھ سے کھیلنے والا عمران بٹ پھر بھی عابد شیر علی سے بہتر بیٹنگ کر لیا کرتا تھا۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک اوپنر موجود نہیں ہوتا تو پھر یہ پوزیشن ون ڈائون آنے والا زید مصطفی گردیزی سنبھال لیا کرتا تھا۔ گردیزی کے والد سابق صوبائی وزیر صحت رہ چکے تھے۔ مصطفی گردیزی کے علاوہ شریف کرکٹ کلب میں مزید چار اور ایسے کھلاڑی تھے، جن کی شریف خاندان سے رشتہ داری نہیں تھی۔ ان آئوٹ سائیڈرز میں ایک غریب کرکٹر گل خان بھی تھا۔ لاہور کی پشتون کچی آبادی کا یہ مکین، ٹیم میں وکٹ کیپنگ کرتا تھا۔ اچھی خاصی بیٹنگ بھی کر لیتا۔ شریف خاندان نے گل خان کی مالی حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے اسے گرین ٹائون لاہور میں ایک پانچ مرلے کا مکان خرید کر دیا تھا، تاکہ وہ پوری یکسوئی سے کرکٹ کھیل سکے۔
شریف کرکٹ کلب میں تین ریگولر فاسٹ بالر یاسر عباس، وکیل اور قمر ہوا کرتے تھے۔ یاسر عباس خاصی تیز بالنگ کراتا تھا۔ اسے شاہد آفریدی نے انگلش کائونٹی میں کنٹریکٹ بھی دلا دیا تھا۔ یاسر عباس متمول گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور پانچ چھ مہنگی گاڑیاں ہر وقت اس کے گھر میں کھڑی رہتی تھیں۔ قمر اور یاسر کا بھی شریف خاندان سے تعلق نہیں تھا، لیکن انہیں فیملی رکن جیسی حیثیت ملی ہوئی تھی۔ وکیل البتہ شریف خاندان کا حصہ تھا۔ ٹیم میں ایک آل رائونڈر امتیاز حسین بلوچ کے علاوہ دو اسپنر شہباز شریف کا بیٹا سلیمان شہباز اور قیصر تھے۔ کوچ خواجہ مسعود پرویز ہوا کرتے تھے۔
شریف خاندان کی دوسری ٹیم کا نام ’’شفیع کرکٹ کلب‘‘ تھا۔ نواز شریف کے کزن طارق شفیع کپتان تھے۔ یہ وہی طارق شفیع ہیں، پاناما اسکینڈل میں جنہیں جے آئی ٹی اور نیب کا سامنا کرنا پڑا۔ طارق شفیع بھی اتفاق فائونڈریز کے کئی ڈائریکٹرز میں سے ایک تھے۔ پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں طارق شفیع نے گلف اسٹیل ملز کی فروخت سے متعلق حلف نامہ جمع کرایا تھا۔
طارق شفیع کی ٹیم کا نائب کپتان گونی تھا۔ وہی اوپنر بھی تھا۔ اور منجھی ہوئی بیٹنگ کرتا۔ دوسرا اوپنر فیصل تھا۔ اس ٹیم میں صرف دو کرکٹر باہر کے تھے۔ ایک پی آئی اے میں ملازم تھا۔ اسے شہباز شریف نے نوکری دلائی تھی اور دوسرا اتفاق اسپتال میں کام کرتا تھا۔ باقی تمام 9 پلیئرز شریف خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ طارق شفیع کی غیر موجودگی میں کپتانی کی ذمہ داری میاں شاہد سنبھال لیا کرتے تھے۔ بزنس میں تھے اور پاکستان کی طرف سے انڈر 19 اور فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل چکے ہیں۔
اتوار کو چھٹی والے روز دونوں ٹیموں کے درمیان تیس تیس اوورز کا میچ ہوتا تھا۔ تاہم میچ کے دوران بھی نماز کی بروقت ادائیگی کا خاص خیال رکھا جاتا۔ صبح دس بجے کے قریب میچ شروع ہوتا تو پہلا وقفہ ظہر کی نماز کا ہوتا تھا۔ جس میں طارق شفیع کی امامت میں دونوں ٹیموں کے ارکان نماز ادا کرتے۔ اس دوران لنچ بھی ہوتا۔ کھانے میں عموماً دیسی گھی سے بنی چکن کڑاہی، مٹن کڑاہی، قیمے والے نان، پلائو اور دیگر ڈشیں ہوا کرتی تھیں۔ لائیو تندور پر قیمے والے نان، روغنی نان اور سادہ نان تیار ہوتے تھے۔ شریف کرکٹ کلب کا ایک اسپنر آج بھی ان کھانوں کے ذائقوں کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے ’’ کھانے کی کیا بات تھی۔ طارق شفیع صاحب کا خاص کک کھانے تیار کیا کرتا تھا۔ گرائونڈ بھی بہت خوبصورت تھا۔ گہری سبز گھانس، کنارے پر لگے کھجور اور دیگر درخت، فضا میں اڑتے کبوتر اور دوسرے پرندے ایک سما سا باندھ دیتے تھے۔ ایک چھوٹا خوبصورت پویلین تھا۔ جس میں خاندان کی فیملیاں بیٹھا کرتی تھیں۔ یہ گرائونڈ رائے ونڈ میں طارق شفیع نے اپنے فارم پر بنایا تھا‘‘۔
اتوار کو چھٹی والے روز ظہر کے وقت لنچ بریک میں طارق شفیع کی امامت میں نماز پڑھی جاتی۔ اسی طرح عصر کی نماز کے لئے بھی قریباً دس منٹ کا وقفہ دیا جاتا تھا۔ طارق شفیع دوران میچ خراب کارکردگی یا کسی اور ایشو پر کھلاڑیوں کو بے دریغ گالیاں دیا کرتے تھے۔ زیادہ نشانہ عابد شیر علی بنتے۔ جب طارق شفیع امامت کے لئے کھڑے ہوتے تو اکثر دلچسپ صورت حال پیدا ہو جاتی۔ عابد شیر علی یہ کہہ کر ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کر دیا کرتا تھا کہ وہ گالیاں بہت دیتے ہیں۔ لہٰذا ان کے پیچھے نماز نہیں ہو سکتی۔ جس پر طارق شفیع مسکرا کر کہتے کہ ’’ گالیاں صرف گرائونڈ کی حد تک ہوتی ہیں‘‘۔ یوں عابد شیر علی کو بہلا پھسلا کر منا لیا جاتا تھا۔
دونوں ٹیمیں زیادہ تر میچ آپس میں ہی کھیلا کرتی تھیں۔ تاہم کبھی کبھار کسی باہر کی ٹیم سے بھی میچ ہو جاتا تھا۔ ایسے موقع پر دونوں ٹیموں کے 22 پلیئرز میں سے بہترین گیارہ کا انتخاب کر لیا جاتا۔ ایسا ہی ایک میچ شریف کرکٹ کلب نے پی آئی اے کی ٹیم کے ساتھ بھی کھیلا۔ یہ وہ وقت تھا ، جب پی آئی اے کرکٹ کی ایک مضبوط ٹیم ہوا کرتی تھی۔ وسیم اکرم، ثقلین مشتاق، شعیب ملک اور غلام علی جیسے شہرت یافتہ کرکٹر پی آئی اے کی ٹیم کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ اس میچ میں شریف کرکٹ کلب کی طرف سے اوپننگ کرنے وزیراعظم نواز شریف میدان میں اترے تھے۔ یہ لیگی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے قریباً ڈیڑھ دو برس قبل کی بات ہے۔ کیونکہ وزیراعظم کا احترام بھی ملحوظ خاطر رکھنا تھا، لہٰذا وسیم اکرم نے چھوٹے رن اپ کے ساتھ نواز شریف کو بہت کم رفتار سے بالنگ کرائی، اس رعایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نواز شریف شاٹ مار کر گیند کو بائونڈری لائن سے باہر کرتے تو پویلین میں بیٹھی فیملیوں کی جانب سے تحسین کے نعرے بلند ہوتے۔ اسی جذبہ خیر سگالی کے تحت مضبوط ترین پی آئی اے کی ٹیم شریف کرکٹ کلب کے ہاتھوں یہ میچ ہار بھی گئی تھی۔
شہباز شریف کا بیٹا سلیمان شہباز تو باقاعدہ شریف کرکٹ کلب کا رکن تھا اور آف اسپنر کے طور پر کھیلا کرتا تھا۔ تاہم حمزہ شہباز کو کرکٹ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ حتیٰ کہ میچ دیکھنے بھی کم ہی آیا کرتے۔ شہباز شریف کا معاملہ بھی کرکٹ کے حوالے سے کچھ اسی نوعیت کا تھا۔ البتہ نواز شریف وزیراعظم ہونے کے باوجود نہ صرف کبھی کبھار میچ دیکھنے آ جاتے بلکہ انہوں نے شریف کرکٹ کلب کی جانب سے چند میچ کھیلے بھی، جس میں پی آئی اے کے ساتھ ہونے والا میچ شامل تھا۔ نواز شریف کے دونوں بیٹے حسن اور حسین نواز بھی اگرچہ کرکٹ میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں لیکن وہ ان دونوں خاندانی ٹیموں میں شامل نہیں تھے۔ کبھی کبھار عباس شریف مرحوم کا ایک بیٹا میچ کھیلنے آ جایا کرتا تھا۔
لگ بھگ 95ء میں جب شریف خاندان کی یہ دونوں ٹیمیں تشکیل دی گئیں تو ان کے ابتدائی میچ نواب کرکٹ ماڈل ٹائون، ماڈرن گرین کرکٹ کلب اور لاہور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کے گرائونڈ پر ہوتے تھے۔ بعد ازاں طارق شفیع نے رائے ونڈ میں اپنے فارم ہائوس کی اراضی پر خوبصورت گرائونڈ بنایا تو پھر یہ ٹیمیں اسی گرائونڈ پر میچ کھیلنا شروع ہو گئیں۔ تاہم پریکٹس کے لئے عام طور پر میاں ہارون یوسف کے گھر کے عقب میں واقع گرائونڈ استعمال کیا جاتا۔ اس گرائونڈ کے ساتھ ہی ایک خوبصورت سوئمنگ پول بھی تھا۔ ہارون یوسف کا گھر ماڈل ٹائون میں اتفاق مسجد کے بالکل سامنے واقع ہے۔ 12 اکتوبر کی دوپہر جب مشرف نے نون لیگ کی حکومت کا تختہ الٹا تو اس وقت بھی ہارون یوسف کے گھر سے ملحق گرائونڈ میں شریف کرکٹ کلب کے کھلاڑی پریکٹس میں مصروف تھے۔ اس دن حمزہ شہباز بھی پریکٹس دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ قریباً ساڑھے تین بجے کے قریب انہیں موبائل پر کوئی کال موصول ہوئی۔ جس کے بعد افراتفری میں حمزہ شہباز وہاں سے نکل گئے۔ ان دنوں موبائل فون نایاب ہوا کرتے تھے۔ گھبرائے ہوئے حمزہ شہباز گرائونڈ سے نکلے تو ہارون یوسف نے اپنے بھاری بھرکم موبائل فون سیٹ سے کسی کو کال کرنے کی کوشش کی لیکن یہ فون لگ نہیں رہا تھا۔ جس پر وہ گھر کے اندر چلے گئے اور لینڈ لائن فون سے کال کرنے کی کوشش کی لیکن معلوم ہوا کہ پی ٹی سی ایل کے فون بھی ڈیڈ ہو گئے ہیں۔ اس دوران جب سلیمان شہباز پریکٹس کے لئے پیڈ کر رہے تھے تو شریف کرکٹ کلب کا ایک کھلاڑی ہارون یوسف کے گھر کی چھت پر چڑھ گیا۔ جہاں ایک کمرہ بنا ہوا تھا۔ یہ بات مشہور ہے کہ کسی وقت میں یہ کمرہ شریف خاندان نے طاہر القادری کو رہائش کے لئے دے رکھا تھا۔ چھت پر چڑھ کر کھلاڑی نے باہر کی جانب سے دیکھا تو اس کے پسینے چھوٹ گئے ہر طرف فوج ہی فوج تھی۔ مذکورہ کھلاڑی گھبرا کر نیچے اتر آیا اور یوسف ہارون کو صورت حال بیان کی۔ یوسف ہارون نے تمام لڑکوں کو سامان پیک کر کے ڈرائنگ روم میں آنے کا کہا۔ ٹیم کے کھلاڑی ابھی ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہی تھے کہ فوجی اہلکار گھر کے اندر داخل ہو گئے۔ اس وقت ہی معلوم ہوا کہ لیگی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ہے اور مارشل لاء لگ چکا ہے۔ یوسف ہارون کی درخواست پر ٹیم کے لڑکوں کو قریباً ڈھائی گھنٹے بعد جانے کی اجازت ملی۔ مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔ شریف کرکٹ کلب کے پلیئرز اپنے اپنے گھر جانے کے لئے باہر نکلے تو منظر تبدیل ہو چکا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کا تختہ الٹے جانے کے بعد کرکٹ ٹیمیں قریباً ڈھائی تین برس تک غیر فعال رہیں۔ 2002ء کے الیکشن کے بعد جب مسلم لیگ (ق) کی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو دونوں ٹیمیں پھر میدان میں آ گئیں اور میچوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ تختہ الٹے جانے کے بعد شریف خاندان کے اندر کافی اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ ایک میچ کے دوران عابد شیر علی کی ایک ٹیم پلیئر کے ساتھ گرما گرمی ہوئی تو عابد شیر علی کا کہنا تھا کہ اس کرکٹ نے ہی فی الحال شریف خاندان کو ایک دوسرے سے جوڑ رکھا ہے، لہٰذا معمولی اختلافات کو ہوا نہ دی جائے۔ شریف خاندان کی یہ دونوں ٹیمیں 2008ء تک فعال رہیں۔ بعد ازاں ٹیموں کے ارکان اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ کسی نے بزنس سنبھال لیا، کوئی سیاستدان بن گیا۔ اور بعض بیرون ملک چلے گئے۔
نواز شریف کو لڑکپن سے ہی کرکٹ سے لگائو تھا۔ تاہم وہ کبھی بھی اچھے کرکٹر نہیں بن سکے۔ ان کے کیریئر میں صرف ایک فرسٹ کلاس میچ ہے۔ جس میں وہ ریلوے کی طرف سے پی آئی اے کے خلاف کھیلے تھے۔ لیکن صفر پر آئوٹ ہو گئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے 1987ء کے ورلڈ کپ سے پہلے ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ کے خلاف وارم اپ میچوں میں بھی حصہ لیا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف کوئی اسکور نہ بنا سکے۔ تاہم انگلینڈ کے خلاف ایک رن بنایا تھا۔ اب نواز شریف کے کرکٹ کے دن جا چکے اور سیاست کے شب و روز بے یقینی کا شکار ہیں۔
٭٭٭٭٭