کراچی (رپورٹ:نواز بھٹو) سندھ حکومت نے دینی مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے قانون سازی کیلئے سابق آئی جی پولیس کی طرف سے ایک برس پہلے تیار کئے گئے‘‘دینی مدارس ایکٹ’’کےمسودے کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے، جس کے تحت رجسٹریشن کیلئے ڈویژنل کمشنر کو رجسٹرار کے اختیارات حاصل ہونگے، رجسٹریشن ایس بی سی اے سے لے آؤٹ پلان کی منظوری، ایس پی کے این او سی، ہائی وے کے قریب یا شہر کے داخلی یا خارجی راستوں پر نہ ہونے سے مشروط کر دیا گیا، غیرملکی طلبہ کی تعداد مقامی طلبہ کے مقابلے میں 10 فیصد ہوگی، غیر ملکی فنڈز کی تفصیل پہلے بتانی ہوگی، مدرسہ سرکاری زمین پر نہیں بن سکے گا، انتظامیہ کے فورتھ شیڈیول، دہشت گردی اور فرقہ واریت میں ملوث نہ ہونے کی چھان بین ہوگی، رجسٹریشن کی تجدید کروائی جا سکے گی ۔ تفصیلات کے مطابق 5 دسمبر 2018 کو نیکٹا کی ہدایت پر قائم ہونیوالے پراونشل ورکنگ گروپ کے اجلاس اور 6 دسمبر کےاپیکس کمیٹی کے 22 ویں اجلاس کے فیصلوں کی روشنی میں حکومت سندھ نےسابق آئی جی پولیس کی طرف سے ایک برس پہلے تیار کئے گئے دینی مدارس ایکٹ کے مجوزہ مسودے کا از سر نو جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مدارس رجسٹریشن کے معاملے پر نیکٹا اور صوبوں میں اختلاف ہیں اور صوبوں نے صوبائی رجسٹریشن پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئے وفاقی پالیسی بنانے کی تجویز دی ہےاور کہا ہے کہ ایکٹ میں لفظ مدارس استعمال نہ کیا جائے۔ تاہم اپیکس کمیٹی کے گزشتہ اجلاس میں بھی حکومت سندھ نے اس موقف کو دہرایا اور متعلقہ محکمے کو ہدایت کی کہ وہ پہلے سے موجود مسودے کا جائزہ لینے کے بعد نیکٹا حکام کو ارسال کردیں۔ سندھ میں مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق قانون سازی پر ایک سال سے کام جاری ہے۔ آئی جی سندھ نے مذہبی امور سے متعلق محکمے اور دینی جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر یہ مسودہ گزشتہ برس 13 ستمبر 2017 کو محکمہ داخلہ کو ارسال کیا تھا ،جس پر محکمہ داخلہ نے سیکریٹری اسکول ایجوکیشن،سیکریٹری انڈسٹریز، سیکریٹری اوقاف و مذہبی امور سےتجاویزطلب کی تھیں ،جو تاحال موصول نہیں ہو سکی ہیں۔محکمہ داخلہ کے ذرائع کے مطابق صوبائی ورکنگ کمیٹی اور اپیکس کمیٹی کے اجلاس سے قبل ہنگامی بنیادوں پر فائلوں میں دبے ہوئے اس مجوزہ مسودے کو نکالا گیا ۔‘‘ امت’’ کو ملنےوالی دستاویزات کے مطابق مجوزہ مسودے کو ‘‘ دینی مدارس ایکٹ’’ کا نام دیا گیا ہے اور رجسٹریشن کیلئے ڈویژنل کمشنر کو رجسٹرار کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔مجوزہ مسودے کے مطابق صوبے میں پہلے سے قائم اور نئے مدارس کیلئے لازمی ہوگا کہ وہ ڈویژنل رجسٹرار سے رجسٹریشن سرٹیفکیٹ حاصل کرے۔رجسٹریشن کے حصول کیلئے درخواست دہندہ پر لازم ہوگا کہ وہ رجسٹرار کو مطلوب تمام دستاویزات اور معلومات فراہم کریں،جس کے مطابق یہ بتانا لازمی ہو گا کہ مدرسہ سرکاری زمین پر قائم نہیں کیا گیا، مدرسہ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر یا ہائی وے پر تعمیر نہیں کیا گیا، مدرسے کی تعمیر کے لئے حاصل کی گئی زمین کے دستاویزات فراہم کرنے ہوں گے،مدرسہ کسی دوسرے مدرسے کی ضد میں قائم نہیں کیا گیا، مدرسے کے نام یا عنوان میں کوئی تضاد نہیں ہے،مدرسے کی نئی شاخ قائم نہیں کی جائے گی ،اگر کی جائے گی توا س کے لئے الگ سے رجسٹریشن سرٹیفکیٹ حاصل کرنا پڑے گا،جس کا طریقہ کار بھی وہی ہوگا۔ رجسٹریشن کے لئے ایس پی مدرسے اور منتظمین کی فورتھ شیڈیول میں شامل ہونے، مشکوک سرگرمی میں ملوث ہونے یا مدرسے کے قیام کی وجہ سے نقص امن کا مسئلہ پیدا ہونے کی چھان بین کرے گا۔ایس پی یہ بھی دیکھے گا کہ مدرسے کی عمارت کی منظوری سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے لے جائے گی ، مدرسے کی عمارت میں کوئی بیسمنٹ نہیں ہوگا،مدرسہ میں مورچہ یا سیکورٹی کے لئے مینار نہیں ہوگا اور ایس بی سی اے کی منظوری کے علاوہ عمارت میں کوئی تبدیلی نہیں کروائی جائے گی۔ان تمام چیزوں کا جائزہ لینے کے بعد ایس پی مدرسے کے قیام کے لئے این او سی جاری کرے گا۔ مدرسے کے نصاب کا جائزہ لینے کے بعد محکمہ مذہبی امور سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔ رجسٹرار تمام کوائف والی درخواست کا جائزہ لینے کے بعد 30 دن کے اندر جسٹریشن سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا پابند ہوگا۔ رجسٹرار اگر سمجھے کہ درخواست کے ساتھ منسلک کوائف مکمل نہیں ہیں تو وہ اس درخواست کو مسترد کر سکتا ہے،تاہم وہ درخواست دہندہ کو اپنے حق میں دلیل پیش کرنے کیلئے بولنے کا موقع فراہم کرے گا۔ درخواست مسترد کئے جانے کی صورت میں درخواست دہندہ 30 روز میں محکمہ داخلہ میں اپیل دائر کر سکتا ہے اور سیکریٹری داخلہ اپیل دائر کرنے کے 30 روز کے اندر اپیل کنندہ کو سن کر فیصلہ سنائے گا۔ مجوزہ مسودے میں ایس پی کے اختیار سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایس پی مدارس پر کڑی نظر رکھے گا کہ منتظمین اور طلبہ دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث تو نہیں ہیں، فرقہ واریت تو نہیں پھیلائی جا رہی، امن و امان کا مسئلہ تو نہیں پیدا کیا جا رہا، مدارس میں مشکوک پروگراموں کا انعقاد تو نہیں کیا جا رہا ۔ ایس پی پولیس کو اختیار ہو گا کہ کسی بھی وقت مجسٹریٹ اور اپنے نامزد کردہ نمائندوں کے ہمراہ دورہ کر سکتا ہے۔مدارس رجسٹریشن سرٹیفکیٹ کی تجدید کے پابند ہوں گے،تجدید کیلئے منسوخی کی مدت سے 2 ماہ قبل فارم داخل کرنا ہوگا۔ رجسٹریشن کی تجدید کے لئے لازمی ہے کہ مدرسے کے آڈٹ شدہ اکاؤنٹس ، مہتمم کے قومی شناختی کارڈ نمبر کے ساتھ کوائف، غیر ملکی فنڈز کی تفصیلات، غیر ملکی طلبہ کے ویزا، تعلیم کے حصول کا اجازت نامہ اور ایکٹ کے مطابق تمام کوائف فراہم کرنے ہوں گے۔ غیر ملکی طلبہ کی تعداد ملکی طلبہ کے 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہو گی، جبکہ نصاب کی مکمل تفصیل فراہم کرنی ہوگی۔ مدارس اگر بنائے جانے والے ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے اور دہشتگردی و فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے تو ان کی رجسٹریشن منسوخ کر دی جائے گی اور مدرسے کا انتظام سرکاری تحویل میں لے لیا جائے گا۔ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث مدارس کو سیل کرنے سے قبل مدارس کی انتظامیہ کے موقف کو بھی سنا جائے گا اگر وہ رجسٹرار کو مطمئن نہ کر پائے تو ایسے مدارس کی رجسٹریشن منسوخ کر دی جائے گی۔ حکومت اس ایکٹ کے نفاذ کے ایک ماہ کے اندر مدارس کی مالی معاونت کیلئے ‘‘ سندھ مدرسہ ایجوکیشن فنڈ ’’ کے قیام کی پابند ہوگی، جس کا مقصد مدارس کے طلبا کو جدید تعلیم کی سہولیات فراہم کرنا ہے۔ واضح رہے کہ حکومت سندھ نےحال ہی میں مدارس کو 29 صفحات پر مشتمل لیٹر ارسال کرکےکوائف طلب کئے تھے اس دوران مدارس کی انتظامیہ کی طرف سے یہ سوال اٹھائے گئے تھے کے ان سے یہ تفصیلات کس قانون کے تحت مانگی جا رہی ہیں۔