موٹر سائیکل چوروں کے آگے کراچی پولیس بے بس ہوگئی

0

اقبال اعوان
کراچی پولیس موٹر سائیکلیں چوری اور چھینے کی وارداتوں پر قابو پانے میں ناکام ہوگئی ہے۔ بعض نوجوان بھی موٹر سائیکل چلانے کا شوق پورا کرنے کیلئے بائکس چوری کرنے لگے۔ کراچی میں یومیہ 3 درجن سے زائد موٹر سائیکلیں چھینی یا چوری کی جاتی ہیں، جن کو زیادہ تر پارٹس کی صورت میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ شہر میں 5 مقامات پر مسروقہ پارٹس کھلے عام فروخت ہوتے ہیں۔ دوسری جانب حال ہی میں سرسید تھانے کی پولیس کے ہاتھوں گرفتار کم عمر موٹر سائیکل چوروں کا کہنا ہے کہ انہیں موٹر سائیکل چلانے کے شوق نے چور بنایا، بعد ازاں وارداتیں آسانی سے ہونے پر بائکس کو پارٹس کی صورت میں فروخت کرنے لگے۔ مذکورہ 6 رکنی گروپ نے دو سال کے دوران 50 سے زائد موٹر سائیکلیں چوری کیں۔ پولیس نے 9 موٹر سائیکلیں برآمد کرلیں۔ گرفتار لڑکوں کی عمریں 14 سے 17 سال کے درمیان ہیں۔ وہ کچی آبادیوں کے رہائشی ہیں اور منشیات بھی فروخت کرتے ہیں۔ سر سید پولیس نے چار روز قبل 14 سالہ لڑکے عامر حیدر کو اس دوران گرفتار کیا جب وہ پیالہ ہوٹل کے قریب ایک موٹر سائیکل کو اسٹارٹ کرکے لے جانے کی کوشش کررہا تھا کہ اس دوران موٹر سائیکل کے مالک نے اس کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا۔ کم عمر ہونے پر لوگوں نے ترس کھا کر اس کو بہت کم مارا پیٹا جبکہ پولیس کو بھی مک مکا کر کے چھوڑنے کی درخواست کی گئی کہ بچہ ہے، چلانے کے شوق میں چوری کی ہوگی۔ تاہم پولیس نے برآمد موٹر سائیکل کے ساتھ اس لڑکے کو تھانے پہنچایا جہاں تھوڑی سختی کرکے معلومات حاصل کی گئیں تو معلوم ہوا کہ نارتھ کراچی کے مختلف علاقوں میں اس بچے کا 6 رکنی گروہ سرگرم ہے جو موٹر سائیکلیں چوری کرکے ان کے پارٹس کباڑی بازار میں فروخت کرتا ہے۔ عامر حیدر نامی گرفتار لڑکے نے یہ نشاندہی بھی کی کہ سر سید ٹاؤن کے علاقے میں ایک جھگی نما ڈیرہ ہے، جہاں وسیم نامی شخص ان کو منشیات فراہم کرتا ہے کہ وہ اسے فروخت کریں۔ معلومات ملنے پر پولیس نے چھاپے مارے اور دیگر 5 لڑکوں اور منشیات فروش وسیم کو بھی گرفتار کرلیا۔ وسیم سے ایک کلو چرس برآمد کی گئی جو وہ پڑیاں بنا کر تھوڑی تھوڑی فروخت کرا رہا تھا۔ جبکہ 5 لڑکوں سلیم، خیر اللہ، کامران، ولی محمد اور شہزاد کو گرفتار کرکے تفتیش کی گئی تو انہوں نے مزید 8 موٹر سائیکلیں برآمد کرادیں۔ دوران تفتیش معلوم ہوا کہ سب لڑکے مزدور پیشہ افراد کے بچے ہیں، جو تعلیم حاصل کرسکے اور نہ ہی کوئی ہنر سیکھ سکے تھے۔ ملزمان نارتھ کراچی کے علاقوں میں وارداتیں کرتے تھے۔ تمام لڑکوں کا کہنا ہے کہ علاقوں میں بچوں کو نئی موٹر سائیکلیں چلانے، ون ویلنگ اور ریس لگاتے دیکھتے تھے تو ان کو دکھ ہوتا تھا کہ ان کی اتنی حیثیت نہیں ہے کہ گھر والے موٹر سائیکلیں دلوا سکیں۔ جس کے بعد انہوں نے علاقوں میں جاکر مارکیٹوں، گھروں کے آگے کھڑی موٹر سائیکلیں چرانی شروع کردیں۔ ملزم شہزاد کا کہنا تھا کہ وہ لوگ موٹر سائیکلیں کو پہلے تاڑتے تھے اور پھر ان لاک موٹر سائیکل کے میٹر سے تار کاٹ کر جوڑ لیتے تھے اور اسٹارٹ کرکے چلاتے تھے۔ شروع میں انہیں صرف چلانے کا شوق تھا۔ موٹر سائیکل دور تک لے جاتے تھے اور پیٹرول ختم ہونے پر ادھر ہی گاڑی چھوڑ دیتے۔ پھر انہیں کچھ لوگ مل گئے کہ موٹر سائیکل چلانے کا شوق پورا کرکے ان کے پاس لے آیا کرو۔ وہ لوگ پارٹس کی صورت میں موٹر سائیکلیں فروخت کرتے تھے۔ 16 سالہ ملزم سلیم کا کہنا تھا کہ موٹر سائیکل چلانے کا شوق چند ماہ میں پورا ہوگیا اور پھر چوری کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ پرانی گاڑی پچیس ہزار یا اس سے کم میں فروخت ہوتی تھی۔ ہر واردات میں ایک لڑکے کو چار ہزار روپے تک مل جاتے تھے۔ پھر منشیات فروش وسیم نے منشیات سپلائی کا کام بھی کرانا شروع کردیا۔ ملزم خیراللہ کا کہنا تھا کہ جب گھر والوں کو کما کر نہیں دیتے تھے تو والدین بھی نکما اور آوارہ کہہ کر گھر میں نہیں آنے دیتے تھے۔ ملزم ولی کا کہنا تھا کہ ایک دو بار پولیس والوں نے روکا تو بتایا کہ وسیم بھائی کیلئے کام کر رہے ہیں تو انہوں نے جانے دیا۔ ملزم کامران کا کہنا تھا کہ ہفتے میں دو سے چار موٹر سائیکلیں چوری کرلیتے تھے، جبکہ منشیات سپلائی کرنے پر روزانہ 3 سو روپے فی لڑکا ملتے تھے۔
واضح رہے کہ ایک اندازے کے مطابق شہر میں 12 سے 18 لاکھ موٹر سائیکلیں ہیں اور یومیہ 5 ہزار نئی فروخت ہوتی ہیں۔ جبکہ منظم چور گروپ اور لیٹرے جہاں موٹر سائیکلیں چھیننے اور چوری کی وارداتیں کررہے ہیں وہاں منشیات کا نشہ کرنے والے اور اسٹریٹ چلڈرن کے ساتھ ساتھ کچی آبادیوں کے بچے بھی چوریاں کرنے لگے ہیں۔ اسی لئے موٹر سائیکلوں پر ٹریکٹر لگانے سمیت دیگر اقدامات زیر غور ہیں۔ ذرائع کے مطابق کراچی سے اچھی کنڈیشن والی مسروقہ موٹر سائیکلیں سندھ یا بلوچستان بھیجی جاتی ہیں۔ پرانی موٹر سائیکلوں کے پارٹس کھول کر بیچے جاتے ہیں۔ شیر شاہ کباڑی بازار اور رنچھوڑ لائن کی موٹر سائیکل پارٹس کی مارکیٹوں کے سامنے لگے ٹھیلوں اور پتھاروں پر مسروقہ موٹر سائیکلوں کے پارٹس عام ملتے ہیں۔ جمعہ اور اتوار کو کورنگی ڈھائی نمبر، لیاقت آباد نمبر 2 اورنگی ٹاؤن نشان حیدر چوک کے قریب کباڑی بازار میں بھی یہ پارٹس فروخت ہوتے ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More