افریقی قبائلی اولمپکس ببر شیر کے شکار پر ختم ہوں گے

0

ایس اے اعظمی
؏تنزانیہ اور کینیا کی جنگلاتی سرحدوں پر منعقد کئے جانے والے ’’مسائی اولمپکس‘‘ کا شاندار آغاز ہوگیا ہے۔ افریقی قبائلیوں کے اولمپکس ببر شیر کے شکار پر ختم ہوں گے۔ مسائی مارا قبائل سے تعلق رکھنے والے ہزاروں قبائلی جنگجوئوں نے دیگر قبائل کے مقابلے میں اپنی بہادری اور شجاعت دکھانے کیلئے ’’مسائی اولمپکس‘‘ میں پیدل دوڑ، نیزہ بازی، تیر اندازی، لٹھ بازی، تیز دھار ہتھیاروں کی تیاری سمیت جانوروں کے شکار اور ان کو قابو کرنے جیسی مہارتیں دکھائی ہیں۔ تنزانیہ کے سرحدی گائوں کیمانا میں مسائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب کے دوران مسائی اولمپکس کے منتظمین نے انکشاف کیا ہے کہ اس کے اختتام پر اصل بہادروں اور جنگلی قبائلیوں میں ببر شیر کے شکار کا فائنل کھیلا جائے گا، جس کیلئے کلیمن جارو پہاڑ کے دامن کے میدانی علاقہ میں موقع دیا جائے گا کہ افریقہ کے بہادر جنگجو کتنی دیر میں ایک شیر کو شکار کرتے ہیں اور اس کا سر اور دُم کاٹ کر منتظمین کو پیش کرتے ہیں، تاکہ ان کو ’’مسائی جنگجو‘‘ کا ٹائٹل دیا جاسکے۔ کینیا اور تنزانیہ میں منعقدہ ’’مسائی اولمپکس‘‘ میں شریک سینکڑوں جنگلی قبائلی کھلاڑیوں نے روایتی رنگدار کپڑے زیب تن کئے ہوئے تھے اور ان کے چہروں پر سفید و سرخ دھاریا ں، سروں پر چمڑوں سے بنے قبائلی ہار اور پٹیاں سمیت مختلف روایتی ہار اور زیورات تھے، جبکہ مسائی اولمپکس سے قبل ہزاروں قبائلی مرد و خواتین نے جنگلی گیت گائے اور خوشیوں کا اظہار کیا۔ انٹرنیشنل کنزرویشن گروپ بورن فری نے بتایا ہے کہ 2012 تک مسائی قبائلیوں میں کھیل ہوتے تھے اور مسائی لوگ جنگلی جانوروں کو شکار کرکے مہارت اور بہادری دکھاتے تھے، لیکن اب اس ایونٹ میں متعدد شیروں کا شکار نہیں ہوگا بلکہ جسمانی مہارتوں اور قبائلی تکینیک سے فیصلہ کیا جائے گا کہ کون کتنا بہادر ہے۔ قبائلی اولمپکس کے منتظمین نے افریقی اور چنیدہ عالمی صحافیوں کو بتایا ہے کہ ان قبائلی جنگجوئوں کے کھیلوں کا مقصد دنیا اور اقوام عالم پر واضح کردینا ہے کہ جنگی مہارتیں اور شجاعت کا تعلق جدید ہتھیاروں اور بندوقوں سے نہیں بلکہ کوئی بھی جنگجو جسمانی صلاحیتوں، بے خوف دل اور ورزشوں کی مہارتوں سمیت قبائلی رسوم اور جنگل کی سخت زندگی کو جھیلتا ہے جس میں کوئی بھی قبائلی اس وقت تک جنگجو یا بہادر نہیں کہلایا جاسکتا جب تک وہ اپنے ذاتی صلاحیتوں، جنگلی حکمت عملی اور بہادری سے کم از کم پانچ جانوروں کو زیر نہ کرلے۔ ان جانوروں میں لکڑ بھگا، ہاتھی، جنگلی خنزیر، خار پشت اور ببر شیر شامل ہیں۔ جبکہ کئی میدانی قبائلی جنگجوئوں نے اس فہرست میں خنزیر کی جگہ جنگلی بھینس اور گینڈے کے شکار کو شامل کیا ہے جس کو دنیا کا سخت ترین اور منتقم جانور ٹھہرایا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے شکار کو انتہائی جوکھم کا کام مانا جاتا ہے، لیکن مسائی اور افریقی قبائلی جنگجوئوں کیلئے ان جانوروں کا شکار بازیچہ اطفال سمجھا جاتا ہے اور مسائی قبائلی سال میں کم از کم ایک بار اور زیادہ سے زیادہ سے دو بار ببر شیر کو اپنے نیزوں اور بھالوں سے کچھ اس طرح گھیرتے ہیں کہ ببر شیر جیسے جانور کیلئے جائے فرار باقی نہیں بچتی اور بعد میں قبائلی جنگجو ’’جنگل کے بادشاہ‘‘ کو اس طرح نیزوں اور بھالوں سے گودتے ہیں جیسے ’’پن کُشن ‘‘ میں نوکیلی پنیں گھسائی جاتی ہیں۔ مسائی اولمپکس کے آغاز کی تقریبات کے فوری بعد ہزاروں جنگجوئوں نے دوڑ کے مقابلہ میں شرکت کرکے خود کو افریقی جنگلات کا بہادر ثابت کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ اگرچہ کہ افریقی جنگلات کے مکین کہلائے جانے والے ان مسائی اور دیگر قبائل کو مروجہ ’’اولمپکس کھیلوں‘‘ کی طرح کوئی خاص قیمتی انعامات نہیں دیئے گئے ہیں لیکن قبائلی سرداروں کے جتھوں اور جیوری کی جانب سے مختلف کامیاب جنگجوئوں کیلئے جنگلاتی ہتھیاروں، نسل آور بیل اور شیر دار گایوں سمیت شکار کئے جانے والے جانوروں کے سروں اور کھالوں پر مبنی انعامات اور ’’قبائلی بہادر‘‘ یا ’’شیر دل‘‘ جیسے خطابات اور پہلی بار دھاتی میڈلز بالضرور عطا کئے گئے ہیں۔ تاکہ جنگلات میں موجود قبائل، ان مسائی قبائلی جنگجوئوں کو انہی خطابات سے یاد کریں اوران کی بہادری کے قصے سنائیں۔ افریقی لکھاری موباتھا تھولوجی نے اپنے ایک بلاک میں بتایا ہے کہ 2018 کے مسائی اولمپکس اس وقت بھی کینیا اور تنزانیہ کی سرحدوں پرکھیلے اور دیکھے جارہے ہیں۔ یہ اولمپکس تنزانیہ اور کینیا کی سرحدی پر باہم متصل دو عدد نیشنل پارکس جو کینیا کے ’’امبوسیلی نیشنل پارک‘‘ اور تنزانیہ کے’’سیدائی اولنج نیشنل پارک ‘‘ پرمشتمل ہیں اور ان میں وسیع و عریض میدانی جنگلات، دریا، چشمے، ندی نالوں سمیت پہاڑی خطے اور گھنے درختوں اور جھاڑیوں پر مشتمل جنگلات پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں ہر قسم کی جنگلی مخلوقات، درندے، رینگنے والے اور دیگر جانور بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں اور ان جانوروں کے مساکن سینکڑوں کلو میٹر کے رقبہ پر محیط ہیں، جہاں افریقہ کے 35 سے زیادہ قبائل کے جنگجوئوں کے درمیان ’’مسائی اولمپکس‘‘ کے کھیل منعقد ہورہے ہیں، جس میں کھیلوں کے اول روز جسمانی مہارتوں کی جانچ ہوئی اور قبائلی جنگجوئوں نے میدانی اور جنگلاتی علاقوں میں کئی کئی کلومیٹر کی دوڑ میں حصہ لیا۔ ان دوڑ کے مقابلوں کے بعد ’’مسائی اولمپکس‘‘کے منتظمین نے نیزہ بازی کے مقابلوں کا اعلان کیا جس میں ایک ہزار سے زائد چنیدہ مسائی مارا قبائیلیوں نے شرکت کی اور دس میٹر سے لے کر 100 میٹر کی دوری تک نیزہ پھینکنے کی کامل مہارت کا مظاہرہ کیا۔ جبکہ خطرناک ترین جانور شیر کو ایک ہی وار میں ہلاک کرنے والے ہتھیارکا بھی شاندار اور متاثر کن مظاہر ہ کیا گیا۔ یہ ہتھیار ایک لکڑی کا بھاری ٹکڑاہوتا ہے جس کا سرا گول اور سخت ہوتا ہے، جس کو قبائلی جنگجو شیر کے سر پر پھینک کر مارتے ہیں۔ ان مقابلوں میں مسائی اور افریقی قبائلی جنگجوئوں نے ایک ہدف کو نشانہ بنا کر کچھ اس طرح دوڑ کر چھوٹے نیزے یعنی ’’حربے‘‘ پھینکے جبکہ دو میٹر لمبائی والے نیزوں کو بھی اہداف پر پھینک کر اپنی شکاری مہارت کا ثبوت دیا۔ کینیائی اور تنزانیائی جنگلاتی میدانوں میں ’’مسائی اولمپکس‘‘ کو دیکھنے کیلئے ہزاروں افراد اور عالمی شائقین نے شرکت کی اور مسائی اولمپکس کا شاندار نظارہ دیکھا اور خوب ہی محظوظ ہوئے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More