دکان مسمار ہونے کے باعث بیٹے کا علاج بھی نہ کرسکا

0

عمران خان
’’میں بیٹے کی بیماری کا سن کر روالپنڈی گیا ہوا تھا۔ وہاں پہنچتے ہی پریشانی کے عالم میں بیٹے کے علاج کے لئے بھاگ دوڑ کرنے لگا کہ کراچی سے اچانک یہ خبر آئی کہ ہماری دکانوں کو مسمار کرنے کے لئے آپریشن شروع کیا جاچکا ہے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ میری کیا کیفیت ہوگی۔ نہ بیٹے کو اس حالت میں چھوڑ سکتا تھا اور نہ ہی دکان میں موجود لاکھوں روپے کا سامان ضائع کرانے کی ہمت تھی۔ اس حالت میں معاملہ اللہ پر چھوڑا اور تین دن بعد کراچی آیا۔ اس دوران دیگر دکاندار دوستوں سے درخواست کی تھی کہ وہ میری دکان کے سامان کو اپنی تحویل میں لے لیں۔ آگے ڈرائی فروٹ کی فروخت کا سیزن تھا جس کیلئے میں نے پہلے سے ہی تیاری کر رکھی تھی اور لاکھوں روپے کا ادھار مال لے لیا تھا، تاکہ روالپنڈی سے واپسی پر سیزن لگائوں گا۔ لیکن سب خاک میںمل گیا۔ اب تو گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لالے پڑ چکے ہیں۔‘‘ یہ کہنا تھا ایمپریس مارکیٹ کی مسمار ہونے والی دکانوں میں شامل ’’بابو ڈرائی فروٹ ‘‘ نامی دکان کے مالک اختر عباسی کا۔ دکان نمبر 47 کے مالک اختر کا مزید کہنا تھا کہ ان کے والد نے ایمپریس مارکیٹ میں 1961ء میں دکان حاصل کی تھی اور یہ دکان کے ایم سی کی جانب سے الاٹ شدہ تھی جس کے مستقل ماہانہ واجبات ادا کئے جاتے رہے۔ ان کے والد 30 برس تک یہاں پر خود دکان چلاتے رہے۔ اس کے بعد سے اختر خود والد صاحب کی یہ دکان چلا رہے تھے۔
اختر عباسی کے مطابق ان کا آبائی تعلق مری کے علاقے سے ہے جہاں سے ان کے والد 1960ء میں کراچی آئے تھے۔ ابتدا ہی سے انہوں نے ایمپریس مارکیٹ میں خشک میوہ جات کا کاروبار شروع کردیا تھا۔ حالیہ صورتحال کے حوالے سے اختر عباسی کا کہنا تھا کہ نہ صرف میئر کی سربراہی میں کے ایم سی نے انکروچمنٹ کے خلاف کارروائی کے نام پر الاٹ شدہ اور قانونی دکانوں کا صفایا کرکے ہزاروں لوگوں کو بے روزگار کردیا ہے، بلکہ رہی سہی کسر اطراف میں قائم بلڈنگز کے اسٹیٹ ایجنٹوں، بلڈرز اور پراپرٹی مافیا نے پوری کردی ہے۔ جیسے ہی ایمپریس مارکیٹ کے اطراف اور اندر موجود 2 ہزار کے لگ بھگ دکانوں کا صفایا کیا گیا، ان دکانوں میں موجود اربوں روپے کے سامان کو فوری طور پر آگے پیچھے منتقل کرنے کیلئے متاثرہ دکانداروں نے بھاگ دوڑ شروع کی اور ہنگامی بنیادوں پر اطراف میں موجود عمارتوں میں دکانیں اور گودام کرائے پرحاصل کرنے کی کوشش شروع کی۔ اس دوران جن عمارتوں میں دکانیں ماہانہ 5 سے 8 ہزار روپے کرائے پر کوئی نہیں لے رہا تھا، انہوں نے اس صورتحال سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے ان دکانوں اور گوداموں کے کرایوں میں 20 ہزار روپے تک کا اضافہ کردیا اور ہنگامی بنیادوں پر دکانیں حاصل کرنے والوں نے مجبوری کے عالم میں اطراف کی عمارتوں میں یہ گودام اور دکانیں 20 سے 25 ہزار روپے ماہانہ کرائے پر حاصل کئے۔ تاکہ اپنے لاکھوں روپے کے سامان کو بچا سکیں۔
اختر عباسی کا مزید کہنا تھا کہ اب بھی ان کے بیٹے کی طبیت ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن روزگار کو جاتا ہوا دیکھ کر وہ مجبوری کے عالم میں بھاگ کر واپس آئے۔ جب وہ مارکیٹ کے اندر داخل ہوئے تو انہیں یقین ہی نہیں آیا کہ وہ اپنی ہی مارکیٹ میں واپس آئے ہیں۔ پہلے پہل تو وہ اپنی دکان کی جگہ کو بھی نہیں پہچان پائے۔ ہر جانب ملبہ ہی ملبہ پڑا ہوا تھا۔ جس مارکیٹ میں دکانیں سلیقے سے بنی ہوئی تھیں اور لاگوں کا کروڑوں روپے کا سامان نفاست سے سجا رہتا تھا، وہاں ویرانی نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ جب ان کی نظر اپنی دکان پر پڑی تو وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور بے اختیار ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
اختر عباسی کے بقول اگر ایمپریس مارکیٹ کی کسی بیرونی دبائو پر ماڈل کے طور پر تزئین و آرائش ضروری ہی ٹھہری تھی، تو پہلے یہاں پر دکانیں چلانے والوں کیلئے کوئی متبادل انتظام کیا جاتا۔ انہیں کوئی زمین دی جاتی جس پر وہ اپنی دکانیں قائم کرکے اپنا سامان وہاں لے جاتے۔ اس کے بعد جو مرضی کیا جاتا۔ کیونکہ اس سے قبل بھی ایسا ہوچکا ہے جب ایمپریس مارکیٹ کے ہی عقب میں موجود شہاب الدین مارکیٹ کو چند برس قبل مسمار کیا گیا تھا تو اس میں موجود دکانداروں کو متبادل جگہ دی گئی تھی۔ اسی طرح سے پرانی سبزی منڈی کو ختم کرنے سے قبل یہاں کے تاجروں کیلئے متبادل انتظام کیا گیا تھا، اس کے بعد پرانی سبزی منڈی کو ختم کیا گیا تھا۔ یہی طریقہ ایمپریس مارکیٹ کیلئے کیوں نہیں اپنایا گیا؟ یہ سوال بہت اہم ہے جس کا جواب دینے کیلئے ابھی تک کوئی کے ایم سی کا افسر سامنے نہیں آیا ہے۔
اختر عباسی کا کہنا تھا کہ جس طرح کا کاروبار ان کا ایمپریس مارکیٹ میں چل رہا تھا، ویسا کاروبار تو وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ بھلے ہی اچھی سی اچھی لوکیشن ہو، لیکن ایمپریس مارکیٹ کا نعم البدل نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ یہاں پر کاروبار کرنے والوں نے 1948ء سے لے کر اگلی کئی دہائیوں تک جو محنت کی تھی، اسی کی وجہ سے یہاں پر گاہکوں کی ایک مستقل تعداد ان سے منسلک ہوگئی تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ انہوں نے دکانوں پر کیا سامان رکھنا ہے اور کتنا رکھنا ہے۔ اس وقت کے ایم سی اور متعلقہ اداروں کو یہ دکھائی دے رہا ہے کہ یہاں پر کروڑوں کا کاروبار کیا جا رہا تھا۔ لیکن انہیں وہ محنت دکھائی نہیں دے رہی جو یہاں پر کاروبار کرنے والوں تاجروں کی تین نسلوں نے کر رکھی تھی۔ یہ شہر کی واحد مارکیٹ تھی جو کئی دہائیوں تک صبح 6 بجے کھولی جاتی تھی۔ پھر یہ وہ واحد مارکیٹ رہی ہے جہاں پر کئی دہائیوں سے سب سے زیادہ غیر ملکی گاہک بھی آتے رہے ہیں۔ کیونکہ انہیں ایک ہی مارکیٹ سے تازہ گوشت، سبزیوں، خشک میوہ جات سمیت مختلف اناج اور گروسری کے آئٹم مل جاتے تھے۔ اختر عباسی کے مطابق انہیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب اسٹیل مل بن رہی تھی تو اس کے لئے سینکروں روسی شہری آکر شہر میں مقیم ہوئے تھے اور یہ تمام روسی شہری روزانہ خریداری کیلئے ایمپریس مارکیٹ میں ہی صبح سویرے آجایا کرتے تھے اور شہر کی کسی دوسری مارکیٹ میں نہیں جاتے تھے۔ اسی طرح سے اب چینی شہری بھی سب سے زیادہ اسی مارکیٹ میں آیا کرتے تھے۔
اختر عباسی کا مزید کہنا تھا کہ میئر کراچی اور ارباب اختیار اپنے دلوں میں رحم پیدا کریں اور لوگوں کے گھروں میں فاقوں کا موجب نہ بنیں کیونکہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اور مجبور اور بے کسوں کی آہیں براہ راست اثر کرتی ہیں۔ اس لئے انہیں ڈرنا چاہئے کہ کہیں کسی مجبور کی بد دعا ہی انہیں نہ لے ڈوبے۔ اختر عباسی نے ارباب اختیار سے اپیل کی کہ ہزاروں بے روزگار ہونے والوں کے حال پر رحم کھاتے ہوئے ان کیلئے متبادل کا انتظام کیا جائے اور انہیں یوں دربدر نہ کیا جائے۔ کیونکہ ان کی دکانوں سے دکانداروں کے علاوہ غریب مزدوروں کی روزی بھی وابستہ ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More