نمائندہ امت
تفریحی مقام مری میں بعض مقامی افراد نے ایک بار پھر خاتون سیاح سے گالم گلوچ کی۔ خاتون کے احتجاج اور برا بھلا کہنے پر ان اوباش ایجنٹوں نے اس کو سڑک پر لٹا کر تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ ناخوشگوار واقعہ اتوار کو سہ پہر چار بجے اس وقت رونما ہوا جب مری کے مال روڈ پر بڑی تعداد میں سیاح موجود تھے۔ اس واقعے کے بعد مری جانے والے سیاح پریشان اور کشمکش کا شکار ہوگئے ہیں۔ واضح رہے کہ رواں برس اپریل، مئی میں بھی اس طرح کے تین واقعات کے بعد سیاحوں کی جانب سے سوشل میڈیا کے ذریعے ’’بائیکاٹ مری‘‘ مہم چلائی گئی تھی، جس کے نتیجے میں مری میں کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی تھیں۔ مری کے تاجر رہنمائوں کے مطابق موچی سے لے کر ہوٹل انڈسٹری تک کا بزنس 70 فیصد کم ہوگیا تھا، جبکہ مقامی کاروباری طبقہ اور ملازم پیشہ افراد بھی شدید متاثر ہوئے تھے۔ ذرائع کے مطابق اس نقصان کے باوجود مری میں سیاحوں کیلئے خدمات انجام دینے والے افراد، جو باقاعدہ کسی ہوٹل یا ریسٹ ہائوس کے ملازم نہیں ہیں، نے اس سے کوئی سبق نہیں لیا۔ یہی وجہ ہے کہ اتوار کے ناخوشگوار واقعہ نے مری کے رہائشیوں اور کاروباری افراد کے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں۔ ہوٹل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری راجہ یاسر ریاست اور صدر انجمن تاجران طفیل اخلاق عباسی نے اس افسوس ناک واقعے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے ملزمان کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
پولیس تھانہ مری نے موقع پر موجود ٹریفک وارڈن محسن رضا علی ملک کی مدعیت میں خاتون سے گالم گلوچ کرنے، ہاتھاپائی، دھمکیاں دینے، تشدد کرنے اور ٹریفک وارڈن کے منع کرنے پر اسے بھی دھمکانے اور گالم گلوچ کرنے کے الزام میں ندیم ولد ظریف سکنہ نمل اور نو دیگر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا اور گشتہ روز (پیر کو) تمام ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس واقعے کا افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ جب متاثرہ خاتون نے قریبی چیک پوسٹ پر رپورٹ درج کرانا چاہی تو بازار چوکی کے انچارج سب انسپکٹر مظہر اکرم، محرر عبید رضا اور سپاہی اسلم نے جائے وقوعہ کو اپنی حدود میں نہ ہونے کا کہہ کر رپورٹ درج کرنے سے انکار کردیا اور متاثرہ خاتون کو مشورہ دیا کہ وہ راولپنڈی جاکر رپورٹ درج کرائے۔ بعدازاں ایک شہری نزاکت نذیر نے جوکہ سیاحت کیلئے مری آیا تھا، اس کی وڈیو بناکر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردی، جو تھوڑی ہی دیر میں وائرل ہو گئی، جس پر ضلعی انتظامیہ حرکت میں آئی اور نہ صرف مذکورہ پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا بلکہ ایف آئی آر بھی درج کرلی گئی۔ جبکہ سی پی او راولپنڈی عباس احسن نے اس واقعے میں ملوث ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیا۔ مقامی سینئر صحافی عارف سید کے مطابق مری میں ہوٹل مالکان، تاجر اور ٹرانسپورٹرز کا کاروبار سیاحت سے وابستہ ہے، اس لیے وہ ایسے غلط اور غیر قانونی کاموں میں ملوث نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دیہاڑی دار ہوٹل گائیڈ اس میں ملوث ہیں۔ پیر کے روز اسسٹنٹ کمشنر مری امتیاز خان کھچی نے اس حوالے سے ضابطہ اخلاق طے کر دیا ہے۔ عارف سید کے مطابق مری میں لوگوں کے گزر بسر کا انحصار سیاحت پر ہے۔ ایک فیصد لوگ بھی ایسے نہیں جو اپنے مہمانوں سے بدتمیزی کرنے کی سوچ بھی رکھتے ہوں۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے تصدیق کی کہ جب چند ماہ پہلے مری کے بائیکاٹ کی مہم چلی تھی تو صرف 30 فیصد کاروبار رہ گیا تھا۔
صدر انجمن تاجران مری طفیل اخلاق عباسی کے مطابق بعض افراد کاروباری مخاصمت میں اخلاقیات کو بھی بھول چکے ہیں اور اپنا کاروبار ہی ان کی بنیادی ترجیح ہے۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو میں طفیل اخلاق عباسی نے کہا کہ چند ہوٹل مرکزی سڑک سے ہٹ کر ایک سائیڈ پر ہیں، ان ہوٹلوں کے مالکان کو اکثر گاہکوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے گاہکوں کی تلاش اور انہیں گھیرنے کے لیے ایک گائوں ’’نمل‘‘ کے بے روزگار اور چند کلاسیں پڑھے نوجوانوں کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔ ان کی معمولی شکایات پہلے بھی ملتی رہی ہیں۔ لیکن کل کے واقعے نے یہاں تمام کاروباری افراد کے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں کہ ایک خاتون کے ساتھ اتنا افسوس ناک اور شرمناک واقعہ پیش آیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان نام نہاد بروکرز اور ایجنٹس کو سابق حکمران جماعت کے مقامی رہنمائوں اور ایم پی اے کی آشیرباد حاصل رہی ہے، لیکن اب قانون حرکت میں آچکا ہے۔ ماضی میں جو لوگ ایسے افراد کی سرپرستی کرتے رہے اب ان کیلئے ایسا کرنا ممکن نہیں رہا۔ امید ہے کہ اس واقعے میں ملوث ملزمان کو سزا ملے گی۔ طفیل اخلاق عباسی کے مطابق جب چند ماہ قبل سوشل میڈیا پر مری کے بائیکاٹ کی مہم چلی تھی تو مری میں جوتوں کی مرمت اور پالش کرنے والے موچی سے لے کر ہوٹلوں کے کاروبار تک انتہائی منفی اثر پڑا تھا اور صرف تیس فیصد کاروبار رہ گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ دو ڈھائی سو لڑکے ہیں، جو یہاں کا ماحول خراب کررہے ہیں اور ان کو دو تین ہوٹل مالکان کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ سیاحوں کو دھوکہ اور فریب بھی دیتے ہیں اور جو ان کے قابو میں نہیں آتا اس سے بدتمیزی اور گالم گلوچ کرکے پورے مری کو بدنام کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ کل اسسٹنٹ کمشنر کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں ان اوباش لڑکوں اور ان کے سرپرستوں کی نشاندہی کے بعد امید ہے یہ سلسلہ بند ہو جائے گا اور آئندہ اس طرح کا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آئے گا۔ جنرل سیکریٹری ہوٹل ایسوسی ایشن راجہ یاسر ریاست کے مطابق مری میں گائیڈ کے طور پر کام کرنے والوں کے لیے انتظامیہ ورکشاپ کا بھی اہتمام کرتی ہے، لیکن اکثر لوگ اس میں شریک نہیں ہوتے۔ اب اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہوٹل ایسوسی ایشن اس طرح کے واقعات کی روک تھام کیلئے انتظامیہ سے بھرپور تعاون کررہی ہے اور تاجر حضرات مری کی سیاحت کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔تھے۔ اس وقت ایران بھی گریٹر خراسان کی ایک ریاست تھی۔ جیسے آج امریکہ کی ریاستیں ہیں۔ یا گریٹ برٹن، یعنی عظیم برطانیہ پڑھتے ہیں۔ اسی طرح اس وقت گریٹر خراسان تھا۔ جس میں ایران، ازبکستان، افغانستان، ترکمانستان اور تاجکستان شامل تھے۔ یہ 1185 سال قبل مسیح سے زیادہ کا زمانہ بنتا ہے۔ اس وقت گریٹر خراسان اور ہندوستان کے درمیان ایک جنگ ہوئی تھی، جو جنگ ہندوستان کہلاتی تھی۔ اس وقت ہندوستان بھی ہند کہلاتا تھا، جس میں موجودہ سری لنکا، بھوٹان، نیپال اور پاکستان وغیرہ سب شامل تھے۔ اس وقت دریائے توی اور چناب کے ملاپ کا علاقہ (مقبوضہ کشمیر) اور اس کا فطری بہائو ہی ہند اور گریٹر خراسان کا بارڈر تھا۔ اس وقت بنی اسرائیل کی حکومت جو کہ گریٹر خراسان پرتھی، وہ پھیلتی جارہی تھی۔ ہند اور گریٹر خراسان کے درمیان بھوٹان کے علاقے سکم کے لیے جنگ ہوئی تھی اور اسی زمانے میں یہ تمام لوگ اس علاقے میں آتے رہے۔ زیادہ تر تو جنگوں میں شہید ہوتے رہے، اور کچھ کا وصال یہیں پر ہوا۔ اس وقت یہ دریائے چناب کا بارڈر دائیں اور بائیں جانب بنتا تھا۔ کچھ بائیں اور کچھ دائیں دفن ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تمام (جن میں کچھ انبیاء اور زیادہ تر ان کی اولادوں) کے مزارات آپ کو مناور (مقبوضہ کشمیر) سے لے کر ملتان تک ملتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت دریائے چناب کا قدرتی بہائو یہی تھا۔ جیسے حضرت یوشع بن نون تو بنی تھے، جو یہاں تشریف لائے۔ اسی طرح آپ کے بیٹے کا مزار بھی اسی علاقے میں ہے، جن کا نام حضرت طانوخ ہے، لیکن وہ نبی نہیں تھے‘‘۔
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان تمام کا زمانہ الگ الگ تھا، پھر یہ اکٹھے کیسے یہاں آگئے۔ تو اس پر شاہ زین کا کہنا تھا کہ ’’یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ یہ سب انبیاء نہیں ہیں، بلکہ کچھ انبیاء ہیں اور زیادہ تر ان کی اولادیں ہیں۔ اب یہاں بات زمانے کی نہیں، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ سب بنی اسرائیل تھے او ر وہاں سے اٹھ کر گریٹر خراسان میں آئے۔ ان کی تاریخ بعد میں رقم ہوئی ہے۔ اب یہ لوگ افغانستان سے ہوتے ہوئے یہاں آئے تھے۔ افغانستان چھوٹی سی ریاست تھی۔ اس کی ہسٹری مصر، یا بابل کو رکھنے کی ضرورت ہی نہ تھی، ہمیں اس لیے ضرورت تھی کہ ہمارے ورثے میں آگئے۔ آپ اس وقت خود کو بابل یا مصر یا فلسطین میں لے جائیں اور وہاں بیٹھے ہوں تو آپ کے لیے حضرت یوشع بن نون کا مزار کوئی حیثیت نہیں رکھے گا۔ وہ ایران یا افغانستان کی تاریخ نہیں رکھتے۔ وہ تو یوشع بن نون کے بارے یہی کہیں گے کہ وہ اس طرف تو کبھی گئے ہی نہیں تھے۔ یہیں ان کا ارتحال ہوا تھا۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ گریٹر خراسان اور ہندکے درمیان ہونے والی جنگ جو سکم کے لیے لڑی گئی تھی، اس میں یہ لوگ یہاںآئے تھے، اور پھر یہیں کچھ شہید ہوئے اور کچھ کا وصال ہوگیا۔ میرا آپ کو مشورہ ہے کہ آپ گریٹر خراسان کا نقشہ ضرور دیکھیے، جو کہ اس وقت انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے۔ وہ نقشہ دیکھیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان لوگوں کا یہاں آنا کیسے بنتا تھا۔ وہاں آپ زمانہ بھی پڑھ لیجیے، اور باڈر لائن بھی دیکھ لیں گے کہ افغانستان کی سرحد افغانستان کے ساتھ کہاں سے ملتی تھی‘‘۔
شاہ زین نے مزید بھی گفتگو کی، جس میں دیگر انبیاء اور ان کی اولادوں کا ذکر بھی ہوا۔ بعض دیگر انبیاء کے بارے میں بتایا جن پر ان کی تحقیق یہ ثابت کرتی تھی کہ وہ اس علاقے میں آئے اور یہیں مدفون ہوئے۔ ہم نے حضرت یوشع بن نون کے مزار سے رخصت لے کر پیر برنا کے مزار کا رخ کیا، تاکہ وہاں جاکر دیکھا جائے کہ آیا وہاں اب بھی سانپوں کے لیے دودھ کا برتن رکھا جاتا ہے۔ لیکن اس مزار پر ایسا کچھ نہ تھا، بلکہ یہ بالکل ویرانے میں تھا اور ایک بزرگ کے علاوہ کوئی ذی روح یہاں موجود نہ تھی۔ وہ بزرگ بھی یہاں سے گزرتے ہوئے دعا کرکے جارہے تھے۔ ان کا نام فضل کریم تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’صاحب مزار کا کوئی متولی نہیں ہے اور دیکھا جائے تو ہر کوئی متولی ہے۔ یہاں قصور سے ایک پیر نقیب اللہ آئے تھے، جنہوں نے یہاں تعمیرات کرائیں۔ صاحبِ مزار پر نئے شادی شدہ جوڑے، بہتر اور آسودہ زندگی کی منت مرادیں مانگتے ہیں اور وہ مزار پر کلاہ اور گھڑولیاں رکھ جاتے ہیں‘‘۔ صاحبِ مزار کے کتبے پر نام بھی کسی کا نہ تھا۔ صاحب مزار کا نام اور ان کا زمانہ طے نہ ہوسکا۔ بعض محققین نے اسے گھگا پیر کہا اور بعض نے پیر برنا۔ لیکن جو بھی تھا، وضاحت نہیں ہورہی تھی۔ البتہ حضرت یوشع بن نونؑ کے بارے میں کافی تفصیل مل چکی تھی۔ پیر برنا کی قبر پر فاتحہ خوانی کی اور بیرونی دروازے سے پائوں بچا کر نکلے کہ وہاں کافی مقدار میں دال پڑی ہوئی تھی، جس پر چیونٹیاں آئی ہوئی تھیں۔ یہ موٹی چیونٹیاں تھیں، جو حیران کن طورپر مزار کے اندرونی احاطے میں داخل نہیں ہو رہی تھیں، اگرچہ وہاں بھی دال کافی پڑی ہوئی تھی اور راستے بھی کھلے تھے۔ حضرت یوشع بن نونؑ اور پیر برنا کی قبور پر حاضری دینے کے بعد سوچ کے زاویے مختلف اطراف گھومتے رہے۔ ان قبور میں کون سی ہستیاں محو خواب ہیں، یہ اللہ جانتا ہے اور ہم آخر میں یہی کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیںکہ واللہ اعلم باالصواب!۔
٭٭٭٭٭