ایس اے اعظمی
صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے قاتل امریکی فوجی کو ہیرو قرار دیدیا ہے۔ ایک تازہ بیان میں صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ فوجی کمانڈو گرین بیریٹس کو قتل کیس میں رہائی دلوانے کیلئے اپنا ہر ممکن کردار ادا کریں گے۔ فاکس نیوز کے مطابق 2010ء میں امریکی کمانڈو گرین بیریٹس نے افغانستان میں دو امریکی میرینز کی دوران گشت ہلاکت کے بعد بم بنانے اور نصب کرنے کے شبہ میں ایک بے گناہ افغان نوجوان کو ہلاک کرکے اس کی لاش غائب کردی تھی۔ تاہم بعدازاں اس کا دھڑلے سے اعتراف بھی کیا تھا۔ برطانوی جریدے نے بتایا ہے کہ امریکی صدر نے بیگناہ افغان نوجوان کو قتل کرنے کے الزام میں قید کمانڈو گرین بیریٹس کو نہ صرف امریکی ہیرو قرار دیا ہے بلکہ اس کی حمایت کا بھی اعلان کیا ہے۔ ٹرمپ نے سوال اٹھایا ہے کہ امریکی قوم کے ایک ایسے ہیرو کو کس طرح امریکی عدالت کی جانب سے سزائے موت دی جاسکتی ہے، جس نے امریکہ کے دشمن بم ساز کو بہادری سے ہلاک کیا تھا۔ ٹرمپ کے اس اعلان پرافغانستان میں غم و غصہ کا جبکہ خود امریکہ میں حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے کہ بے گناہ افغان نوجوان کا قاتل جب خود ہی اعتراف جرم کررہا ہے تو اس کو ہیرو یا بے قصور کیسے قرار جاسکتا ہے اور وہ بھی عین اس وقت جب اس قاتل فوجی پر جمعہ کو ہی عدالت میں فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں امریکی افواج کے ترجمان اور یو ایس آرمی اسپیشل آپریشن کمانڈ کے لیفٹیننٹ کرنل لورین بائمر نے ایک بیان میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ’’گرین بیریٹس کے خلاف بے گناہ افغان نوجوان کے قتل کی تفتیش میں تسلی بخش ثبوت و شواہد موجود تھے، جن کی بنیاد پر امریکی فورس نے اس کیخلاف وارنٹ جاری کئے تھے‘‘۔ تاہم اس کے باوجود ٹرمپ خود منصب بن بیٹھے اور قاتل کو ہیرو قرار دے رہے ہیں۔ مسٹر ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ گرین بیریٹس کیخلاف اسی کی فوجی کمانڈ نے غیر قانونی رویہ روا رکھا، جو قابل مذمت عمل ہے۔ لیکن امریکی محکمہ دفاع پنٹا گون کے ترجمان، کرنل روب مین اِنگ سے جب اس ضمن میں سوال کیا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ میجر گرین بیریٹس کیخلاف فرد جرم عائد کیا جانا امریکی فوجی اداروں کا مسئلہ ہے۔ ادھر نیویارک ٹائمز نے کھل کر لکھا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے قاتل فوجی کی حمایت میں دیا جانے والا بیان امریکہ کے نظام عدل میں براہ راست معمولی مداخلت ہے، جس پر نہ صرف امریکی بلکہ افغان حکام بھی حیران ہیں۔ امریکی جریدے، ملٹری ٹائمز نے افغان حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی کمانڈو گرین بیریٹس پر ایک افغان نوجوان پر محض شبہ میں گولیاں مار کر شہید کرنے کا الزام ہے۔ اس افغان نوجوان کو قتل کرنے کے بعد گرین بیریٹس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مشتبہ افغان نوجوان کو گرفتار کرنے میں ناکامی کے بعد گولیوں سے چھلنی کردیا ہے۔ لیکن امریکی فوجی حکام کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا
کہ شہید کیا جانے والا افغان نوجوان بمبار یا بم بنانے والا تھا۔ اس ابتدائی تفتیشی رپورٹ پر افغان حکام کے شدید دبائو پر گرین بیریٹس کو امریکہ پہنچنے پر گرفتار کرلیا گیا تھا اور اب اس کے خلاف امریکی عدالت میں مقدمہ چلایا جارہا ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ نے عدالتی احترام کو نظرانداز کرتے ہوئے قاتل کو بے گناہ بلکہ امریکی قوم کا ہیرو بنانے کا بیان دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس کیس میں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں اور گرین بیریٹس کو رہائی دلوانے کیلئے اس کیس میں مداخلت کریں گے۔ صدر ٹرمپ معافی کا اپنا صدارتی حق (عدالتی کارروائی سے پہلے ہی) استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں وائٹ ہائوس سے جاری بیان میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکی کمانڈو گرین بیریٹس کے حق میں ان کو متعدد امریکی حکام اور شہریوں (ہلاک امریکی میرینز کے والدین)کی جانب سے اپیلیں ملی ہیں، جن میں اس کیخلاف مقدمہ چلانے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور اب وہ اس کیس میں اپنا حق استعمال کرکے گرین بیریٹس کو سزا سے بچائیں گے۔ ادھر امریکی عدالت میں پراسیکیوٹرز کی جانب سے مقدمے کا جو چالان پیش کیا گیا ہے، اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کمانڈو گرین بیریٹس نے افغان نوجوان کو بم سازی کے الزام میں گرفتار کرکے قتل کیا۔ لیکن افغان نوجوان کیخلاف کوئی گواہ یا ثبوت و شواہد موجود نہیں تھے۔ افغان نوجوان کا قتل گرین بیریٹس کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا، جس میں مقتول نوجوان کی لاش نہیں ملی۔ یہی خیال کیا جاتا ہے کہ امریکی کمانڈو گرین بیریٹس نے افغان نوجوان کو گولیاں مار کر اس کی لاش کو جلا دیا ہوگا۔ تاہم گرفتار کمانڈو نے اس کو اپنے ہاتھوں قتل کا اعتراف ضرورکیا ہے۔ امریکی فاکس نیوز کے تجزیہ نگاروں اور قانونی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اگر عدالتی کارروائی میں گرین بیریٹس اعتراف جرم کرلیتا ہے تو یقیناً اس کو سزائے موت دی جاسکتی ہے۔ اب تک کے تفتیشی عمل میں امریکی کمانڈو گرین بیریٹس نے افغان نوجوان کو محض شبہ کی بنیاد پر قتل کرنے کا اعتراف کیا ہوا ہے۔ لیکن اب اس مقدمہ کا منظر نامہ تبدیل ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ صدر ٹرمپ اس قاتل کے حق میں کھڑے ہوگئے ہیں اور انہوں نے اس کو امریکی قوم کا ہیرو قرار دیا ہے۔ فاکس نیوز سے2016ء میں ایک انٹرویو میں گرین بیریٹس نے اعتراف کیا تھا کہ ’’میں نے افغان نوجوان کو محض اس شبہ میں ہلاک کردیا تھا کہ اس کے بارے میں مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ سڑک کنارے نصب کئے جانے والے بم بناتا ہے اور طالبان کی مدد کرتا ہے۔ اپنی ہلاکت سے دو دن قبل اس افغان نوجوان نے ایک روڈ سائیڈ بم بناکر نصب کیا تھا، جس کی زد میں آکر دو امریکی میرینز ہلاک ہوگئے تھے۔ اس اطلاع پر دل گرفتہ ہوکر میں نے اس نوجوان کو گرفتار کرنے کے بعد گولیاں مار کر ہلاک کردیا‘‘۔ بعدازاں فرائض کی انجام دہی کے اختتام پر افغانستان سے امریکہ آمد پر جب2011ء میں سی آئی اے کی جانب سے اس امریکی کمانڈو گرین بیریٹس سے تفتیشی انٹرویو کیا گیا تو اس نے سی آئی اے کمانڈر کو بھی یہی بتایا کہ اسی نے دو امریکی میرینز کی ہلاکت کا بدلہ لینے کیلئے مشتبہ افغان نوجوان کو گولیاں مار کر چھلنی کردیا تھا۔ فاکس نیوز نے ملٹری ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجی حکام نے گرین بیریٹس کی جانب سے بحیثیت افسر غلط اور غیر قانونی رویہ اختیار کرنے پر اس کو فارغ کرکے امریکہ بھیج دیا تھا۔ لیکن یہاں اس کی جانب سے میڈیا انٹرویو میں اعتراف جرم اور قاتل کی حیثیت سے خود کو متعارف کرانے پر امریکی حکام نے اس کو ملٹری کی سفارش پر گرفتار کرلیا تھا اور اس کیخلاف مقدمہ چلانے کی سفارش کی تھی۔ جس پر عمل کرتے ہوئے امریکی عدالت نے اس کیخلاف مقدمہ کا آغاز کردیا۔ تاہم عدالتی کارروائی پر امریکی صدر چیں بجبیں ہیں۔
٭٭٭٭٭