محمد زبیر خان
نسیم اختر روزانہ رات کو ایک بجے سے نماز فجر تک اور دن میں ظہر سے عصر تک سوئی دھاگے سے قرآن پاک لکھا کرتی تھیں۔ انہوں نے قرآن پاک لکھنے کی وجہ سے کبھی بھی اپنے گھر کے معاملات ڈسٹرب نہیں ہونے دیئے۔ گھر کے کام کاج اور شوہر و بچوں کی تمام ضروریات پوری کرنے کے بعد قرآن شریف لکھا کرتی تھیں۔ نسیم اختر کے بقول… ’’مجھے سردیاں پسند تھیں۔ کیونکہ لمبی راتوں میں زیادہ دیر تک کام کرنے کا موقع ملتا تھا۔ اکثر خواب دیکھا کرتی تھی کہ خانہ کعبہ کے سامنے کھڑی ہوں اور دعا کر رہی ہوں۔ اور جب خانہ کعبہ گئی تو اسی مقام پر کھڑی تھی، جسے میں بتیس برس تک خواب میں دیکھا کرتی تھی‘‘۔
نسیم اختر نے اپنے اس بابرکت کام کے بارے میں مزید بتایا کہ… ’’اپنے شوہر غلام مصطفیٰ صاحب سے اجازت ملنے کے بعد میں نے قرآن پاک لکھنے کی تیاری شروع کردی۔ سب سے پہلے کپڑے کے تھانوں کو شرنک کیا گیا۔ اس کے بعد ان کی جلدیں بنائی گئیں۔ پھر بہت احتیاط سے لکھنا شروع کر دیا۔ غلام مصطفی صاحب کے تبادلے ہوتے رہتے تھے اور ظاہر ہے، میں بھی ان کے ساتھ ہوتی تھی۔ کبھی ایک شہر تو کبھی دوسرے شہر۔ پاکستان ایئر فورس تو ایک خاندان کی ماند ہے۔ میں جہاں بھی جاتی، جس شہر میں بھی ہوتی، وہاں سلائی کڑھائی سینٹر میں اپنے فرائض ادا کرتی رہتی تھی۔ لیکن میں نے گھر کے کاموں میں بھی کبھی کوئی کوتاہی نہیں کی۔ بچوں کو پڑھانا، ہوم ورک کرانا، گھر کے دیگر معاملات کو دیکھنا۔ غمی، خوشی میں عزیزوں اور رشتہ داروں سے میل جول رکھنا، غلام مصطفی صاحب کی ضرورتوں کا خیال رکھنا، یہ سب کچھ میں بھرپور انداز سے کرتی تھی۔ یہاں تک کہ غلام مصطفی صاحب کی ضرورت کی اشیا، یعنی کپڑے وغیرہ بھی میں ہی خریدتی تھی۔ ان کو پتا ہی نہیں ہوتا تھا کہ کیا خریدا ہے اور کیا نہیں۔ ان سب ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد قرآن پاک لکھا کرتی تھی۔ قرآن شریف کی تکمیل کے 32 برسوں میں کبھی بھی میرے گھر کے معاملات ڈسٹرب نہیں ہوئے۔ کپڑا تو میں پہلے ہی خرید کر لے آئی تھی۔ لیکن سوئیوں اور دھاگے وغیرہ کی ضرورت پڑتی رہتی تھی۔ جب قرآن شریف لکھنا شروع کیا تو میرا بیٹا اقبال چوتھی کلاس میں پڑھتا تھا۔ اب وہ کچھ بڑا ہوگیا تھا اور اکثر دکان سے سوئی دھاگہ لا دیا کرتا تھا۔ میں ایک ہی قسم کا کالے رنگ کا دھاگہ استعمال کرتی تھی۔ 32 سال تک میری روٹین رہی کہ ظہر سے لے کر عصر تک اور رات کو ایک بجے اٹھ کر صبح فجر تک قرآن پاک لکھا کرتی تھی۔ دوپہر کو جب بچے اسکول، کالج اور یونیورسٹی سے آجاتے تو ان کو کھانا دیتی اور پھر ان کے سونے کے بعد، قرآن پاک لکھنے بیٹھ جایا کرتی تھی۔ میری زندگی بہت آسان تھی۔ کسی چیز کا لالچ نہیں تھا۔ زیادہ خواہشات بھی نہیں تھیں۔ کھانے پینے میں، نہ رہن سہن میں، نہ کپڑوں اور فیشن میں۔ بس جو مل جاتا، اس پر صبر و شکر کے ساتھ قناعت کرلیتی تھی۔ اپنے بچوں کو بھی یہی سکھایا کہ نئے، پرانے یا قیمتی کپڑوں کے چکر میں نہیں پڑنا چاہئے۔ بس کپڑے صاف اور پاک ہونے چاہئیں۔ ان اصولوں کی وجہ سے میری زندگی بہت سہل طریقے سے گزری۔ ہمارے گھر میں رات دیر تک جاگنے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ مغرب کے بعد سب کھانا کھالیتے اور عشا کی نماز پڑھنے کے تھوڑی دیر بعد سو جاتے تھے۔ اس روٹین کا یہ فائدہ تھا کہ میرے لیے رات ایک بجے اٹھنا آسان ہوتا تھا۔ اس وقت میں قرآن پاک لکھنے بیٹھ جاتی اور فجر کی اذان تک یہ کام کرتی رہتی تھی۔ سردیوں کی راتیں مجھے پسند تھیں۔ کیونکہ لمبی ہوتی تھیں۔ فجر کے وقت سب گھر والے اٹھ جاتے تھے۔ نماز پڑھنے کے بعد میں ناشتہ تیار کرلیتی تھی۔ ناشتہ کرکے سب اپنے اپنے کام دھندوں پر چلے جاتے تھے۔ اس کے بعد میں بھی سلائی کڑھائی مرکز جاتی تھی۔ وہاں سے میری واپسی ساڑھے 12 بجے کے قریب ہوتی تھی۔ تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد دوپہر کا کھانا تیار کرتی اور ظہر کی نماز ادا کرتی تھی۔ اسی دوران بچے گھر آجاتے تھے۔ جب وہ کھانا کھا کر لیٹ جاتے تو میں دوبارہ قرآن پاک لکھنے بیٹھ جاتی تھی۔ میں نے طویل عرصے تک قرآن پاک لکھا ہے۔ اللہ کی اس کتاب میں غلطی تو نہیں ہونی چاہئے، لیکن کسی بھی انسان سے غلطی کا احتمال ہوتا ہے۔ لہذا میں نے اپنے محلے کے ایک معروف قاری صاحب کی مدد حاصل کرلی تھی۔ میں ایک یا آدھا سپارہ لکھ کر ان کو پڑھنے کیلئے دے دیتی تھی۔ اگر اس میں کوئی غلطی ہوتی تو وہ نشان دہی کر دیتے اور میں اس کو درست کر لیتی تھی۔ میں ایک ایک سپارہ لکھ کر جلد کرواتی اور محفوظ کر دیا کرتی تھی۔ سوئی دھاگے سے قرآن پاک لکھنے کے دوران 32 برسوں میں مجھے ایک خواب تواتر سے نظر آتا رہا کہ میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑی دعا مانگ رہی ہوں۔ تاہم جب میں پہلی مرتبہ حج کیلئے گئی تو میں نے خانہ کعبہ کے سامنے جس مقام پر کھڑے ہو کر دعا مانگی، یہ وہ ہی مقام تھا، جو مجھے خواب میں نظر آیا کرتا تھا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے تین حج اور عمرے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭