تیسری قسط
محمد زبیر خان
سوئی دھاگے سے کپڑے پر قرآن کریم لکھنے کا منفرد کام کرنے والی باہمت خاتون نسیم اختر کا ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ… ’’32 برسوں میں کم ہی ایسا ہوا کہ میں قرآن پاک کی لکھائی نہ کر سکی۔ یہ بابرکت کام میری زندگی کی روٹین کا حصہ بن گیا تھا۔ محسوس ہی نہیں ہوا کہ 32 سال کیسے گزر گئے۔ جب قرآن پاک مکمل ہوا تو میں نے اس کو جلد بندی کیلئے بھجوایا۔ وہاں سے یہ خبر میڈیا تک پہنچ گئی۔ اس حوالے سے خبریں سعودی عرب کے میڈیا میں بھی شائع ہوئیں۔ بعدازاں جب امام کعبہ نے پاکستان کا دورہ کیا تو انہوں نے مجھے ملاقات کیلئے بلوالیا۔ امام کعبہ نے مجھ سے کہا کہ اگر میں چاہوں تو یہ نسخہ، مدینہ منورہ کی قرآن اکیڈمی میں محفوظ کرسکتی ہوں۔ انہوں نے مجھے عمرے کی دعوت بھی دی جو میں نے قبول کرلی تھی‘‘۔ واضح رہے کہ نسیم اختر واحد خاتون ہیں، جن کو یہ اجازت ملی کہ وہ قرآن اکیڈمی میں اپنے ہاتھوں سے قرآن پاک کو محفوظ کریں۔ ورنہ یہ کام صرف عملہ کرتا ہے۔ نسیم اختر کے بقول… ’’جس وقت میں اپنے لکھے ہوئے قرآنی نسخے کو اپنے ہاتھوں سے محفوظ کر رہی تھی، اس وقت جو کیفیت تھی، اس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے‘‘۔
’’امت‘‘ سے طویل نشست میں نسیم اختر نے بتایا کہ قرآن پاک لکھتے ہوئے بتیس برس کیسے گزر گئے، پتا ہی نہیں چلا۔ جب قرآن پاک مکمل ہو گیا تو اب ضرورت تھی کہ جلدیں بنوا کر اس کو محفوظ کیا جائے۔ جلد بنانے والے ایک مقامی شخص سے بات چیت کی اور اس کے حامی بھرنے پر کپڑے پر لکھے قرآنی صفحات اس کو پہنچائے۔ وہاں سے یہ خبر پاکستانی میڈیا تک پہنچی کہ ایک خاتون نے سوئی دھاگے سے کپڑے پر پورا قرآن پاک لکھا ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہ خبریں سعودی عرب کے میڈیا میں بھی چھپی ہیں۔ اُسی سال (تاریخ یاد نہیں) امام کعبہ پاکستان تشریف لائے تو انہوں نے مجھے ملاقات کیلئے اسلام آباد بلا لیا۔ وہاں انہوں نے میرے تحریر کردہ قرآن پاک کا معائنہ کیا اور مجھ سے مختلف باتیں پوچھیں۔ انہوں نے میرے قرآن پاک کی سند کا سرٹیفیکٹ بھی دیکھا۔ جب ان کی ہر طرح سے تسلی ہوگئی تو انہوں نے مجھے دعوت دی کہ اگر میں چاہوں تو قرآن پاک کے اس منفرد نسخے کو مدینہ منورہ میں واقع دنیا کی سب سے بڑی قرآن اکیڈمی میں محفوظ کروا سکتی ہوں۔ اس کیلئے انہوں نے مجھے میری پوری فیملی سمیت سعودی عرب آنے کی دعوت دی۔ میں نے ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر ان کی دعوت قبول کرلی۔ بیت اللہ کے سفر کیلئے کیسے روانہ ہوں گے، کیا تیاریاں کرنی ہیں، کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ بس میرے ذہن میں یہ تھا کہ رب کی بارگاہ میں اپنا تحفہ دینے جارہی ہوں۔ وہاں پہنچ کر پہلے عمرہ کیا اور پھر مدینہ منورہ کی قرآن اکیڈمی میں اپنے ہاتھ سے لکھے قرآن شریف کو پیش کیا۔ وہاں ہمیں جو عزت اور توقیر ملی، وہ بیان سے باہر ہے۔ اس اکیڈمی میں قرآن پاک کے منفرد اور نادر نسخے محفوظ کرنے کیلئے قبول کئے جاتے ہیں۔ لیکن کسی کو یہ اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ خود اپنے نسخے کو محفوط کرے۔ یہ کام وہاں کی انتظامیہ کے لوگ کرتے ہیں۔ لیکن مجھے انہوں نے یہ سعادت بخشی کہ میں اپنے ہاتھوں سے اس کو محفوظ کروں۔ یہ تاریخی کام کرتے ہوئے میری جو کیفیت تھی وہ بیان نہیں کرسکتی۔ یہ اللہ کی کرم نوازی ہے کہ اس نے مجھے یہ عظیم سعادت بخشی۔ وہ نسخہ میں نے اللہ کے حکم سے ہمیشہ کیلئے محفوظ کروا دیا ہے۔ بہت سے لوگ مجھ سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ 32 سال میں قرآن پاک تحریرکیا، تو کیا اس دوران گھر کے کام کاج نہیں کرتی تھیں؟۔ اس پر میں چپ ہو جاتی ہوں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ گجرات میں یہ مکان ہم نے خود تعمیر کیا ہے۔ میں نے اس مکان کی تعمیر میں مزدوری بھی کی ہے۔ بچے چھوٹے تھے تو ان کا ہرکام خود کرتی تھی۔ شوہر کو بھی مجھ سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ وہ پاکستان ایئر فورس میں ملازم تھے، ان کی اکثر مختلف شہروں میں پوسٹنگ ہوتی رہتی تھی۔ میں پاکستان ایئر فورس کے دستکاری اسکول میں طالبات کو تربیت دیتی تھی۔ اپنی اس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ میں نے نہ صرف گھر والوں کو وقت دیا۔ بلکہ جس بڑے اور اہم کام کو شروع کیا تھا اس کو بھی بحسن و خوبی مکمل کیا۔ میں اپنے علاقے اور خاندان میں بہت سوشل بھی ہوں۔ سب مجھ سے مشورے کرتے ہیں اور میں ہر ایک کی مدد کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ سب کی غمی اور خوشی میں شرکت کرتی ہوں۔ قرآن پاک لکھنے کا کام شروع کرنے سے پہلے اپنے شوہر کپڑے اور جوتے وغیرہ خود خرید کر لاتی تھی۔ غلام مصطفی صاحب کو کچھ پتا نہیں ہوتا تھا کہ کیا پہننا ہے۔ مجموعی طور پر میں نے اور میری فیملی نے سادگی سے زندگی گزاری ہے۔ والدین نے بچپن ہی سے میری تربیت ایسی کی کہ ہمیشہ خواہشات کم رکھیں۔ یہی تربیت میں نے اپنے بچوں کو بھی دی۔ جب بچے کچھ بڑے ہوئے تو ان کو میرے کام کی اہمیت کا اندازہ ہوا اور انہوں نے غیر محسوس انداز میں میری مدد کرنی شروع کردی اور اپنے بیشتر کام خود کرنے لگے۔ وہ مجھ سے پوچھتے رہتے تھے کہ سوئیوں کی ضرورت تو نہیں ہے۔ دھاگہ تو ختم نہیں ہوگیا۔ میں کہتی تو وہ بازار سے یہ چیزیں مجھے لاکر دیتے تھے۔ (جاری ہے)
Next Post