قسط نمبر 16
محمد فاروق
محمد فاروق اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق رہنما ہیں۔ برطانیہ میں مقیم محمد فاروق نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’’غمزۂ خوں ریز‘‘ کے نام سے شائع کی ہے۔ جو نہ صرف ایک عہد کی آئینہ دار ہے، بلکہ اس میں شریعت و تصوف کے امتزاج کی لطافت بھی جابجا ملتی ہے۔ قارئین کیلئے ’’غمزۂ خوں ریز‘‘ کے منتخب ابواب پیش کئے جارہے ہیں۔
حضرت سنڈاکئی بابا جیؒ کا ان اہم سیاسی و عسکری ذمہ داریوں کے علاوہ سوات میں اور کیا کردار تھا؟ آئیے اس کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ ہندوستان میں علم سے فراغت کے بعد سنڈاکئی باباجیؒ سوات تشریف لائے۔ آپ کی سوات آمد سے پہلے صورت حال یہ تھی کہ یہاں کوئی منظم حکومت نہیں تھی۔ یہاں پر ظالم خوانین کا راج تھا۔ اس علاقے کے عمائدین کے علاوہ عام لوگوں کی اخلاقی و سماجی حالت یہ تھی کہ اس فتنہ پرور انتشار آشنا اور فساد سے بھرپور زمین میں کسی اصلاح کام کی تخم ریزی کے لیے ناموافق ماحول اس بات میں مانع تھا کہ کوئی اللہ کا نیک بندہ سربکف ہوکر چارہ گری کی کوئی کوشش کرتا۔ میرے علم کے مطابق اور دستیاب تاریخی ریکارڈ کے بموجب حافظ الپورئی، جو پشتو زبان کے مشہور صوفی شاعر، وقت کے جید عالم اور صاحب حال بزرگ گزرے ہیں، سب سے پہلے اور بڑے بزرگ تھے جو قومیت کے لحاظ سے ’’مند نڑ‘‘ تھے اور تقریباً 1500 عیسوی کے لگ بھگ سوات تشریف لائے تھے۔ احباب ان شخصیات کے حالات زندگی دستیاب تاریخ کی کتابوں سے خود ملا خطہ کر سکتے ہیں کہ ہمارا مقصد اور خود اس سلسلہ تحریر کا دامن صرف ان واقعات کے تذکرے تک محدود ہے جو اس ناچیز تک براہ راست یا کسی قابل اعتماد ذریعے سے پہنچے ہیں۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا، سوات کی زمین اور یہاں کے لوگوںکے مخصوص سماجی حالات کچھ اس طرح رہے ہیں کہ یہاں اگر کسی بندہ خدا نے علم و معرفت، اصلاح و تزکیہ کی کسی کو شش کا آغاز کیا بھی ہے، تو سخت ہزیمت ہی اٹھائی ہے۔ اسی حافظ الپورئی کے وہ اشعار آج بھی زبان زد عام ہیں جو انہوں نے حضرت غلام حقانیؒ (سوات میں تحریک اسلامی کے ایک مایہ ناز فرزند اور رہنما) کی ایک خوبصورت اصطلاح کے مطابق، ’’بے وفا معشوق‘‘ کی شکایت میں کہے ہیں:
خابنں میوہ دار نشتہ د دی دھر پہ بوستان کنبیوارہ کندھری دی حلق تریخ دی پہ زمان کنبیبل چراغ د نیاز می چرتہ ونہ موند روبنانہسپوری مری دیوی دی بیھودہ پہ چراغ دان کنبیتۂ چی پۂ غور بند کنبی شناخت عزت غواری حافظبوی د مشکو غواری د دبکرو پہ دکان کنبی’’اس باغ میں کھانے کے لیے میٹھے پھل نہیں ماسوائے کڑوے کسیلے اور منہ کا ذائقہ خراب کرنے والے پھل۔ نہ اس چراغ دان میں کوئی روشن چراغ موجود ہے، سوائے چند بجھے چراغوں کے۔ اے حافظ! تم اس جگہ اپنی قدر دانی کے طالب ہو، یہ تو اس طرح ہے کہ جیسے کوئی لوہار کی دکان میں خوشبو تلاش کرتا ہے۔‘‘
بے شک سوات شروع ہی سے بقل حافظ الپورئی ’’لوہار‘‘ کی دکان ہے۔ یہاں کے تعفن میں رشد و ہدایت کو خوشبو پھیلانا کوئی آسان کام نہیں۔ حافظ صاحب کے ساتھ اس سرزمین سوات میں اور کیا کیا پیش آیا ہے؟ اس کے لیے ایک دفتر چاہیے۔ اللہ نے فرصت و توفیق سے نوازا تو یہ بڑی دلسوز کہانی بھی کسی وقت ہدیۂ احباب کروں گا۔
حافظ صاحب کے بعد دوسرے اور بڑے ولی خود ہمارے سیدوں کے جدامجد حضرت سید علی ترمذیؒ تھے۔ لیکن انہوں نے بعض عقیدت مندوں کے اصرار کے باوجود سوات میں آنا یا ادھر مستقل قیام فرمانا پسند ہی نہیں فرمایا۔ انہوں نے علاقہ بونیر ہی کو اپنا مستقل مسکن بنایا۔ مدتوں بعد سوات آنے والی شخصیت ایک بہت بڑے بزرگ مجاہد اور شریعت اسلامی و دین کے اجتماعی تقاضوں سے باخبر، اسی سنڈاکئی باباجیؒ کے پیر مرشد حضرت عبدالغفورؒ، اخون سوات کی تھی۔ اس مرد مجاہد کے والد مہمند قبیلے صافی سے تعلق رکھتے تھے۔ سوات کے علاقہ شامیزی میں وہ بھی ’’باہر‘‘ سے تشریف لائے تھے۔ ان کی بے پناہ جد و جہد، جس میں سید احمد شہید بریلویؒ کی تحریک میں ان کی عظیم قربانیوں شامل ہیں،کے نتیجے میں وہ پہلی بار سوات میں ایک شرعی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے لیے انہوں نے سید علی ترمذیؒ کے پڑپوتوں میں سید اکبر شاہ کا انتخاب فرمایا، اور ان کے ہاتھ پر سب سے پہلے خود بیعت کر کے انہیں اس اسلامی حکومت کا حکمران تسلیم کیا۔ جی ہاں! یہ وہی اخون سوات ہیں، جن پر آج سوات کو ہر دوسرے گھر میں یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ان کے ہاں بزرگی یا ولی اللہ ہونے کا کوئی معاملہ نہیں تھا، بس انہیں اقتدار چاہیے تھا۔ شومئی قسمت کہ سید اکبر شاہ مختصر عرصے کے بعد 11 مئی 1857ء کے عین جنگ آزادی کے دن وفات پاگئے۔ ان کی حکومت کب قائم ہوئی تھی؟ اور کتنے عرصے رہیِ؟ یہ اور اس قسم کے معامات، احباب کتابوں سے حاصل کرسکتے ہیں۔ مجھے صرف اتنا معلوم ہوسکا ہے کہ سید اکبر شاہ کی حکومت بارہ سال تک چلی تھی۔ میری اس قسم کی معلومات کی کمی کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ نیٹ کے مواد پر میں زیادہ بھروسہ نہیںکرتا اور اس دیار غیر میں مجھے ایک مکمل لائبریری کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ سید اکبر شاہ کی حکومت کے خاتمے کے 56 سال بعد سید علی ترمذیؒ کی اولاد میں سید عبدالجبار شاہ المعروف ستھانے میاں کو 1913ء میں ایک بار پھر سوات میں حکومت قائم کرنے کا موقع ملا، جس میں عمائدین سوات اور خود سنڈاکئی باباجیؒ کی کوششوں کا ہاتھ تھا۔ لیکن یہ حکومت بھی 1915ء میں عبدالجبار شاہ کو معزول کر کے ختم کردی گئی۔
سید عبدالجبار شاہ کی حکومت کیوں ختم کردی گئی؟ اس بارے میں کتابوں میں یا تو یہ وجہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دیر کے نواب خاندان کی طرف سے سوات پر حملوں کو روکنے اور سوات کا دفاع کرنے میں ناکام رہے تھے۔ یا بعض نے لکھا ہے کہ ان کو مذہبی اختلافات کی وجہ سے ہٹایا گیا۔ بعض کے نزدیک ایک وجہ سے مقامی خوانین کی اس سے ناراضگی اور عام لوگوں کی یہ بے حسی بھی ہے کہ وہ خانوں کے ڈنڈے کے نیچے زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے تھے۔ اور بقول علامہ، خوئے غلامی میں یہ غلام پختہ ہوگئے تھے۔ خواجگی سوات میںکوئی مشکل شے نہیں رہی تھی۔ لہٰذا کسی منظم حکومت کی نعمت نہ تو سوات کے باسی محسوس کرتے تھے نہ اس کی حمایت میں ان کی طرف سے کوئی آواز اٹھتی تھی۔ اصل حقیقت کیا تھی؟ ہمارے مہمانان گرامی میں نورانی چہرے والے بزرگ، حضرت مارتونگ باباجیؒ نے اس کی ایک بہت ہی دلچسپ کہانی ایک چشم دید گواہ کی حیثیت سے سنائی۔ جو ان کے مرشد حضرت سنڈاکئی باباجیؒ کی ایک زندہ کرامت اور روحانی کمال آئینہ دار ہے۔ (جاری ہے)
Prev Post