عمران خان
’’تجاوزات کے نام پر ایمپریس مارکیٹ کے اندر کے ایم سی کی جانب سے قائم کردہ دکانوں کو مسمار کئے جانے کے بعد کئی دکاندار مفلوک الحال ہوچکے ہیں۔ متمول زندگیاں گزارنے والے کاروباری افراد جو اپنے مزدوروں کو بھی دیہاڑیاں دے رہے تھے۔ آج ان کیلئے گھروں کے کرائے اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات تک نکالنا مشکل ہو گیا ہے۔ خود میری بیٹی نے جب مجھے پریشان دیکھا تو اس نے گھر پر بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، تاکہ اپنی اور اپنے دیگر بہن بھائیوں کے تعلیمی اخراجات پورے کر سکے‘‘۔ یہ کہنا ہے ایمپریس مارکیٹ میں 1970ء سے جنرل آئٹم کی دکان چلانے والے نثار عباسی کا۔ جو کے ایم سی کی جانب سے کئے جانے والے آپریشن کے اعلان کے وقت اپنی بڑی بیٹی کی شادی کے لئے راولپنڈی گئے ہوئے تھے۔ تاہم جیسے ہی انہیں اپنی عمر بھر کی جمع پونجی لٹنے کی روح فرسا خبر ملی، وہ فوری طور پر واپس تو آگئے، لیکن اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی کو بچا نہ سکے۔ دیگر دکانداروں کی طرح وہ بھی خاموش تماشائی بنے اپنے روزگار کو لٹتا دیکھتے رہے اور آنسو بہاتے رہے۔ تاجروں کے بقول متاثرہ دکاندار آج بھی ایمپریس مارکیٹ کے اندر اور باہر مختلف احتجاجی بینرز لگائے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ تاہم ان کی سننے والا کوئی نہیں۔ کوئی ان کی داد رسی کے لئے آگے آنے کو تیار نہیں، حالانکہ ان کے مطالبات جائز ہیں۔ وہ اپنے حق سے زیادہ نہیں طلب کر رہے۔ میئر کراچی سے وہ صرف اتنا مانگ رہے ہیں، جتنا ان سے چھینا گیا ہے۔ تاکہ وہ اپنی زندگی کی گاڑی کو پھر سے رواں دواں کر سکیں۔
نثار عباسی ایمپریس مارکیٹ میں دکان نمبر 46 چلا رہے تھے۔ ان کی اہلیہ اور پانچ بچے راولپنڈی میں مقیم ہیں۔ جنہیں وہ ماہانہ آمدنی میں سے گزشتہ کئی برسوں سے اخراجات بھجوارہے تھے۔ اس کے علاوہ دکان پر کام کرنے والے مزدوروں کو بھی دیہاڑی دے رہے تھے۔ انہوں نے ’’امت‘‘ کو اپنی روداد سناتے ہوئے کہا کہ ان کے والد نے 1948ء میں ہی یہاں دکانیں لے لی تھیں۔ جس وقت کے ایم سی کے افسران تما م سرکاری واجبات اور فیسیں وصول کر کے دکانوں کی الاٹمنٹ کی دستاویزات دے رہے تھے، اس وقت ان کے والد صابر نے پہلی دکان سے حاصل ہونے والی آمدنی سے مزید تین دکانیں حاصل کی تھیں۔ جس پر ان کے تین بھائی کاروبار کرتے چلے آئے ہیں۔ اس دوران 1970ء سے لے کر اب تک شہر بھر میں تجاوزات کے خلاف کئی بڑے آپریشن ہوئے۔ لیکن ان درجنوں بڑے آپریشنز میں صرف غیر قانونی تجاوزات کو ہی نشانہ بنایا جاتا رہا۔ لیکن کبھی ایمپریس مارکیٹ کے اندر موجود دکانوں کو مسمار کرنے کے احکامات جاری نہیں کئے گئے۔ کیونکہ یہ دکانیں خود کے ایم سی نے بنوا کر دی تھیں اور کے ایم سی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے افسران ماہانہ واجبات مستقل وصول کرتے تھے۔ لیکن میئر کراچی کی سربراہی میں کئے گئے حالیہ آپریشن میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کا رخ ایمپریس مارکیٹ کے اندر قائم دکانوں کی جانب موڑ دیا گیا اور آن کی آن پوری مارکیٹ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ نثار عباسی کا مزید کہنا تھا کہ… ’’میرے بچے پہلے کراچی میں ہی رہتے تھے۔ لیکن چند برس قبل میں نے انہیں راولپنڈی بھجوادیا تھا اور وہاں پر انہیں کرائے کا مکان لے کر دے دیا تھا۔ کیونکہ دکان سے حاصل ہونے والی آمدنی جب تقسیم ہوتی تھی تو میرے حصے میں آنے والی رقم اتنی ہی ہوتی تھی، جس سے میں مکان کا کرایہ اور بچوں کی اچھی تعلیم کے علاوہ گھر کا ماہانہ خرچہ چلا سکوں۔ لیکن اس کے باوجود یہی کہوں گا کہ اچھا گزارا ہو رہا تھا۔ دکان میں لاکھوں روپے کا سامان موجود رہتا تھا، جس کو فروخت کر کے بیوپاریوں کو پچھلی رقم ادا کرتے تھے اور مزید سامان اٹھا لیتے تھے۔ اس طرح سے ایک چین چل رہی تھی، جو اب ٹوٹ چکی ہے۔ بعض دکانداروں نے کاروبار کے دوران جو بھی منافع کمایا تھا، اس سے باہر کوئی مکان یا دکان خریدنے کے بجائے انہوں نے ایمپریس مارکیٹ کے اندر ہی سرمایہ کاری کردی تھی۔ یعنی ایک تاجر نے دوسری خالی ہونے والی دکان خریدی یا پھر ایمپریس مارکیٹ کے اندر ہی گودام خرید لیا، تاکہ یہیں پر سامان اسٹاک کر کے یہیں پر فروخت کیا جاسکے۔ ان کے ذہنوں میں کہیں دور تک بھی یہ امکان ہوتا کہ ایک دن یہاں آپریشن کر کے سب کچھ ملبے کا ڈھیر بنا دیا جائے گا تو وہ اپنی عمر بھر کا سرمایہ ایمپریس مارکیٹ ہی میں لگانے کے بجائے کہیں اور اثاثے بناتے۔ لیکن ایسا کبھی انہوں نے سوچا ہی نہیں تھا۔ کیونکہ انہیں تو کے ایم سی کے افسران کی جانب سے بھی ہمیشہ یہی باور کرایا جاتا رہا کہ یہ دکانیں قانونی ہیں۔ ان کے ریکارڈ کے ایم سی کے اسٹیٹ آفس میں موجود ہیں اور تاجروں کو کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ وہ یہاں سرمایہ کاری کریں۔ آج لاکھوں میں سرمایہ لگائیں گے تو کل کروڑوں روپے کے اثاثوں کے مالک ہوں گے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوا۔ آج انہیں احساس ہو رہا ہے کہ انہوں نے سرکاری افسران کی باتوں پر یقین کر کے غلطی کی تھی۔ تاہم یہ حقیقت اس وقت عیاں ہوئی جب سب کچھ لٹ چکا ہے‘‘۔ نثار عباسی کے بقول اس کے چاروں بچے بڑے ہوچکے ہیں۔ ان کی شادیاں بھی کرنی ہیں اور آج تک ان کو جو اچھی تعلیم دلوائی ہے، اس کا سلسلہ آگے جاری رکھنا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اب مشکل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ یہاں تک کہ جس نئی جگہ پر میں نے ہنگامی بنیادوں پر کرائے پر دکان لے کر اپنی دکان کا سامان منتقل کیا ہے، اس کا کرایہ نکالنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ کجا یہ کہ وہ ماہانہ اخراجات کے لئے اپنے اہل خانہ کو رقم بھیج سکے۔ یہی وجہ ہے کہ روزانہ اپنی مسمار شدہ دکان کے ملبے پر اس لئے آکر بیٹھتا ہے کہ کچھ نہ کچھ چیزیں رکھ کر فروخت ہوجائیں۔ چونکہ پرانے گاہک جو اس کو اور اس کی دکان کو جانتے ہیں، وہ اب بھی اس ملبے پر بھی اس سے خریداری کرنے آتے ہیں۔ اس سے تھوڑا بہت گزارا چل رہا ہے۔ نثار عباسی کا کہنا ہے کہ ’’اگر ہم یہاں پر آکر نہ بیٹھیں تو یہاں پر پتھارے والے اور دیگر قبضہ مافیا بھتہ دے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم اپنی جگہ چھوڑنے کو تیار نہیں۔ آپریشن میں ہماری دکانیں تو مسمار کر دی گئیں، لیکن دکانیں توڑنے سے قبل بھی کے ایم سی کے افسران ایڈوانس واجبات وصول کرنا نہیں بھولے تھے۔ انہوں نے اگلے کئی مہینوں کا ایڈوانس کرایہ وصول کر کے ہماری دکانیں توڑی ہیں‘‘۔ جس وقت نثار عباسی ’’امت‘‘ سے گفتگو کر رہا تھا، اس وقت بھی ایمپریس مارکیٹ کے صحن کے فرش پر درجن سے زائد سبزی فروش اور دیگر سامان فروخت کرنے والے دریاں بچھا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے متعدد کا کہنا تھا کہ وہ کے ایم سی کے یہاں پر آنے والے اہلکاروں کو روزانہ کی بنیاد پر رقم دے کر بیٹھتے ہیں۔ یعنی ایک جانب تجاوزات کے نام پر قانونی اور الاٹ شدہ کانوں کو گرایا جا رہا ہے اور دوسری جانب اب بھی کے ایم سی کے افسران روزانہ بھتہ وصول کرکے تجاوزات خود لگوا رہے ہیں۔