امت رپورٹ
افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے باہر کئے جانے پر قطر ناراض ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان براہ راست مذاکرت کا تیسرا دور ابوظہبی میں چل رہا ہے۔ جس میں پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ قبل ازیں اس سلسلے میں دو اجلاس قطر کے دارالحکومت دوہا میں ہوئے تھے۔ جولائی میں ہونے والے پہلے اجلاس میں امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز، جبکہ اکتوبر کے اجلاس میں امریکی نمائندگی زلمے خلیل زاد نے کی تھی۔ تاہم اب مذاکرات کا تیسرا دور نہ صرف متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں ہو رہا ہے، بلکہ اس بات چیت سے قطر کو باہر کر دیا گیا ہے۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ مذاکرات سے قطر کی بے دخلی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی خواہش پر ہوئی۔ جبکہ دونوں ممالک کی اس خواہش میں افغان طالبان کی رضا مندی شامل ہے۔ ذرائع کے بقول قطر کے مقابلے میں افغان طالبان کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے زیادہ قریبی تعلقات ہیں۔ بالخصوص پچھلے چند برسوں میں طالبان کی مالی مدد کے سلسلے میں متحدہ عرب امارات اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ امریکی حملے کا نشانہ بننے والے افغان طالبان کے سابق امیر ملا اختر منصور کا دبئی آنا جانا لگا رہتا تھا۔ جبکہ ملا اختر منصور کے پاسپورٹ پر سب سے زیادہ ویزے ایران اور دبئی کے لگے ہوئے تھے۔ ذرائع کے مطابق قطر کو شکوہ ہے کہ کئی برس تک وہ طالبان کی دیکھ بھال کرتا رہا ہے اور اس نے ہی پہلی بار طالبان کا سیاسی دفتر اپنے ملک میں کھولا۔ اور اب جب افغان طالبان سے مذاکرات ممکنہ طور پر منطقی انجام کی طرف جا رہے ہیں تو اسے سائیڈ کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ قطر نے 2013ء میں افغان طالبان کا سیاسی دفتر اپنے دارالحکومت دوہا میں کھولا تھا۔ تاکہ طالبان اور امریکہ کے درمیان مفاہمتی عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔ بعد ازاں یہ سیاسی دفتر تو بند کر دیا گیا۔ تاہم طالبان رہنمائوں کا ایک پانچ رکنی وفد مستقبل طور پر وہاں مقیم تھا۔ معتبر ذرائع نے بتایا کہ قطر کی ناراضگی ختم کرنے کا بیڑہ بھی پاکستان نے اٹھایا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اسی سلسلے میں قطرگئے، جہاں انہوں نے قطر کے قومی دن کے موقع پر فوجی پریڈ میں بھی شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق امیر قطر شیخ تمیم بن حماد الثانی اور وزیر اعظم شیخ عبداللہ بن نصیر بن خلیفہ الثانی سے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی ملاقات کے موقع پر افغان طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات کا ایشو بھی ڈسکس ہوا۔ اسی موقع پر قطری حکمرانوں نے اپنے گلے شکوے بیان کئے۔ تاہم ان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرا دی گئی۔ جس پر قطری امیر اور وزیر اعظم نے پاکستان کی کوششوں کی تعریف کی۔
ابوظہبی میں امریکہ اور طالبان کے درمیان حالیہ مذاکرات کی تفصیلات سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ واشنگٹن اور کابل حکومت کی کوشش ہے کہ کسی طرح افغان صدارتی انتخابات سے قبل طالبان کے ساتھ کوئی امن معاہدہ طے پا جائے۔ افغان صدارتی انتخابات اگلے برس اپریل میں شیڈول ہیں۔ ذرائع کے مطابق امریکی خواہش ہے کہ اگر افغان طالبان چھ ماہ کے لئے جنگ بندی پر آمادہ ہو جائیں تو نہ صرف صدارتی انتخابات کا عمل آسانی سے ہو جائے گا۔ بلکہ افغان نیشنل آرمی بھی اپنے حواس بحال کر سکے گی۔ کیونکہ طالبان کے تابڑ توڑ حملوں نے افغان فوج کی کمر توڑ رکھی ہے۔ اس وقت طالبان کے ساتھ گرائونڈ پر افغان فوج لڑ رہی ہے اور امریکہ صرف فضائی طاقت استعمال کر رہا ہے۔ ذرائع کے بقول امریکہ کے خیال میں کامیاب حملوں کے نتیجے میں طالبان کے حوصلے بہت بلند ہیں۔ لہٰذا اس بار وہ موسم سرما میں بھی بڑی حد تک اپنی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور پھر اگلے برس موسم بہار کے حملوں میں تیزی لا کر صدارتی انتخابات بھی سبوتاژ کر سکتے ہیں۔ جس سے ان کی طاقت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ لہٰذا ٹرمپ انتظامیہ ہر حال میں اپریل سے پہلے مذاکرات میں بریک تھرو چاہتی ہے۔ لیکن چھ ماہ کی سیز فائر سے متعلق امریکی مطالبے کو افغان طالبان تاحال تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ذرائع کے مطابق دوسری جانب پاکستان نے امریکہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ افغانستان سے انخلا کی تاریخ، قیدیوں کی رہائی اور سفری پابندیاں ختم کرنے کے افغان مطالبات کو تسلیم کر لے تو طالبان کو سیز فائر پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ ادھر افغان صدر اشرف غنی نے بھی طالبان کو نئی حکومت میں پچاس فیصد سے زائد حصہ دینے اور ملک میں طالبان کے سیاسی دفتر کھولنے کی ترغیب دی ہے کہ کسی طرح طالبان سیز فائر پر آمادہ ہو جائیں۔ لیکن طالبان کا مسلسل اصرار ہے کہ پہلے امریکہ افغانستان سے جانے کی تاریخ دے، قیدیوں کو رہا کرے اور ان کی نقل و حرکت پر پابندی ختم کی جائے تو اس کے بعد ہی سیز فائر کے حوالے سے سوچا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے بقول طالبان ویسے بھی کابل حکومت کی کسی پیشکش کو قبول کرنے یا مذاکرات میں اس کی شمولیت کے سخت خلاف ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ کابل حکومت محض کٹھ پتلی ہے۔ جس کے سارے اختیارات امریکہ کے پاس ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے واشنگٹن کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا فیصلہ کیا۔ ذرائع کے مطابق اپنے ان خیالات کا اظہار طالبان نے حالیہ مذاکرات میں بھی کیا ہے۔ جبکہ طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم کئے بغیر جنگ بندی کی جاتی ہے تو گرائونڈ پر موجود برسر پیکار جنگجوئوں کو منانا بہت مشکل ہو جائے گا۔ کامیاب حملوں کے سبب جن کے حوصلے بلند ہیں اور وہ مستقبل قریب میں اپنی فتح دیکھ رہے ہیں۔ جبکہ ان میں سے بیشتر امن بات چیت کے حق میں نہیں۔ تاہم ذرائع کے بقول امریکہ اگر طالبان کے مطالبات تسلیم کر لیتا ہے تو پھر گرائونڈ پر موجود کمانڈروں کو بھی منانے میں آسانی ہو جائے گی۔
اسلام آباد میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ افغان طالبان پر پاکستان کا پہلے جیسا اثر و رسوخ نہیں۔ تاہم جو تھوڑے بہت موثر رابطے موجود تھے، انہیں استعمال کر کے پاکستان، طالبان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ کردار ایک طرح سے ثالث کا ہے۔ اس کے نتیجے میں پچھلے کچھ عرصے سے تنائو کا شکار پاک امریکی تعلقات بہتری کی طرف جا سکتے ہیں۔ جبکہ یہ امکان بھی ہے کہ جنوری میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کا جو خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہ ٹل جائے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان نے تیس سے زائد افغان رہنمائوں کو اپنے پاس مہمان رکھا ہوا تھا۔ تاہم سابق صدر کرزئی کے مطالبے پر 2016ء سے انہیں ایک ایک کر کے چھوڑنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اور اب سب سے آخر میں ملا برادر کو حوالے کیا گیا۔ حالانکہ ملا برادر کی حوالگی کا مطالبہ کرزئی دور سے کیا جا رہا تھا۔ تاہم صورت حال یہ تھی کہ جن افغان طالبان رہنمائوں کو پاکستان چھوڑتا تھا، وہ برہان الدین کی امن کونسل میں جانے کے بجائے افغانستان میں قابض فوجوں کے خلاف لڑائی میں مصروف ہو جاتے تھے۔ پاکستان نے کابل حکومت کو کئی مواقع پر باور بھی کرایا تھا کہ ایک طرف آپ رہا کئے جانے والے افغان رہنمائوں کو سنبھال نہیں سکتے اور دوسرا وہ ہمارے اثر و رسوخ سے بھی باہر ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے درمیان میں کچھ عرصے کے لئے افغان رہنمائوں کو چھوڑے جانے کا سلسلہ بند رہا۔ اور ملا برادر کی تاخیر سے رہائی کا ایک سبب یہ بھی تھا۔
Next Post