وفاقی شرعی عدالت – سود مقدمے کے التوا سے 50 ہزار کا قرضہ 10 گنا
اسلام آباد( اختر صدیقی)وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے سودکے حوالے سے دائر درخواست کافیصلہ نہ دینے کی وجہ سے درخواست گزار ظفر عالم پر بینک سے لیاگیا50ہزار روپے کا قرض اب سوددرسودکی وجہ سے ایک لاکھ 67ہزارروپے سے بڑھ کر 10 لاکھ روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے،کیس کی پیروی کرنے کے لیے تیسری نسل نے ذمہ دار ی سنبھال لی ہے ،نہ بینک نے سودمعاف کیا ہے اور نہ عدالت کی جانب سے اس بارے میں دوبارہ کوئی احکامات جاری کیے گئے ہیں ۔قرض پر سود کے معاملہ کو گزرے بھی 42سال جبکہ شرعی عدالت کو بھی اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے 30سال کا عرصہ ہونے کو ہے مگر فیصلہ نہیں ہو پا رہا ہے ،کبھی عالم جج نہ ہونے اور کبھی ججز کی کمی کی وجہ سے یہ معاملہ زیر التواء رہا۔ 11دسمبر2018کوفاقی شرعی عدالت نے سماعت کی تھی اور سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی تھی جس کوتا حال دوبارہ مقرر نہیں کیاجاسکاہے ۔’’ امت‘‘ کی جانب سے کیس کے حوالے سے جمع کی گئی تفصیلات کے مطابق 26جنوری 1976کومیسرزفاروق برادرز نے الائیڈ بنک سے اپنا ایک قیمتی پلاٹ رہن رکھ کرپچاس ہزار روپے کا قرضہ لیا گیا۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قرض کی ادائیگی کے طور پر33ہزارروپے جمع کرا دئیے گئے تھے اب صرف 17 ہزار روپے اور اس پر بنک کاسودجمع کرایا جانا تھا کہ بنک کی جانب سے فاروق عالم کونوٹس موصول ہوا اور انہیں بتایا گیا کہ ان پر قرض پر سوداب بڑھ کر ایک لاکھ 58ہزاروپے سے زائد پھر دوسرے نوٹس میں یہ سودبڑھ کر ایک لاکھ 74 ہزار سے بھی تجاوز کر گئی جبکہ تیسرے نوٹس میں یہ رقم بڑھ کر ایک لاکھ 83ہزارروپے تک پہنچی اور یوں 42سالوں میں یہ سوددرسودبڑھتابڑھتادس لاکھ روپے سے بھی تجاوز کر گیا ہے ۔فاروق عالم نے اس معاملے کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیاجس پر ان کے حق میں فیصلہ دیا گیا بعد ازاں اس معاملے کوسپریم کورٹ میں بنک انتظامیہ کے ساتھ ساتھ حکومت نے بھی چیلنج کیاسپریم کورٹ نے 2001اور بعدازاں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ نے ریویو میں اس کیس کو دوبارہ شرعی عدالت کو ریمانڈ کر دیا تھاجس پر شرعی عدالت نے ازسرنوسماعت کرتے ہوئے اس کے 351 سے زائد فریقین کونوٹس جاری کیے اور یوں یہ کیس ابھی تک زیر سماعت ہے اور کسی نہ کسی وجہ سے یہ کیس ملتوی ہو جاتا ہے ۔رواں سال میں بھی اس بارے چند ہی پیشیاں ہوسکیں اس دوران شرعی عدالت کے ججز کی تعداد پوری نہیں تھی اور کبھی عالم جج کی عدم موجودگی نے اس کیس کو زیر التواء رکھا آخری بار گیارہ دسمبر2018کوسماعت کی تھی اور سماعت کرنے والے لارجر بنچ نے اس کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی تھی اور اس دوران آبزورویشن دی تھی اور چیف جسٹس شیخ نجم الحسن نے کہا تھا کہ عدالت اس کیس کا فیصلہ کرنا چاہتی ہے لیکن ہماری کوشش ہے کہ جن وجوہات کی بنیاد پر کیس واپس بھیجا گیا ہے اس کو نہ دوہرایا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ کچھ ایشوز ایسے ہیں کہ جن پر بہت ہی غور و خوض کی ضرورت ہے اور ہم فریقین سے توقع کرتے ہیں کہ وہ انتہائی محنت کے ساتھ عدالت کی معاونت کریں گے۔ ہم نے سوالنامہ پر فریقین کا موقف معلوم کرنے کے لیے وقت دیا تھا لیکن اس معاملہ میں زیادہ پیش رفت نہیں ہوئی بہرحال ہم اگلی سماعت پر باقاعدہ ان سوالات کو سامنے رکھتے ہوئے فریقین کو سنیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے اس کیس میں کوئی حکم امتناعی جاری نہیں کیا ہے لہٰذا حکومت پر اس حوالہ سے قانون سازی پر کوئی پابندی نہیں ۔شرعی عدالت میں اس کیس میں جماعت اسلامی بھی ایک فریق ہے اور سوالنامہ پر موقف کے حوالہ سے درخواست گزار پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ ہمیں اس سوالنامہ پر مکمل اتفاق ہے اور ہم ان سوالات پر اپنے موقف کے ساتھ عدالت کی بھر پور معاونت کریں گے۔ درخواست گزار ڈاکٹر فرید پراچہ نے گزشتہ سماعت پر عدالت میں گفتگو کے دوران حوالہ دیے گئے کچھ ورکنگ پیپر بھی عدالت میں جمع کرائے تھے ۔آئندہ سماعت پر سلمان اکرم راجہ دائرہ اختیار سماعت پر اپنے دلائل دیں گے۔ درخواست گزار شیخ الحدیث مولانا عبد المالک نے عدالت سے استدعا کی کہ اس قبل جو وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ کیا تھا اس میں بہت ورکنگ کی گئی تھی لہٰذا عدالت کے پاس پہلے سے ورکنگ موجود ہے اس کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ کیس کی سماعت کے لیے ابھی کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی۔ نیاسال بھی شروع ہونے والا ہے امکان ہے کہ اب یہ سماعت جنوری 2019کے دوسرے ہفتے میں ہوگی۔ ذرائع نے بتایا کہ اس کیس میں سودکی ادائیگی کرنے والے خاندان کی اب تیسری نسل پیروی کر رہی ہے ،نہ تو ان کا رہن رکھا گیا پلاٹ واپس مل سکاہے اور نہ اس کیس کے تحت بینک نے سودمعاف کیا ہے،معاملات جوں کے توں ہیں۔ عدالتی فیصلے تک مزید سودمیں اضافہ بھی ہوتا رہے گا۔