پشاور(رپورٹ:محمد قاسم)طالبان اور امریکا کے درمیان بات چیت کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں ،حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کے بھائی انس حقانی اور مولوی محمد نبی عمری کے بیٹے حافظ عبد الرشیدسمیت 9اہم طالبان قیدیوں کو رہا کردیا گیا ہے،امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے طالبان کے ساتھ ابوظہبی میں ہونے والے مذاکرات کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات سے امن عمل کوآگے بڑھانے میں مدد ملے گی،دوسری طرف طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت پر افغان حکومت کو پریشانی لاحق لاحق ہو گئی ہے کابل حکومت کے مشیر قومی سلامتی نے کہا ہے کہ کسی دوسرے ملک کو افغانستان کےحوالے سے فیصلےکرنےکاکوئی اختیار نہیں، جو بھی معاہدہ ہوگا اس کی افغان پارلیمنٹ سے منظوری لی جائے گی،تفصیلات کے مطابق حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے انس حقانی اور حافظ عبدالرشید سمیت 9اہم طالبان قیدیوں کو رہا کردیا گیا ہے اور انھیں گیسٹ ہائوس میں منتقل کردیا گیا ہے جہاں سے انھیں آج اپنے گھروں کو روانہ کئے جانے کا امکان ہے تاہم طالبان نے ان کی رہائی کی تصدیق یا تردید سے انکار کردیا ہے افغان طالبان کے ایک اہم رہنماء ہارون کے مطابق مثبت اشارے ملے ہیں تاہم وہ رہائی کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتے کیونکہ جب تک حقانی نیٹ ورک کی جانب سے اس حوالے سے بیان سامنے نہیں آجاتا اس وقت تک کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی۔ حقانی نیٹ ورک کے ذرائع کے مطابق اگر افغان حکومت نے انس حقانی اور حافظ عبد الرشید کو رہا کردیا ہے تو امریکن یونیورسٹی کے اہلکاروں کی رہائی عمل میں لائی جائے گی ۔امریکا نے پاکستان سے امریکی پروفیسروں کی رہائی میں مدد کی درخواست کی تھی اور پاکستان کے بھر پور کردار سے امریکی پروفیسروں کی رہائی آئندہ چند دنوں میں متوقع ہے،ادھرافغان ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ افغان طالبان نے افغان صدر کے سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب کو اس وقت اپنے ہوٹل سے نکلوادیا جب وہ عرب امارات میں اس ہوٹل میں قیام کرنے پہنچے جہاں پر افغان طالبان،حقانی نیٹ ورک کے رہنماء قیام پذیر تھے۔افغان طالبان نے ہوٹل انتظامیہ کو حمد اللہ محب کو فوری طور پر ہوٹل سے نکالنے کی درخواست کی جس پر حمد اللہ محب کو ہوٹل سے نکال دیاگیا ۔حمد اللہ محب اس سے قبل امریکا میں افغان سفارتخانے میں رہے ہیں اور حنیف اتمر کے استعفیٰ کے بعد افغان صدر نے انہیں اپنی سلامتی کا مشیر مقرر کیا تھا۔دوسری جانب دبئی میں موجود امت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات کے دوران حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کے مشیر ڈاکٹر فقیر محمد اور دیگر نمائندوں اسد اللہ حماس اور حافظ یحییٰ اور امریکی حکام کے درمیان دلچسپ مکالمہ بھی ہوا ۔ایک موقع پر ڈاکٹر فقیر محمد نے امریکی حکام سے کہا کہ اب ہمیں تعارف کرانے کا کہا جارہا ہے ۔جب روس کے خلاف لڑ رہے تھے تو اس وقت تو امریکا حقانی نیٹ ورک کے ہر رہنماء سے واقف تھا لیکن اب پوچھا جاتا ہے کہ آپ کا تعلق ملٹری سے ہے یا سیاسی گروپ سے ۔ڈاکٹر فقیر محمد نے امریکی حکام کی جانب سے امریکن یونیورسٹی آف کابل کے دو پروفیسروں کی رہائی کے مطالبے کے جواب میں انس حقانی اور حافظ عبد الرشید کی رہائی کا مطالبہ کیا جس پر امریکی حکام نے انہیں رہا کرنے پر رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ افغان حکومت سے درخواست کریں گے کہ انس حقانی اور حافظ عبد الرشید کو رہا کیا جائے ۔حقانی نیٹ ور ک کے رہنماؤں نے امریکی حکام سے شکوہ بھی کیا کہ انس حقانی اور حافظ عبد الرشید کو امریکیوں نے قطر بلا کر دھوکے سے گرفتار کر کے افغان حکومت کے حوالے کیا اور پھر پروپیگنڈا کیا کہ انہیں خوست میں لڑائی کے دوران گرفتار کیاگیا ہے ۔انس حقانی کی تعلیم گرفتاری کی وجہ سے نامکمل رہیملاقات کے بعد امریکی حکام نے حقانی نیٹ ورک کے تینوں رہنماؤں سے آئندہ مذاکرات میں باضابطہ طور پر شرکت کی درخواست کی تاہم انہوں نے کہا کہ وہ طالبان کا حصہ ہیں اور شوریٰ کے فیصلے کے مطابق شرکت کریں گے ۔اگر انہیں اجازت دی گئی تو وہ شریک ہوں گے اور اگر اجازت نہیں دی تو وہ شرکت نہیں کریں گے،دوسری جانب افغان صدر کے صدارتی مشاورتی بورڈ کے سربراہ عبد السلام رحیمی اپنے بارہ ساتھیوں سمیت تین دن دبئی میں قیام کے باوجود طالبان سے ملنے میں ناکام رہے ۔پاکستان،سعودی عرب ،امارات اور امریکی حکام کی بھر پور کوشش کے باوجود افغان طالبان حکام نے افغان صدر کے مشاورتی بورڈ کے وفد سے ملاقات سے انکار کر دیا ۔ذرائع نے امت کو بتایا کہ افغان صدر کے مشاورتی بورڈ نے درخواست کی تھی کہ اگر افغان طالبان کا ایک رہنماء بھی ان سے ملے تو یہ بھی ان کیلئے کافی ہے تاہم یہ بات افغان طالبان نے مسترد کر دی،،ادھر امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے ایک انٹرویو کے دوران طالبان کے ساتھ دبئی میں ہونے والے مذاکرات کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات سے امن عمل کوآگے بڑھانے میں مدد ملے گی انھوں نے کہا کہ امریکا نے طالبان کو 3ماہ کےلئے جنگ بندی کی پیشکش کی ہے جس پر طالبان نمائندوں نے اپنی قیادت کے ساتھ مشاورت کے بعد جواب دینے کا کہا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں اور بات چیت سے ہی مسائل حل ہوں گے ،طالبان کی جانب سے افغان حکومت کے وفد کے ساتھ ملاقات سے انکار کو امریکی ایلچی نے غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ مذاکرات میں شریک ممالک نے طالبان کے اس روئیے کو منفی قرار دیا ہے،امریکی ایلچی نے طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے بعد بھی افغانستان میں امریکی موجودگی پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ امن معاہدے کے بعد امریکا کی افغانستان میں موجودگی کی نوعیت تبدیل ہوجائے گی،زلمے خلیل نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات میں افغانستان میں سیاسی نظام کی تبدیلی کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی،انھوں نے بتایا کہ انس حقانی سمیت دیگر طالبان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی۔دوسری طرف افغانستان کے مشیر قومی سلامتی حمداللہ محب نے کہا ہے کہ کسی دوسرے ملک کو افغانستان کےحوالے سے فیصلےکرنےکاکوئی اختیار نہیں ۔سوشل میڈیا پر جاری بیان میں انھوں نے کہا کہ افغان عوام کی قربانیوں کو کسی صورت ضائع نہیں ہونے دیاجائے گا اور جو بھی معاہدہ ہوگا اس کی افغان پارلیمنٹ سے منظوری لی جائے گی،انھوں نے کہا کہ وہ افغانستان میں قیام امن کےلئے کوششوں پر امریکا،عرب امارات اور سعودی عرب کے مشکور ہیں۔