عباس ثاقب
ظہیر کی بات سن کر میں چونکا۔ اتنے سامنے کی بات میں نے کیسے نظر انداز کر دی؟ ہمیں تو ان چالیس ہزار روپے کے ساتھ ساتھ اپنے طور پر بیعانہ دیئے ہوئے دس ہزار روپے بھی واپس وصول کرنے تھے۔ میں نے فراخ دلی سے اپنی کوتاہ خیالی کا اعتراف کیا۔ اس اثنا میں یاسر گرما گرم پوریوں اور کچوریوں پر مشتمل ناشتہ لے آیا۔
یاسر نے ناشتے پر ہاتھ چلاتے ہوئے کہا ’’شام تک کے لیے اپنی ٹینکیاں فُل کرلو۔ ہمیں منڈی گوبند گڑھ میں اتنے مزے کا کھانا نہیں مل سکے گا‘‘۔
میں نے کہا ’’یاسر بھائی، منڈی گوبند گڑھ کا پروگرام کینسل۔ اب ان دونوں بہنوں کو واپس لانے کے بعد سونے کی ٹکیوں کو ٹھکانے لگانے کا سوچیں گے۔ میں نہیں چاہتا کہ ہم اپنے مقصد کی تکمیل سے پہلے کسی ایسے بکھیڑے میں پڑیں، جو ان مظلوم لڑکیوں کی آزادی کا مشن تاخیر کا شکار بنا دے‘‘۔
میری بات سن کر یاسر بھٹ نے خوش ہوکر کہا ’’بھائی یقین کرو، یہی میری خواہش تھی۔ اتنی بڑی رقم کا معاملہ ہے۔ خدانخواستہ چور ڈاکوؤں کی کسی ٹولی کو سن گن مل گئی تو مال کے ساتھ ساتھ جان کے بھی لالے پڑ جائیں گے۔ آج کل آس پاس کے علاقوں میں کافی لوٹ مار ہونے لگی ہے۔ سنا ہے دو تین دن پہلے دو ڈاکوؤں نے اپنے گھر جاتے ایک گھڑ سوار کو لوٹ کر قتل کر دیا‘‘۔
اس کی بات سن کر میں چونکا، لیکن کوشش کرکے اپنی یہ کیفیت چھپانے میں کامیاب ہوگیا۔ میں نے بظاہر سادہ سے لہجے میں پوچھا ’’کون تھا وہ گھڑ سوار؟ اور یہ کیسے پتا کہ اسے لوٹنے اور قتل کرنے والے ڈاکوؤں کی تعداد کتنی تھی؟ کیا کسی نے انہیں دیکھا تھا؟‘‘
یاسر نے بھی کوئی خاص تاثر دیئے بغیر بتایا ’’کوئی چھوٹا سا زمیں دار تھا۔ راستہ ویران تھا، شاید گھنٹے دو گھنٹے بعد کسی نے لاش دریافت کی۔ پولیس نے تفتیش کی تو شہادت ملی کہ ایک جیپ اس راستے سے کچی پگ ڈنڈی کے ذریعے بڑی سڑک پر چڑھتی دیکھی گئی ہے۔ اس جیپ میں دو افراد سوار تھے۔ اگر وہ اسی راستے سے آئے تھے تو انہوں نے لاش ضرور دیکھ لی ہوتی اور وہ یقیناً پولیس کو اطلاع دیتے۔ ان کے اس طرح غائب ہونے سے پولیس کو یقین ہے کہ یہ واردات ان ہی دونوں نے کی ہوگی‘‘۔
میں نے سرسری لہجے میں کہا ’’اتنی سی گواہی پر تو ڈاکوؤں کا ہاتھ لگنا بہت مشکل ہے‘‘۔
یاسر نے سر ہلاکر میری تائید کرتے ہوئے بات آگے بڑھائی ’’لیکن پتا چلا ہے کہ چندی گڑھ سے دو ماہر کھوجی بلوائے گئے ہیں، جو اس جیپ کے ٹائروں کے نشانوں کا تعاقب کرتے ہوئے ان ڈاکوؤں کے ٹھکانے پر پہنچنے کی کوشش کریں گے‘‘۔
میں نے اس معاملے کو مزید کریدنے کی کوشش نہیں کی۔ البتہ یہ سب سن کر مجھے تشویش ضرور لاحق ہوگئی تھی۔ مجھے اپنی پروا نہیں تھی، لیکن اگر کھوجی واقعی اس جیپ تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے تو اس کے مالک امردیپ سنگھ کے لیے مشکلات کھڑی ہوسکتی تھیں۔ تبھی مجھے احساس ہوا کہ ٹوٹی ہوئی ونڈ شیلڈ والی جیپ پر گھومنا بھی مجھے مشکوک بناسکتا ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ جلد از جلد ونڈ شیلڈ میں نیا شیشہ لگوا لوں گا اور موقع ملتے ہی یہ جیپ امر دیپ کے حوالے کر کے اسے پوری صورتِ حال سے آگاہ اور خبردار کردوں گا۔
ناشتے کے بعد یاسر مطلوبہ رقم کے بندوبست کے ارادے سے رخصت ہوگیا۔ تنہائی ہونے پر میں نے کچھ غور و فکر کے بعد ظہیر کو الکھ سنگھ اور امردیپ والے معاملے میں راز دار بنانے کا فیصلہ کیا۔ میری بتائی ہوئی باتیں غور سے سننے کے بعد اس نے کہا ’’الکھ سنگھ تو خیر اس سے بھی برے انجام سے دو چار ہونے کا مستحق تھا۔ لیکن یہ جیپ والا معاملہ واقعی تشویش ناک ہے۔ آپ شاید نہیں جانتے کہ یہاں کے بعض کھوجی کتنی خطرناک بلا ہیں۔ ان کی مہارت اور مشاقی کے بہت سے قصے مشہور ہیں۔ اگر وہ پیچھے پڑگئے تو مشکل ہو جائے گی‘‘۔
میں نے معاملے کی سنگینی کا تخمینہ لگاتے ہوئے کوئی مناسب حل تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کر دی۔ ایک امید یہ بندھتی تھی کہ گزشتہ دو دنوں میں یہ جیپ سینکڑوں میل کا فاصلہ طے کر چکی تھی۔ کھوجی خواہ کتنے بھی ماہر رہے ہوں، کہاں تک اس کے ٹائروں کا تعاقب کریں گے۔ خصوصاً ایسی صورت میں کہ میں نے زیادہ تر پختہ سڑکوں پر سفر کیا تھا۔
اس دوران میں ظہیر بھی مسئلہ سے نمٹنے کے لیے دماغ لڑا رہا تھا۔ اچانک اس نے کہا ’’اس مسئلے کا ایک حل تو سمجھ آیا ہے!‘‘۔
میں نے جلدی سے پوچھا۔ ’’وہ کیا؟‘‘
ظہیر نے کہا ’’میرا خیال ہے ناصر بھٹ کے پاس موجود جیپ کے ٹائر اگر اس جیپ میں لگا دیئے جائیں تو کھوجیوں کے سارے کیے کرائے پر پانی پھر سکتا ہے۔ ناصر اپنی جیپ میں نئے ٹائر لگوالے گا اور اس جیپ کے ٹائروں کو ہم گودام میں کہیں پھینک دیں گے‘‘۔
ظہیر کی بات میرے دل کو لگی، پھر مجھے ایک خیال آیا ’’لیکن اس طرح تو ان چچا بھتیجے یعنی ناصر اور یاسر کو بھی معاملے میں رازدار بنانا پڑے گا؟‘‘
ظہیر نے بے پروائی سے کہا ’’میں اس میں کوئی ہرج نہیں سمجھتا۔ ان دونوں کو میں اچھی طرح آزما چکا ہوں۔ یہ ہرگز ہمارے بدخواہ نہیں ہیں‘‘۔
مجھے کچھ ہچکچاہٹ محسوس ہوئی۔ لیکن فی الحال یہی سب سے بہتر راستہ لگ رہا تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭