نمائندہ امت
معروف علما اور مفتیان کرام نے مخلوط اجتماعات میں شریک ہونے اور کھانا کھانے کو غیر شرعی اور ناجائز عمل قرار دیا ہے۔ علمائے کرام کے مطابق پردہ اور حیا ایسے اسلامی احکامات ہیں جن کے بارے میں قرآن کریم اور احادیث نبویؐ میں واضح احکامات موجود ہیں۔ جبکہ مخلوط اجتماعات میں اسلامی احکامات کی صریحاً خلاف ورزی ہوتی ہے اس لیے بالخصوص خواص کیلئے یہی حکم ہے کہ وہ ایسے اجتماعات میں شریک ہونے سے گریز کریں اور لوگ بھی شادی بیاہ کی تقریبات میں مرد و خواتین کیلئے الگ الگ انتظام کریں تو افضل ہے۔ علمائے کرام کے مطابق مخلوط اجتماعات میں استعمال ہونے والا کھانا تو حرام نہیں ہوگا، البتہ کھانا کھانے کا عمل ناجائز اور غیر شرعی ہوگا۔ واضح رہے کہ دارالعلوم دیوبند (بھارت) نے مخلوط محافل میں کھانے کو حرام قرار دیا ہے۔
جامعہ اشرفیہ لاہور کے مولانا مفتی خرم یوسف نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’جہاں تک ممکن ہو شادی بیاہ کی اور دیگر ایسی تقریبات میں شرکت سے گریز کرنا چاہئے جو مخلوط ہوں۔ خاص طور پر معاشرے کے خاص لوگ اور دینی طبقے سے تعلق رکھنے والی شخصیات جن کو دیکھ کر لوگ اپنی رائے قائم کرتے ہیں، ان کو ایسی تقریبات میں نہیں جانا چاہئے۔ جہاں تک ممکن ہو عوام الناس کو بھی نہیں جانا چاہئے۔ اگر رشتوں کی یا کوئی سماجی مجبوری ہو تو شامل ہو سکتے ہیں لیکن وہاں الگ بیٹھ کر یا مناسب حد تک اپنی زبانی تشویش سے میزبان کو آگاہ کر کے شریک ہو سکتے ہیں۔ جن افراد کا میزبانوں سے اتنا تعلق ہو کہ وہ ان کی شادی یا پروگرام مرد و خواتین کے لیے الگ الگ کرانے کیلئے اثرانداز ہو سکتے ہوں، انہیں اپنا یہ حق اور استحقاق ضرور استعمال کرنا چاہئے۔ ان کے اس نیک عمل کا انہیں اللہ تعالیٰ بہت اجر دیں گے۔‘‘ مفتی خرم یوسف نے مزید کہا کہ ’’ایسی تقریبات میں کھانا، کھانا حرام تو نہ ہوگا، البتہ ایسی مجالس میں شریک ہونا غیر شرعی اور کھانے کا عمل ناجائز ہو گا۔ جیسا کہ پانی پینا ناجائز اور حرام نہیں ہے لیکن کسی سے پانی چھین کر پینا ناجائز اور حرام ہے۔‘‘
ممتاز دینی اسکالر ڈاکٹر انیس احمد کے مطابق اسلام کا بنیادی مزاج ہی خواتین اور مرد حضرات کے مخلوط اجتماعات کے خلاف ہے۔ اس لیے مخلوط اجتماعات میں اکٹھے بیٹھنا، کھڑے ہونا اور کھانا وغیرہ کھانا بھی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’دارالعلوم دیوبند (انڈیا) نے اس طرح کے اجتماعات میں کھانا حرام قرار دیا ہے تو اس کا پس منظر جاننے کی ضرورت ہے۔ وہ ہم سے بہت مختلف معاشرہ ہے۔ کس سوال کے جواب میں یہ فتویٰ دیا گیا اور فتویٰ کیا ہے؟ اسے دیکھے بغیر اس فتوے پر حتمی رائے دینا مناسب نہیں۔‘‘
شباب اسلامی پاکستان کے امیر مفتی محمد حنیف قریشی نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’جو افراد اس طرح کے اجتماعات کی دعوت دیتے ہیں، وہ ایک بالکل غیر شرعی فعل کے مرتکب ہوتے ہیں۔ شادی وغیرہ کے اجتماعات میں خواتین بنائو سنگھار کر کے شریک ہوتی ہیں۔ اچھے بھلے دینی گھرانوں میں بھی ایسے مواقع گھر کے بڑے بھی مخلوط اجتماعات کی اجازت دے دیتے ہیں۔ اس کا سارا گناہ اور بڑا مجرم اس گھر کا سربراہ یا اس دعوت کا داعی ہے۔ اس طرح کے مواقع پر بدنگاہی اور بدنظری بھی ہوتی ہے۔ بعض ناعاقبت اندیش حج اور عمرے کے اجتماعات کی مثال دے کر اپنی جہالت اور کم علمی کا ثبوت دیتے ہیں۔‘‘ مفتی حنیف قریشی نے کہا کہ ’’ایسی مجالس میں کھانا تو حرام نہ ہو گا بلکہ نظر کے غلط استعمال اور دیگر جو غیر شرعی کام ہوں گے وہ حرام ہوں گے۔‘‘
وفاق المدارس العربیہ کے ترجمان مولانا عبدالقدوس محمدی نے ایسی مجالس اور تقریبات میں شرکت کو ناجائز عمل قرار دیتے ہوئے اسے اسلامی تعلیمات کے یکسر منافی قرار دیا۔
بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب مولانا عبدالخبیر آزاد بھی اس طرح کی مخلوط تقریبات کو غیر شرعی سمجھتے ہیں۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’شریعت نے پردے کا حکم دیا ہے جس کی اس طرح کے اجتماعات اور تقریبات میں نہ صرف واضح خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ شادی بیاہ کے موقع پر بنائو سنگھار کی کیفیت اکثر اوقات ایسی ہوتی ہے کہ اسلامی احکامات کو یکسر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ کھڑے ہو کر کھانا، کھانا فیشن بن چکا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان تمام امور کو انجام دیا جائے۔‘‘ مولانا عبدالخبیر آزاد نے کہا کہ ’’اس طرح کی مخلوط مجالس اور تقاریب میں کھانے کو تو حرام نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ یہ اسلامی احکامات کی خلاف ورزی ہیں۔ داعی حضرات پر اس کا زیادہ وبال ہو گا اس لیے اس طرح کی تقریبات سے گریز کرنا چاہئے۔‘‘
چند دن قبل دارالعلوم دیوبند نے ایسی مخلوط تقریبات میں شریک ہونے اور کھانے کو بھی حرام قرار دیا تھا، جن کے بعد دارالعلوم دیوبند سے وابستہ ایک عالم دین مفتی اطہر قاسمی نے نہ صرف کھانا کھانے بلکہ کھانے کو بھی حرام قرار دیا۔
٭٭٭٭٭