محمد قاسم
امریکہ بالآخر افغانستان میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا۔ شام کے بعد افغانستان سے بھی اپنی افواج کے انخلا کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ افغان حکومتی ذرائع کے مطابق سات ہزار امریکی افواج آئندہ سال جون سے انخلا شروع کریں گی۔ امریکہ کی جانب سے اپنی افواج نکالنے کے فیصلے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے سیکورٹی اداروں نے اپنی اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانا شروع کر دیا ہے۔ جبکہ حقانی نیٹ ورک نے کابل پر فوری چڑھائی نہ کرنے کی امریکی درخواست قبول کرلی ہے۔ جبکہ افغان طالبان کی شوریٰ کے رکن ہارون بلخی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ابھی تک انہیں امریکا کی جانب سے انخلا کے بارے میں باضابطہ طور پر اطلاع نہیں دی گئی ہے اور نہ ہی طالبان کی مذاکراتی ٹیم نے اس بارے میں کچھ بتایا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ امارات میں موجود طالبان کی مذاکراتی ٹیم کی جانب سے ہلمند شوریٰ کو جو دستاویزات موصول ہوئی ہیں اس میں امریکہ کی جانب سے کی جانے والی بعض پیشکشیں شامل ہیں، لیکن فی الحال انہیں افشاں نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان نے انخلا کیلئے امریکہ سے ٹائم ٹیبل دینے مطالبہ کیا تھا اور سولہ صفحات پر مشتمل ٹائم لائن دی تھی۔ تاہم امریکہ نے فوری طور پر جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے پر زور دیا تھا۔ جس پر افغان طالبان نے قیدیوں کے تبادلے کی بات تسلیم کرلی تھی اور جنگ بندی کا مطالبہ مسترد کر دیا تھا اور طالبان اب بھی اس پر قائم ہیں۔ لیکن اگر امریکی افواج افغانستان چھوڑ دیں تو پھر طالبان کے پاس جنگ کا جواز ختم ہو جائے گا۔ اس سوال پر کہ طالبان اگر کابل اور دیگر صوبوں پر چڑھائی کریں گے تو خانہ جنگی شروع ہو جائے گی اور ایک بار پھر ایران اور افغانستان کی سرحدوں پر مہاجرین پہنچنا شروع ہو جائیں گے؟۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے طالبان شوریٰ جو فیصلہ کرے گی اس پر عملدرآمد ہوگا۔ فی الحال دارالحکومت سمیت صوبوں پر قبضے اور چڑھائی کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ جب باضابطہ طور پر امریکہ انخلا کا اعلان کرے گا تو اس حوالے سے طالبان بھی بیان جاری کریں گے۔ ابھی تو خبر رساں اداروں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکہ جون سے سات ہزار فوجی نکالنا چاہتا ہے اور بقیہ سات ہزار فوجی 2020ء تک نکالے گا۔
حقانی نیٹ ورک کے رہنما اسد اللہ حماس کے مطابق حقانی نیٹ ورک نے امریکہ کی اس درخواست کو قبول کرلیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک دارالحکومت کابل پر چڑھائی نہیں کرے گا۔ اسد اللہ کے بقول قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے مثبت پیش رفت ہوئی ہے تاہم ابھی تک انس حقانی اور حافظ عبد الرشید اپنے اہل خانہ کے پاس نہیں پہنچے ہیں۔ تاہم طالبان نے جو وعدے متحدہ عرب امارات میں کئے ہیں ان پر قائم رہیں گے۔ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ افغانستان میں دوبارہ خانہ جنگی ہو، لاکھوں افغان پھر مہاجر بن جائیں اور ہزاروں لقمہ اجل بن جائیں۔ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے، لیکن طالبان شوریٰ کا جو فیصلہ ہو گا اس پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ عبوری حکومت کے حوالے سے اسد اللہ حماس کا کہنا تھا کہ اس بارے میں امریکہ کی بات نہیں مانی گئی ہے، کیونکہ عبوری حکومت اور فوری جنگ بندی امریکہ کے فائدے میں ہے، ہمارے فائدے میں نہیں ہے۔ ہم جتنا دبائو ڈالیں گے اتنی ہی ہماری بات مانی جائے گی۔ افغانستان کی موجودہ حکومت کو ہم نہیں مانتے۔ امریکہ نے ان حکمرانوں کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کیا۔ اب افغان حکومت کو بھی اپنی وقعت کا اندازہ ہو گیا ہے کہ اس کی کیا حیثیت ہے۔
دوسری جانب امریکی حکام کی جانب سے افغانستان سے سات ہزار فوج نکالنے کے اعلان پر افغان صدر کے ترجمان طارق ارین کا کہنا ہے کہ افغان فوج دارالحکومت اور اپنی قوم کا دفاع کر سکتی ہے۔ ہم مزید جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے، تاہم اگر جنگ مسلط کی گئی تو ہم اپنا دفاع کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ہمیں اپنی فوج نکالنے کے فیصلے سے آگاہ کیا ہے اور اس پر ہمیں کوئی تشویش نہیں ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے اعلان کے ساتھ ہی افغانستان اور ایران کے بارڈرز پر نقل و حرکت میں اضافہ ہورہا ہے۔ جبکہ پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے پاکستانی سرحدوں پر حفاظتی انتظامات سخت کرنا شروع کردیئے ہیں تاکہ افغان مہاجرین کی ممکنہ آمد کو روکا جائے گا۔
٭٭٭٭٭