بھارت کی ناراضی کے خدشے پر ’’کشمیر کنگز‘‘ شامل نہیں کی گئی

0

نجم الحسن عارف
پاکستان کے دوسرے علاقوں کی طرح آزاد کشمیر کے بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کے ریجنوں میں شامل ہونے کے باوجود پی سی بی حکام نے کشمیر کنگز کا نام فرنچائز کیلئے قبول کرنے سے انکار کر دیا جبکہ انتہائی عجلت میں جہانگیر ترین اور ان کے صاحبزادے علی جہانگیر ترین کی سیاسی ضروریات کے پیش نطر ملتان سلطان کی فرنچائز ممکن بنالی۔ علی جہانگیر ترین کے قریبی ذرائع سے ’’امت‘‘ کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کنسورشیم میں کچھ اور افراد کے نام بھی شامل ہیں، لیکن ان کے ’’شیئرز‘‘ برائے نام ہیں۔ ’’امت‘‘ کو انہی ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے اعلیٰ حکام نے 18 دسمبر کی دوپہر تک ’’بڈ‘‘ کے لیے کاغذات وصول کرنے کی ڈیڈلائن کے بعد محض ایک دن بعد بی ایس ایل 4 میں کھیلنے والی چھٹی ٹیم کے حقوق علی جہانگیر ترین اور عالمگیر ترین کے کنسورشیم کے نام کر دیئے۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق پی سی بی نے انڈیا کے حوالے سے حکومت کی نرمی پر مبنی پالیسی کے پیش نظر پی ایس ایل 4 کے لیے کشمیر کنگز کے نام سے ٹیم لینے کی کشمیر کنگز کے چیئرمین نثار احمد کی 7 دسمبر کو دی گئی درخواست کا جواب دس دن بعد سترہ دسمبر کی شام کو بذریعہ ای میل دیا۔ جبکہ اگلا دن ’’بڈ‘‘ کے لیے کاغذات جمع کرانے کا آخری دن تھا۔ ذرائع کے مطابق کشمیر کنگز کے ذریعے اہل کشمیر کا عالمی سطح پر مثبت ذکر ہونے کے امکان کو یقینی بنانے کے لیے وزیراعظم آزاد کشمیر نے کشمیر کنگز کے چیئرمین کے حق میں پی سی بی کو ایک خط لکھا، اسی خط کی کاپی چیئرمین کشمیر کنگز نثار احمد خود لے کر احسان مانی کے پاس آئے جنہوں نے طویل انتظار کے بعد انہیں ملاقات کے لیے وقت دیا اور کہا کہ ہم لفظ ’’کشمیر‘‘ کو ٹیم کے نام کا حصہ نہیں بنا سکتے۔ اس طرح ہمارے لیے بھارت اور دوسری دنیا میں مسائل پیدا ہوں گے۔ اس لیے آپ چاہیں تو کشمیر کے لفظ کے بجائے کسی شہر کے نام پر فرنچائز کے لیے درخواست دے دیں۔ لیکن انہیں بتایا گیا کہ کشمیر کنگز کو پی ایس ایل کھلانے کا مقصد ہی مقبوضہ کشمیر کے جبر و ظلم سے تنگ آئے نوجوانوں اور اہل کشمیر کو کچھ دنوں کے لیے پریشان کن خبروں سے نکالنا اور مثبت خبروں کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ تاکہ انہیں پاکستان اور دوسری دنیا سے بھی اپنے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والوں کے بارے میں اچھے جذبات کا اندازہ ہو سکے۔
واضح رہے کشمیر کے نام پر ٹیم دینے کا کوئی قانونی جواز اس بنیاد پر موجود نہ تھا کہ آزاد کشمیر کو پی سی بی نے آزاد کشمیر کو نہ صرف یہ کہ اپنے ریجنوں میں پہلے سے شامل کر رکھا ہے، بلکہ میرپور آزاد کشمیر میں قائم کرکٹ گرائونڈ پی سی بی سے منسلک ہے۔ میرپور میں ہاشوانی گروپ نے پرل کانٹی نیٹل کی ایک شاخ کو بھی پی سی بی کی فرمائش اور کرکٹ میچوں کی ضرورت کے طور پر ہی تعمیر کرایا ہے۔ پی سی کی میرپور میں یہ شاخ اگلے چھ ماہ میں تکمیل کو پہنچنے والی ہے۔ لیکن پچھلی حکومتوں کے دور میں پی سی بی ایسے کسی دبائو یا خوف میں آیا کہ اب پی ٹی آئی کی حکومت سابق کپتان کے زیرقیادت ہے اور پی سی بی کا سربراہ بھی ان کے انتہائی بھروسے کی شخصیت احسان مانی کو مقرر کیا گیا ہے، تب بھی پی سی بی نے محض خوف اور حکومت کی کمزور پالیسی کے پیش نظر پی ایس ایل 4 کی چھٹی ٹیم کی ازسرنو فرنچائز دینے کے لیے جن بارہ علاقوں کے نام شامل کئے، ان میں کشمیر کا نام شامل ہی نہ کیا۔ جب پی سی بی کے حکام کی توجہ اس جانب دلائی گئی تو ان کا کہنا تھا کشمیر کا نام نہیں دے سکتے۔ البتہ آزاد کشمیر کے کسی شہر کا نام دیا جا سکتا ہے۔ خیال رہے کہ انہی بارہ ناموں میں پی سی بی نے ’’فاٹا‘‘ کا نام بھی دے رکھا تھا اور فاٹا کے کسی شہر یا قصبے کا نام نہیں لکھا۔ اگرچہ فاٹا اب آئینی اعتبار سے الگ شناخت کا علاقہ نہیں رہا بلکہ صوبہ خیبرپختون کا حصہ بن چکا ہے۔
’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا ہے کہ پی ایس ایل کی چھٹی ٹیم جس کا پہلے ملتان سلطان نام تھا اور اب تبدیل ہو سکتا ہے کہ نئے فرنچائزی نے کشمیر کنگز کے لیے کوشش کرنے والے نثار احمد سے کہا کہ ہمارے کشمیر کے ساتھ دل دھڑکتے ہیں لیکن جنوبی پنجاب ہمارے لیے بوجوہ بہت اہم ہے کہ یہاں کے لوگ بھی احساس محرومی کا شکار ہیں۔ اس لیے آپ اصرار نہ کریں ہم اس کے علاوہ آپ کا پوری طرح ساتھ دیں گے۔ علی ترین کے قریبی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو یہ بھی بتایا ہے کہ کرکٹ کے ساتھ کسی پرانی وابستگی یا پرانے شوق کا معاملہ ہرگز نہیں تھا، بلکہ علی جہانگیر ترین نے یہ خواب چند ہفتے پہلے ہی دیکھا اور جلد ہی اس کی تعبیر مل گئی۔ اس سے جنوبی پنجاب کے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور جنوبی پنجاب میں کرکٹ کا فروغ ہوگا۔ خیال رہے کہ علی ترین خود ریکارڈ پر ہیں کہ ان کی نومبر کے دوران پی سی بی حکام سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ جبکہ عملاً نومبر کے مہینے میں ہی ملتان سلطان نامی ٹیم کے مالکان نے ٹیم کے حوالے سے آٹھ سال تک کے حقوق ہونے کے باوجود اس معاہدے سے ’’بیک آؤٹ‘‘ کیا اور کہا کہ اتنی بڑی رقم ادا کرنا ممکن نہیں رہا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ملتان سلطان کو معاہدے سے ’’بیک آؤٹ‘‘ کرنے پر کسی جرمانے کا سامنا کرنا پڑا اور نہ پی سی بی حکام نے اس پر ناراضگی ظاہر کی۔ بلکہ یہ اہتمام کیا کہ اس معاہدے کے خاتمے کا پریس ریلیز بھی پی سی بی اور ملتان سلطان کے ذمہ داروں کی طرف سے مشترکہ طور پر جاری کیا جائے۔ جس سے اس شبہ کو تقویت ملتی ہے کہ ملتان سلطان نامی ٹیم کے مالکان کو ایک غیر رسمی انڈر اسٹینڈنگ کے ساتھ خود علی جہانگیر ترین کو ٹیم کی فرنچائز دینے کے لیے کہا گیا۔ یہ بھی اہم بات یہ ہے کہ علی جہانگیر ترین نے ’’بڈ‘‘ سے پہلے ہی امکانی بولی کے قریب تر کی رقم کا اظہار شروع کردیا تھا۔ جس کے بعد کئی دوسری پارٹیوں کی حوصلہ شکنی کا ماحول پیدا ہوگیا اور علی جہانگیر ترین کے نام ٹیم ہونا یقینی ہوگیا۔ یہ بھی اہم معاملہ رہا کہ پی سی بی کی جس تکنیکی ٹیم نے اب نئی دلچسپی رکھنے والی پارٹیوں کی ’’رویلوایشن‘‘ کی، اس کی پچھلی ’’رویلیوایشن‘‘ یوں ناکام ہوچکی تھی کہ ملتان سلطان کے مالکان صرف ایک سال بعد اس سے ’’بیک آؤٹ‘‘ کر گئے۔ ایک ذریعے کا دعویٰ ہے کہ پی سی بی نے جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کے اہم رہنما کے سیاسی اثر و رسوخ کو نوجوانوں میں بڑھانے کے لیے سہولت کاری کی ہے۔
’’امت‘‘ کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس دوڑ میں ایک مرحلے شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی بھی شامل ہونے لگے تھے۔ لیکن بعدازاں وہ پسپا ہوگئے اور پی ٹی آئی کی سیاست میں شاہ محمود قریشی کے مقابلے میں جس طرح جہانگیر ترین زیادہ مؤثر ہیں اس معاملے میں زین قریشی پر علی ترین حاوی نظر آئے۔ ذرائع نے اس بارے میں لاعلمی ظاہر کی ہے کہ 18 دسمبر کو جمع ہونے والے ’’بڈ‘‘ کاغذات کی بنیاد پر صرف ایک دن بعد اچانک ’’بڈ‘‘ میں علی ترین کامیاب قرار کیسے دیا گیا یا اس غیر معمولی عجلت میں قواعد کی خلاف ورزیوں کا استعمال نہیں ہوا۔ دوسری جانب ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ پی ایس ایل 4 کے میچ 14 فروری سے شروع ہورہے ہیں۔ جبکہ اس ’’بڈ‘‘ کے فائنل ہونے سے پہلے ہی پی سی بی نے چھٹی ٹیم کا پہلا میچ پندرہ فروری کو شیڈول میں طے کر رکھا ہے۔ جبکہ باقی شیڈول کو بھی چھٹی ٹیم عدم دستیابی کی بنیاد پر نہیں ترتیب دیا گیا گویا پہلے دن سے پی سی بی حکام سمجھتے تھے کہ فرنچائز لینے کے لیے ایک پارٹی ان کے ہاتھ میں ہے۔ یا ایک ہی پارٹی ہے جسے اس کے حقوق دینا ہے۔
واضح رہے کہ پی سی بی کی ’’بڈ‘‘ سے متعلق تکینیکی کمیٹی نے صرف دو کمپنیوں کو اس حتمی مرحلے کے لیے کلیئر قرار دیا۔ جن میں سے ایک کی بولی 4.6 ملین ڈالر آئی اور کامیاب قرار پائی۔ علی جہانگیر ترین اور ان کے چچا عالمگیر ترین کا مشترکہ کنسورشیم ایک ہی جست میں 6.35 ملین ڈالر سالانہ کی بولی دے کر کامیاب ہوگیا۔ جبکہ پی سی بی نے کم از کم لمٹ 5.21 ملین ڈالر سالانہ کی مقرر کر رکھی تھی۔ ساؤتھ افریقین کنسورشیم نے اپنی بولی اس سے بھی کم دے کر علی ترین کے لیے راہ ہموار کردی۔ کشمیر کنگز کو پی سی بی حکام پہلے ہی بھارت اور بھارت کے ہمنواؤں کے خوف کی بنیاد پر اس گیم سے آؤٹ کرچکے تھے۔ اب البتہ کشمیر کنگز کے سربراہ کو کشمیر کنگز کو آزاد کشمیر میں اپنے طور پر سپر لیگ کرانے میں تعاون دینے کا ’’لالی پاپ‘‘ دے کر واپس بھیج دیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More