سدھارتھ شری واستو
بھارت میں آرٹ فلموں کے سب سے بڑے اداکار نصیرالدین شاہ کو ہندو انتہا پسندی کے خلاف بولنا مہنگا پڑگیا۔ فلمی صنعت میں ’’شاہ جی‘‘ کے نام سے مشہور سینئر ایکٹر نے دو روز قبل ٹویٹر پر مودی سرکار کو ہندو انتہا پسندی کا سرپرست قرار دیا اور گئو رکھشا قانون پر کڑی تنقید بھی کی تھی۔ ان کی حق گوئی پر مبنی ٹویٹس کے بعد شیو سینا، آر ایس ایس، وی ایچ پی کے رہنمائوں اور کارندوں سمیت بھارت بھر کے متعصب ہندو بھڑک اُٹھے۔ نصیرالدین شاہ کو اہلخانہ سمیت ٹکڑے کر دینے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ادھر عالمی شہرت یافتہ مسلمان اداکار نے گزشتہ روز اجمیر جانے کا اپنا پروگرام منسوخ کر دیا، کیونکہ پولیس رپورٹ کے مطابق انتہا پسند ہندو، نصیرالدین شاہ کو گھیرے میں لے کر تشدد سے ہلاک کرسکتے ہیں۔ ڈیلی امر اجالا کے مطابق انتہا پسند ہندو نوجوانوں نے نصیر الدین شاہ کے ریمارکس پر ان کے خلاف کئی مقامات پر مظاہرے کئے اور ان کے پوسٹر اور پتلے نذر آتش کئے۔ دکن ہیرالڈ نے بتایا ہے کہ نصیر الدین شاہ نے اجمیرمیں منعقد ہونے والے لٹریری فیسٹیول میں شرکت کا ارادہ ترک کردیا ہے کیونکہ پولیس رپورٹ کے مطابق ان کو ہجومی تشدد کے ذریعہ قتل کیا جاسکتا ہے۔ نصیر الدین شاہ کے بیانات پر ہندوئوں نے ان کو سماجی رابطوں کی سائٹس سمیت دیگر ذرائع سے دھمکیاں دینا شروع کردی ہیں اور ان کو ’’پاکستان کا یار‘‘، ’’ہندوستان کا غدار‘‘ کے القاب سے نوازنا شروع کردیا ہے جس کی شکایات کے باوجود بھارتی کمیونی کیشن وزارت اور سائبر کرائم پولیس نے کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی ہے۔ جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی متعدد ذیلی تنظیموں نے مسلمان اداکار کے گھر پر حملوں اور دھرنوں کا اعلان کیا ہے جس سے شاہ فیملی کیلئے سیکورٹی کے سنگین خطرات پیدا ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال میں نصیر الدین شاہ اور ان کے بیوی بچوں کو نامعلوم مقام پر منتقل ہونا پڑا ہے۔ اپنے خلاف طوفان بدتمیزی، گالیوں کی بوچھاڑ اور دھمکیوں پر نصیر الدین شاہ کا کہنا ہے کہ ہندوستان ہمارا ملک ہے، ہمیں اس ملک سے کوئی مائی کا لعل نہیں نکال سکتا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے نصیر الدین شاہ کا کہنا تھا کہ ’’میں نے جو کچھ کہا حق کہا، یہ کوئی متنازع بیان نہیں بلکہ ایک فکر مند ہندوستانی کا موقف تھا۔ مجھے غدار قرار دیا جارہا ہے، یہ بہت عجیب سی بات ہے کہ جو سچ کہے یا سوال اُٹھائے اس کو پاکستانی ایجنٹ یا غدار قرار دیدیا جائے‘‘۔ ادھر اجمیر میں لٹریری فیسٹیول کے آرگنائزرز نے رابطہ کرنے پر تصدیق کردی ہے کہ نصیر الدین شاہ کی آمد کا پروگرام منسوخ کردیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں آرگنائزر آس بہاری گوڑ نے بتایا ہے کہ پروگرام کے دعوتی کارڈز کے مطابق اجمیر لٹریری فیسٹیول کے پانچویں سیشن میں نصیر الدین شاہ کو خطاب کرنا تھا اور اپنی تازہ کتاب کی رونمائی بھی کرنی تھی۔ لیکن انہیں ملنے والی دھمکیوں کے نتیجے میں وہ تشریف نہیں لاسکیں گے۔ اجمیر لٹریری فیسٹیول کی کوریج کیلئے راجستھان میں موجود بھارتی صحافی انیل کھرانہ نے بتایا ہے کہ نصیر الدین شاہ نے سوال اٹھایا تھا کہ بھارت میں عدم برداشت اور ہجومی تشدد کا بھوت بوتل سے کچھ اس طرح نکال کر پروان چڑھایا گیا ہے کہ اب مجھے اور میرے بچوں کیلئے ممکن نہیں کہ وہ اپنا تحفظ کرسکیں۔ نصیر الدین شاہ نے مزید کہا تھا کہ میں ایک آزاد ہندوستانی ہوں اور میرا حق ہے کہ میں اس بارے میں سوال کرسکوں۔ ان کا استدلال تھا کہ اتر پردیش (بلند شہر) میں حال ہی میں ہجومی حملے میں ایک پولیس افسر (سبودھ کمارسنگھ) کو گائے کے پیچھے ہلا ک کیا گیا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ایک پولیس افسر کی جان کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور ایک گائے کی اہمیت ہے۔ اس تعصب کے بھوت کو واپس بوتل میں بند کرنا اب نا ممکن دکھائی دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں دیگر لوگوں کی طرح اپنے بچوں کے تحفظ کیلئے بھی فکرمند ہوں۔ مجھے بتائیے کہ اگر کل کلاں کوئی ہجوم میرے بیٹوں کو گھیر لیتا ہے اور ان سے ان کا مذہب پوچھتا ہے تو میرے بیٹے کیا جواب دیں گے؟ مجھے یہ سوچ کر شدید غصہ آتا ہے کہ بھارت میں یہ کس قسم کے کلچر کو فروغ دیا جارہا ہے۔ بھارتی صحافی تاثیر علوی نے بتایا ہے کہ اداکار نصیر الدین شاہ نے اپنے ایک انٹرویو میں بھی کہا تھا کہ ہندوستان میں اب ایک گائے کی اہمیت پولیس افسر کی زندگی سے زیادہ ہے۔ ہجومی حملوں کا مطلب یہی ہے کہ حکومت نے انہیں قانون ہاتھ میں لینے اور تشدد کی کھلی چھوٹ دیدی ہے۔ مجھے اب اپنے بچوں کی سلامتی کی فکر ہے۔
٭٭٭٭٭