طالبان کو کابل سے مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کوششیں جاری

0

امت رپورٹ
افغان طالبان کو کابل حکومت سے مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں، لیکن تاحال اس میں کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ دوسری جانب افغانستان سے امریکی فوجیوں کی نصف تعداد واپس بلائے جانے کی خبروں پر ہلچل مچی ہوئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر امریکی صدر ٹرمپ اور پینٹاگان ایک بار پھر آمنے سامنے آ گئے ہیں۔
ابو ظہبی میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا تیسرا دور ختم ہو چکا ہے۔ جس میں پاکستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے بھی شرکت کی۔ تاہم تمام اسٹیک ہولڈرز کی کوشش کے باوجود طالبان نے وہاں پہنچنے والے کابل حکومت کے وفد سے ملاقات نہیں کی تھی۔ بالخصوص امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے کم از کم نصف درجن مرتبہ طالبان کو افغان حکومت کے وفد سے ملاقات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، لیکن کامیابی نہیں ہو سکی۔ ذرائع نے بتایا کہ پس پردہ اب بھی یہ کوششیں جاری ہیں کہ کسی طرح طالبان کو افغان حکومت سے بات چیت کے لئے آمادہ کر لیا جائے، تاکہ مذاکرات کے چوتھے دور میں کابل حکومت کا وفد بھی بطور اسٹیک ہولڈر موجود ہو۔ جبکہ کابل حکومت نے بھی ایک سے زائد بار طالبان کو یہ پیغام بھیجا ہے کہ وہ بغیر کسی شرط کے بات چیت کے لئے تیار ہے، کیونکہ افغان عوام طویل جنگ سے اکتا چکے ہیں اور ایک محفوظ ماحول کے خواہشمند ہیں۔ ذرائع کے مطابق بالخصوص امریکہ، طالبان کو یہ باور کرا رہا ہے کہ ملک کے اندرونی مسائل چونکہ طالبان اور کابل حکومت نے مل کر طے کرنے ہیں، لہٰذا جب تک اس امن عمل کے مرکزی فریقین آپس میں بات چیت نہیں کریں گے تو مذاکراتی عمل میں پیشرفت مشکل ہو جائے گی۔ ذرائع کے بقول امریکہ نے پاکستان کو بھی کہا ہے کہ وہ مذاکرات کے اگلے دور سے پہلے کسی طرح طالبان کو کابل حکومت سے بات چیت کے لئے منا لے۔
دوسری جانب سیز فائر کے معاملے پر طالبان نے کہا ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنی مرکزی قیادت سے مشورے کے بعد کوئی جواب دے سکیں گے۔ ذرائع کے مطابق سیز فائر کی تجویز متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی طرف سے دی گئی تھی، جس کی مذاکرات میں شامل تمام اسٹیک ہولڈرز نے تائید کی۔ مذاکرات کا اگلا دور اگلے دو سے تین ماہ کے درمیان متوقع ہے۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ اس عرصے کے دوران طالبان کی جانب سے سیز فائر پر کوئی جواب مل جانا چاہئے۔
ادھر افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی نصف تعداد واپس بلانے کی خبروں پر صدر ٹرمپ اور پینٹاگان میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہہ دیا تھا کہ وہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اس معاملے سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ برسر اقتدار آنے پر ٹرمپ نے عوام سے کئے گئے اپنے اس وعدے پر عمل کی کوشش کی تو پینٹاگان، سی آئی اے اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ رکاوٹ بن گئے تھے۔ بعد ازاں پینٹاگان کے دبائو پر ہی صدر ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی افواج واپس بلانے کے بجائے مزید چار سے پانچ ہزار فوجی وہاں بھیج دیئے تھے۔ تاہم ساتھ ہی پینٹاگان اور سی آئی اے کو ٹاسک دیا تھا کہ انہیں شام میں چھ ماہ کے اندر جب کہ افغانستان میں سال سوا سال کے دوران کوئی پیشرفت دکھانا ہو گی، ورنہ وہ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کریں گے۔ ذرائع کے مطابق تاہم پینٹاگان اور سی آئی اے کی جانب سے شام اور افغانستان میں مطلوبہ نتائج دینے کے بجائے معاملات مزید خراب ہو گئے۔ بالخصوص افغانستان میں معاملات امریکہ کے ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں۔ جس پر صدر ٹرمپ برہم ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے پوری دنیا کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا، اور یہ کہ وہ شام اور افغانستان پر ہونے والے اخراجات کو بچا کر اپنے عوام پر خرچ کرنے کے حق میں ہیں۔ ذرائع کے مطابق افغانستان میں موجود 14 ہزار امریکی فوجیوں میں سے نصف تعداد واپس بلانے کا عندیہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اگرچہ صدر ٹرمپ نے اس فیصلے کا ابھی تک باقاعدہ اعلان نہیں کیا۔ لیکن اپنے قریبی ساتھی کے ذریعے خود سی این این کو یہ خبر پہنچائی کہ وہ 7 ہزار سے زائد امریکی فوجی افغانستان سے واپس بلانے پر غور کر رہے ہیں، جس پر پینٹاگان اور سی آئی اے میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ ذرائع کے بقول چونکہ بطور کمانڈر انچیف صدر ٹرمپ کو اپنے اس فیصلے پر عمل درآمد کا اختیار حاصل ہے۔ لہٰذا قانونی اور آئینی طور پر پینٹاگان یا سی آئی اے ان احکامات کو نہیں روک سکتے۔ اسی لئے ٹرمپ پر دبائو بڑھانے کے لئے مواخذے کی بات چلائی جا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کا ممکنہ فیصلہ پاکستان کے لئے بھی بہت اہم ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ فوج نکالنے سے پہلے امریکہ، افغانستان میں تمام معاملات حل کرا کے جائے۔ کیونکہ اس سے قبل بھی جب امریکہ، افغانستان میں مسائل کو ادھورا چھوڑ کر بھاگ نکلا تھا تو اس کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی، جس کا اثر پاکستان پر بھی پڑا تھا۔ اور اگر اب بھی امریکہ یہی کہانی دہراتا ہے تو لامحالہ اس سے نہ صرف افغانستان میں خون خرابہ ہو گا، بلکہ پاکستان بھی متاثر ہو گا۔ پھر یہ کہ ایسی صورت حال میں افغانستان میں بھارت اور شمالی اتحاد کو بھی اپنا کھیل کھیلنے کی آزادی مل جائے گی۔ لہٰذا پاکستان سمجھتا ہے کہ طالبان سے امن معاہدے اور افغانستان میں ایک خود مختار مستحکم حکومت کے قیام سے قبل امریکی انخلا خطے کے مفاد میں نہیں۔
ذرائع کے مطابق پینٹاگان، صدر ٹرمپ کی جانب سے شام سے فوج بلائے جانے کے اعلان پر بھی خوش نہیں۔ لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ شام میں امریکی پالیسی کو مسلسل ناکامی کا سامنا رہا۔ شروع میں امریکہ کا ہدف صدر بشار الاسد کو ہٹانا تھا۔ لیکن ایران اور روس نے شامی صدر کو بچالیا۔ بعد ازاں امریکہ، شام میں اپنے دیگر اہداف بھی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اب صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ شام میں اپنی فوج رکھ کر معیشت پر مزید بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔ تاہم پینٹاگان، صدر ٹرمپ کے اس موقف کے خلاف ہے اور اس کا کہنا ہے کہ شام سے امریکی فوج نکل جانے کے بعد وہاں ایران اور روس مکمل طور پر حاوی ہو جائیں گے۔ بالخصوص اسرائیل سمجھتا ہے کہ ایران، عراق اور شام کے راستے حماس کو فلسطین میں مدد پہنچا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اگر اسرائیل کا پریشر آ گیا تو شاید شام سے فوج نکالنے سے متعلق صدر ٹرمپ اپنا فیصلہ تبدیل کر لیں۔ ورنہ اس کا کوئی امکان نہیں۔
دوسری جانب امریکی ذرائع ابلاغ میں بھی ان رپورٹس پر ملا جلا ردعمل پایا جاتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہفتوں کے اندر افغانستان میں موجود اپنے 14 ہزار فوجیوں میں سے نصف کو واپس بلانے پر غور کر رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر پینٹاگان کی زبان بول رہے ہیں۔ واضح رہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی ممکنہ واپسی کی خبر ٹرمپ کے اس اعلان کے ایک دن بعد منظر عام پر آئی تھی کہ امریکہ نے شام میں داعش کو شکست دے دی ہے، لہٰذا اب امریکی فوجیوں کو شام سے نکال لیا جائے گا۔ اگر امریکہ اپنے اس پلان پر عمل کرتا ہے تو پھر 2019ء میں افغانستان سے تقریباً 7 ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلا لیا جائے گا۔ واشنگٹن کے ووڈن ولسن سنٹر برائے سائوتھ ایشیا کے سینئر عہدیدار مائیکل کوگل مین کے بقول افغانستان سے امریکی فوجیوں کو نکالنے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ کوگل مین کا کہنا ہے کہ ’’اس فیصلے سے طالبان کے حوصلے بلند ہوں گے اور انہیں کچھ دیئے بغیر ہی وہ سب کچھ حاصل ہو جائے گا، جس کا وہ ایک طویل عرصے سے انتظار کر رہے ہیں۔ اس سے افغان حکومت اور اس کی سیکورٹی فورسز کے حوصلے پست ہوں گے جبکہ واشنگٹن اور کابل کے تعلقات بھی کشیدہ ہو سکتے ہیں‘‘۔ کوگل مین کے مطابق کسی امن معاہدے اور سیز فائر کے بغیر امریکی فوجیوں کو افغانستان سے واپس بلانے کے نتیجے میں طالبان کو جنگی محاذ پر بہت بڑا ایڈوانٹیج مل جائے گا۔ اس کے سبب طالبان کے حملوں میں مزید تیزی آ سکتی ہے۔ دوسری جانب واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر میٹ ڈیئرنگ کا کہنا ہے کہ ’’نیٹو اور افغان فورسز امریکی فوجیوں کی موجودگی چاہتے ہیں، تاکہ افغانستان میں استحکام کے لئے انہیں ٹریننگ، مدد اور مشاورت ملتی رہے‘‘۔
اس وقت افغانستان میں 14 ہزار امریکی فوجیوں کے علاوہ نیٹو اتحادیوں اور پارٹنرز کے 8 ہزار فوجی بھی موجود ہیں۔ رینڈ کورپ کے پالیسی ریسرچر جیسن ایچ کیمبل نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کو بلانے کے نتیجے میں نیٹو اتحاد کمزور ہو سکتا ہے۔ کیمبل کا کہنا ہے ’’اگر امریکہ نے اپنے اتحادیوں کی مشاورت یا انہیں بتائے بغیر اپنے ممکنہ فیصلے پر عمل کیا تو یہ اقدام اس کے اتحادیوں کے لئے توہین آمیز اور پریشان کن ہو گا اور پھر وہ اپنے طور پر کچھ فیصلے کرنے پر غور کر سکتے ہیں‘‘۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More