اومنی گروپ کی شوگر ملیں بند ہونے سے گنے کے آبادگاروں کو فائدہ

0

کراچی (رپورٹ: ارشاد کھوکھر) اومنی گروپ کی 6 شوگر ملیں بند ہونے اور گنے کی پیداوار میں کمی نے گنے کے نرخوں کا معاملہ آبادگاروں کے حق پلٹ دیا۔ اومنی گروپ کے زیر اثر شمار ہونے والی دو شوگر ملوں نے مقابلہ بازی کے رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے فی من گنے کے سرکاری نرخوں سے بھی 3 روپے زیادہ دینے کا اعلان کردیا ہے۔ سرکاری نرخوں کے مقابلے میں فی من گنے کی قیمت 18 روپے تک بھی بڑھ جانے کا امکان ہے۔ علاوہ ازیں شوگر ملز مالکان نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فی کلو گرام چینی کے ایکس مل نرخوں میں 4 روپے کا اضافہ کرکے مذکورہ بوجھ صارفین پر منتقل کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ کئی برسوں سے گنے کے نرخوں کے متعلق آبادگاروں اور شوگر ملز مالکان کے درمیان تنازعہ شدید رہا ہے ،جس کے باعث سندھ میں گنے کی کاشت میں بتدریج کمی ہوتی رہی ہے ،جبکہ ماحولیاتی تبدیلی اور رواں سیزن کے دوران بارشیں کم ہونے اور نہری پانی کی قلت کی وجہ سے گنے کی فصل کی فی ایکڑ پیداوار میں بھی کمی ہوئی ہے۔ رواں سیزن کے دوران حکومت سندھ نے فی من گنے کی امدادی قیمت 182 روپے مقرر کی ہے جن پر شوگر ملز مالکان نے شدید اعتراضات کرتے ہوئے گزشتہ سیزن کی طرح اس سلسلے میں عدالت سے بھی رجوع کررکھا ہے، تاہم گنے کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے دو شوگر ملوں سکرنڈ اور باندھی نے باقی ملز مالکان کے برعکس فی من گنے کی قیمت سرکاری نرخوں کے مقابلے میں بھی 3 روپے زیادہ یعنی 185 روپے دینے کا اعلان کردیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ شوگر ملیں اومنی گروپ کی ملکیت نہیں ہیں۔ تاہم ان کا شمار اومنی گروپ کے زیر اثر رہنے والی ملوں میں ہوتا ہے نرخوں میں اضافی کے باوجود مذکورہ ملوں کو بھی فی الحال گنے کی سپلائی ان کی طلب کے مقابلے میں کم ہورہی ہے ،جبکہ گھوٹکی کی شوگر ملوں نے پہلے ہی سرکاری نرخوں پر گنے کی خریداری شروع کردی ،کیونکہ وہ ایسا نہ کرتی تو گھوٹکی کا گنا پنجاب کی ملوں کو سپلائی ہوتا جو پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس مرتبہ گنے کیلئے نرخوں کا معاملہ آبادگاروں کے حق میں پلٹ گیا ہے ،کیونکہ اومنی گروپ کی 8 شوگر ملوں میں سے 6 وہ شوگر ملیں جن کے اکاؤنٹس منی لارنڈنگ وغیرہ میں استعمال ہوئے بند ہیں ، باقی دو ملیں نوڈیرو اور دادو چل رہی ہیں۔ گزشتہ سیزن کے دوران سندھ میں گنے کی فصل 7 لاکھ ایکڑ سے بھی زیادہ اراضی پر کاشت ہوئی تھی لیکن اس مرتبہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ کم یعنی ساڑھے پانچ لاکھ ایکڑ پر گنے کی فصل کاشت ہوئی اور فی ایکڑ پیداوار میں بھی کمی کے باعث شوگر ملوں کے درمیان مقابلہ بازی کا رجحان پیدا ہوگیا ہے۔ ہر مل کی کوشش ہے کہ انہیں زیادہ سے زیادہ گنا سپلائی ہو۔ آبادگاروں کا کہنا ہے کہ اس بات سے اندازہ لگایا جائے کہ جو ملیں انہیں فی من گنے کی قیمت 160 روپے دینے کیلئے تیار نہیں تھیں اور ملز مالکان کہہ رہے تھے کہ انہیں گنا وارے میں نہیں آرہا ہے۔ اب وہی ملیں فی من گنا 200 روپے تک بھی خریدنے کیلئے تیار ہوجائیں گی ،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں کتنا فائدہ ہوگا، جبکہ شوگر ملز مالکان کا موقف ہے کہ گزشتہ سیزن کے دوران فی کلو گرام چینی کے ایکس مل نرخ 45 روپے تھے۔ رواں سیزن کے دوران وہ نرخ 47 روپے تھے ،لیکن اب فی کلو گرام چینی کے ایکس مل نرخ 51 روپے کئے گئے ہیں تاکہ آبادگاروں کو بھی زیادہ نقصان نہ ہو۔ مذکورہ ملز مالکان کا کہنا تھا کہ فی کلو گرام چینی کی ایکس مل نرخ 51 روپے کے حساب سے بھی فی من گنے کی امدادی قیمت 182 روپے بھی زیادہ ہے ،لیکن کیا کریں ملیں بھی چلانی ہیں۔ مذکورہ نرخوں کو گنے سے چینی کی پیداوار کے علاوہ دیگر بننے والی مصنوعات سے پورا کرنے کی کوشش کریں گے ،جبکہ دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہونے سے بھی ملز مالکان کو فائدہ ہوا ہے ،کیونکہ اس سے برآمدی چینی کے نرخ بڑھ گئے ہیں۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اب آبادگار بھی سوچ سمجھ کر گنے کی سپلائی اس طرح کررہے ہیں ،جبکہ ملوں کی مانگ زیادہ ہے۔ علاوہ ازیں گنے کے نرخوں کے متعلق شوگر ملز مالکان نے سندھ ہائی کورٹ سے بھی رجوع کررکھا ہے۔ اس ضمن میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ گھوٹکی کی ملوں کی جانب سے سرکاری گنے کے نرخوں کے متعلق سرکاری قیمت پر عملدرآمد کرنے اور دو ملوں کی جانب سے سرکاری نرخوں سے گنے کی قیمت زیادہ دینے کے اعلان سے شوگر ملز مالکان کا کیس اب کمزور نظر آرہا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More