اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) افغان طالبان نے امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔ خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو، بدترین شکست سے دوچار امریکی اور نیٹو افواج کیلئے دو ہی راستے رہ گئے تھے ،یا تو طالبان کے ہاتھوں سرد اور سفاک موت مرتے رہتے اور یا واپس چلے جاتے۔ امریکیوں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔ لیکن اب طالبان کیلئے تدبر اور حکمت کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوگیا ہے۔ امریکیوں کی خواہش ہے کہ انخلا سے پہلے جنگ بندی ہوجائے اور طالبان ہتھیار رکھ کر سیاسی عمل کا حصہ بن جائیں۔ مطلب یہ کہ انہیں زمانہ امن کی گاڑھی نیند کا خوگر بنا دیا جائے اور اشرف غنی حکومت جیسے امریکی پیادوں کو ان کے شانہ بشانہ کھڑا کردیا جائے۔ وہی حیلے میں پرویزی جو سوویت یونین نے افغانستان سے انخلا کے وقت گھڑے تھے کہ دوستم کو ساتھ ملا لو۔ حکومت کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ قوم پرستوں اور کمیونسٹوں کے ساتھ مل کر حکومت بنالو۔ افسوس کہ اس وقت شمالی اتحاد اس بھرے میں آگیا تھا اور اس نے دوستم ملیشیا اور پرچم پارٹی کے قوم پرست کمیونسٹوں کے ساتھ مل کر مجاہدین کا راستہ روک لیا تھا۔ تب وہ خونریز جنگ شروع ہوئی، جس کا اختتام مجاہدین کی عبوری حکومت کا ایک وقفہ چھوڑ کر کئی برس بعد ہوا۔ جب طالبان کھڑے ہوگئے تھے۔ سیدھی سی بات ہے کہ جس طرح نجیب حکومت روسی فوج کا حصہ تھی۔ اسی طرح غنی حکومت بھی امریکی فوج کا حصہ ہے۔ اسے امریکی لائے تھے۔ انہوں نے ہی تحفظ دیا۔ پیسے دیئے ،اور طالبان سے لڑنے کا ٹاسک دیا۔ اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ امریکی تو چلے جائیں اور ان کے کاشت کردہ پودے جہادی فصل کی بہار دیکھیں۔ امریکہ جائے گا تو غنی بھی جائے گا۔ یہ ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ ایک ہی پیکیج کا حصہ ہیں اور ایک ہی مقصد کی خاطر افغانستان پر مسلط ہوئے ہیں یعنی افغان سرزمین کو اسلام کا گہوارہ بننے سے روکنا۔ اصل بات یہ ہے کہ امریکہ اسے اسلام اور کفر کی جنگ کے بجائے اقتدار اور سیاست کی جنگ دکھانا چاہتا ہے، کیونکہ تبھی وہ شکست اور ناکامی کی رسوائی سے خود کو بچا سکتا ہے۔ طالبان اگر غنی حکومت کے ساتھ بیٹھ گئے تو امریکہ اور اس کے حواری دنیا کو باور کرادیں گے کہ دیکھ لو۔ دو افغان گروہوں میں جنگ تھی اور یہ جنگ اقتدار کی تھی۔ ہم نے انہیں بٹھا دیا۔ طالبان کو اقتدار میں حصہ دلا دیا۔ اب سب کچھ ٹھیک ہے۔ گویا امریکہ خود کو برتر پوزیشن پر رکھ کر طالبان کا قد چھوٹا کردے گا اور انہیں غنی حکومت جیسی بونی انتظامیہ کے برابر لاکھڑا کردے گا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ میں اصل فریق دو ہی تھے۔ طالبان اور امریکہ۔ باقی سب سہولت کار تھے۔ کٹھ پتلی تھے، معاون تھے یا دشمن کے حامی۔ طالبان کو چاہئے کہ وہ کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے فیصلے پر اڑے رہیں، کیونکہ اسی میں ان کی کامیابی ہے۔ دشمن جاتے جاتے بھی انہیں خانہ جنگی کے فساد میں دھکیلنا چاہتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مکمل امریکی انخلا سے قبل جنگ بندی ایک دھوکہ ہے۔ یہ سعودیہ اور امارات کی منہ سے نکلوائی گئی امریکی خواہش ہے، جسے کسی صورت تسلیم نہیں کرنا چاہئے، جب تک ایک بھی امریکی یا نیٹو فوجی افغان سرزمین پر موجود ہے۔ جنگ بندی نہیں ہونی چاہئے۔ وجہ یہ ہے کہ امریکیوں نے تو سترہ برس ٹل کا زور لگاکے دیکھ لیا۔ ڈیڑھ ٹریلین ڈالر جنگ میں جھونک دیئے۔ دس لاکھ افغان شہری مار دیئے۔ زخمی کردیئے یا معذور کردیئے، لیکن طالبان کی مونچھ کا ایک بال بھی نہ اکھاڑ سکے۔ اب جو وہ جارہا ہے تو اپنی ناکامی کے ناقابل برداشت بوجھ تلے دب کر جا رہا ہے۔ طالبان یا افغان عوام سے معافی مانگ کر نہیں یا اپنی خطاؤں کا احساس ہونے پر نہیں۔ جب امریکی فوجیوں نے افغانستان پر رحم نہیں کیا تھا تو اب طالبان ان پر رحم کیوں کریں۔ جنگ بندی کا مطلب انہیں سانس لینے کی مہلت دینا ہے۔ جنگ کی دوبارہ تیاری کا موقع دینا ہے۔ ویسے بھی یہ سال امریکیوں پر بھاری گزرا ہے۔اس دباؤ کو برقرار رہنا چاہئے۔ ورنہ امریکی واپس لوٹ آئیں گے، وہ حد درجے ناقابل اعتبار قوم ہے اور اس وقت حالت جنگ میں ہے، حالت جنگ میں تو اچھے اچھے ملک اصول اور اخلاق بھول جاتے ہیں یہ تو پھر امریکی ہیں اور یہ طالبان کا دباؤ ہی تھا، جس نے امریکیوں کو نصف فوج کے انخلا کا اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ اگر یہ دباؤ ہٹ گیا تو باقی نصف فوج کو واپس بھیجنے کیلئے کیا زر سانگے کے درد بھرے گانے کام آئیں گے؟ ویسے بھی نصف فوج کی واپسی کا اعلان ہوا ہے، عمل نہیں۔ اس اعلان پر بغلیں بجانے کے بجائے انخلا مکمل ہونے تک دباؤ بڑھانا چاہیئے۔ محض اعلان پر جنگ بندی ایسے ہی ہے، جیسے دریا ابھی کوسوں دور ہو اور یار لوگ جوتے، کپڑے اتار کر کاندھے پر رکھ لیں کہ بھیگ نہ جائیں۔ طالبان کو چاہئے کہ وہ سعودیہ اور امارات جیسے ناقابل اعتبار ممالک کے بجائے ترکی اور قطر پر بھروسہ کریں، جو آنے والے وقتوں میں بھی ان کے حقیقی پشتیبان ثابت ہوں گے۔ اہم ترین نتیجہ یہ ہے کہ مکمل انخلا سے قبل جنگ بندی پر آمادگی طالبان تنظیم کو توڑ ڈالے گی۔ درجنوں بلکہ سیکڑوں کمانڈر کسی صورت نہیں چاہتے کہ جنگ بند ہو۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ جیت رہے ہیں پھر امریکہ کو فاتح کی کرسی پر بٹھانے کی کیا ضرورت؟ امریکہ کو بھی اسی طرح ذلیل و خوار ہو کر افغانستان سے نکلنا چاہئے۔ جیسے سوویت یونین نکلا تھا۔ حیرت یہ ہے کہ جیتنے والے سے کہا جارہا ہے کہ کمپرومائز کرلے۔ ہارنے والے کو سب پگڑی پہنانے پر تلے ہوئے ہیں اور یہ سب وہ ہیں, جو امریکیوں کی عزت بچا کر اپنا اقتدار یا ڈالر سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان سے ان کی کوئی ہمدردی نہیں۔ بلکہ طالبان تو ان کے نزدیک سب سے زیادہ فروختنی آئٹم ہے۔ جس پر امریکہ فوراً سودا کرسکتا ہے۔ بات یہ ہے کہ طالبان نے ایک بار ہتھیار رکھ دیئے اور مجاہدین گھروں کو لوٹ گئے اور تب امریکہ نے انخلا روک دیا، پھر کیا ہوگا؟ پھر جنگ کے دباؤ کو آج کے درجہ حرارت تک لانے میں کتنے برس لگیں گے؟ کتنی جانیں ضائع ہوں گی؟ کتنی تباہی ہوگی؟ جنگوں کی گرمی مرحلہ وار بڑھتی ہے۔ اور یہ مرحلے کئی برسوں میں پورے ہوتے ہیں۔ یہ گرمی ہی ایک یا دوسرے فریق کو بھاگنے پر مجبور کرتی ہے۔ گوشت گلے بغیر آپ ہنڈیا آگ سے اتار لیں گے تو دوبارہ چولہا جلانے اور گوشت گلانے میں کتنا وقت لگے گا؟ سب کو پتہ ہے اور نجانے تب تک افغان قوم کے اندر دبے ہوئے کتنے جراثیم فعال کردیئے جائیں گے۔ دوبارہ ابھرنے کی کوشش کرنے والے طالبان کو بغلی گھونسوں کی مدد سے کتنا الجھا دیا جائے گا۔ کون جانتا ہے کہ تب تک پلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ چکا ہوگا۔ تحریکیں بار بار نہیں اٹھتیں۔ ایک بار روک کر دوبارہ اٹھائی بھی نہیں جاسکتیں۔ کم از کم اتنی اوپر نہیں کہ وہ دباؤ پیدا کرسکیں، جو امریکیوں کو شکست دینے کیلئے مطلوب ہے۔ اس لئے موجودہ دباؤ ہی واحد ہتھیار ہے۔