قسط نمبر 208
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
میں نے ان اندیشوں کو اگلے ہی لمحے لاپروائی سے جھٹک دیا۔ ظہیر تو پہلے ہی ہر قدم پر موت سے پنجے لڑا رہا ہوتا ہے، اور میں بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہی گھر سے نکلا ہوں۔ ہم دونوں جانتے ہیں کہ یہ پُر خطر سفر کسی وقت بھی اپنے انجام کو پہنچ سکتا ہے۔ یہ زندگی کشمیر کی آزادی کے مقصد کی خاطر کام آجائے، اس سے بڑی سعادت کیا ہوسکتی ہے!۔
سوچتے سوچتے میرے خیالات کی رو گھر والوںکی طرف چلی گئی۔ میں ایک کے بعد ایک، مختلف بکھیڑوں میں اتنا الجھا رہا تھا کہ امی ابو اور اپنی لاڈلی، نخریلی بہن تہمینہ سے کسی بھی قسم کے رابطے کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ وہ تو شکر ہے میں نے ہمت کر کے ابو جی کو اعتماد میں لے لیا تھا۔ ورنہ میرے لگ بھگ لا پتا ہو جانے سے پورا گھر سخت پریشان ہوجاتا۔ ابو جی یقیناً انہیں تسلی دے کر کچھ نہ کچھ مطمئن کر دیتے ہوں گے۔
پھر مجھے خیال آیا کہ ابو جی اپنی اہلیہ اور بیٹی کو تو شاید کسی نہ کسی طرح دلاسا دے دیتے ہوں گے، خود ان کے دل کی کیا حالت ہوگی؟ انہیں تو اچھی طرح پتا ہے کہ میں جان داؤ پر لگانے کے لیے ان سے رخصت ہوا ہوں۔ سرحد پار کرتے ہی ہر موڑ پر خطرات کے مگرمچھ منہ کھولے میرے قدم لڑکھڑانے کے منتظر ہوں گے۔ انہیں تو ہر لمحے دھڑکا لگا ہوگا کہ کہیں کسی مہم کے دوران میں دشمن مجھے گولیوں کا نشانہ نہ بنادیں، یا کہیں میں زندہ ان کے ہتھے نہ چڑھ جاؤں۔
ان کے لیے ہر لمحہ یہ اندیشے کھائے جاتے ہوں گے کہ جانے میں گولی کھاکر قبر میں یا اسپتال میں پڑا ہوں، یا دشمن کی قید میں کسی کال کوٹھری میں سڑ رہا ہوں۔ یہ خیال آنے پر تو نوالہ حلق سے اتارنا اور دو پل چین کی نیند سونا ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہوگا۔ انہوں نے میرے اصرار پر میری بات مان تو لی، لیکن مجھے اجازت دیتے ہوئے ان کے دل پر کیا گزری ہوگی، یہ وہی سمجھ سکتے ہیں۔
میں جانتا تھا کہ ابتدائی چند دن تو امی جان نے جیسے تیسے گوارا کرلیا ہوگا۔ لیکن اس کے بعد انہیں اپنے لاڈلے بیٹے کی جدائی نے تڑپانا شروع کر دیا ہوگا اور وہ میری حمایت میں ابو جی کو قائل کرنے پر خود کو دن رات لعن طعن کرتی ہوں گی۔ اور رہی وہ میری چہیتی بہن، تہمینہ نے پہلے دن سے، اتنے دن تک گھر سے دور رہنے کے خیال پر ہی بھرپور احتجاج کیا تھا۔ اس نے تو گلے شکووں اور طعنوں سے امی ابو کی زندگی اجیرن کر دی ہوگی۔ جنہوں نے مجھے اپنی مرضی چلانے کی اجازت دی تھی۔ جبکہ اکیلے میں وہ مجھے یاد کر کے چپکے چپکے روتی ہوگی۔
یہ سب سوچ کر میرا دل اداس ہوگیا۔ میں نے دھیان بٹانے کے لیے چھاجلی کے سردار گھرانے کے بارے میں سوچا۔ یقین سے کہنا مشکل ہے کہ امر دیپ نے اپنے گھر والوں کو اپنے پھوپھا الکھ سنگھ کے کرتوتوں اور اس کے عبرت ناک انجام کے بارے میں بتایا ہوگا یا نہیں۔ میرا اندازہ تھا کہ اس نے اگر زبان کھولی بھی ہوگی تو زیادہ سے زیادہ اپنے والدین، بھائی اور بھابھی کو اعتماد میں لیا ہوگا۔ یہ سب جان کر ان سب کی کیا کیفیت ہوئی ہوگی، اس کا بھی صرف قیاس ہی کیا جا سکتا تھا۔ بزرگ سردار کے علاوہ باقی سارے گھر والے الکھ سنگھ کے بارے میں کوئی زیادہ خوش گوار رائے نہیں رکھتے۔ لیکن وہ اس حد تک گرا ہوا انسان نکلے گا، یہ تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا۔ ایسے میں اگر مجھے اس گھر میں واپس جانے کا موقع ملا تو شاید کچھ اور ہی انداز میں میرا استقبال ہوگا۔
ٹھنڈے موسم میں آرام دہ ماحول نے جانے کب ان ہی سوچوں کے درمیان مجھے تھپک تھپک کر سلا دیا۔ دھیمی آواز میں کئی لوگوں کے بات کرنے کی آواز سے میری آنکھ کھلی۔ حواس پوری طرح بیدار ہونے پر میں نے دیکھا کہ کمرے میں یاسر اور ظہیر کے علاوہ ناصر بھی موجود ہے۔ وہ تینوں بے تکلفی سے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔
ناصر مجھ سے انتہائی گرم جوشی سے ملا۔ رسمی سلام دعا کے بعد میں نے سوالیہ نظروں سے ظہیر کی طرف دیکھا۔ لیکن اس کے بجائے ناصر نے وضاحت کی۔ ’’جمال بھائی، میری ظہیر سے تفصیلی بات ہوئی ہے۔ جیپ کے ٹائر بدلنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن میرا مشورہ ہے کہ آپ دونوں کو اس بکھیڑے میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس اس سے زیادہ محفوظ اور جھنجٹ سے پاک حل موجود ہے‘‘۔
ناصر کے خاموش ہونے پر میں نے سوالیہ نظروں سے مزید وضاحت طلب کی۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کو یہ خطرہ ہے ناں کہ پولیس کھوجیوں کے ذریعے آپ کی جیپ تک پہنچ سکتی ہے۔ لیکن اگر آپ کی جیپ نظروں میں آچکی ہے تو ٹائر بدلنے کے باوجود اسے پہچانا جا سکتا ہے۔ اس خطرے سے بچنے کا آسان اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ لوگ اپنی جیپ میں ادھر ادھر پھرنے کا خطرہ مول لینے کے بجائے بے فکری سے میری جیپ استعمال کریں۔ میرے پاس بھی سی جے فائیو ماڈل کی ولی جیپ ہے۔ انجن اور باڈی بھی بہترین کنڈیشن میں ہے‘‘۔
ناصر نے بلاشبہ بہت عمدہ تجویز پیش کی تھی۔ ٹائربدلنا واقعی درد سر تھا اور اس کے بعد بھی بلاشبہ ہم جیپ شناخت کرلیے جانے کے خطرے کی زد میں رہتے۔ لیکن ہم جو مزید کارروائیاں کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، اس کے دوران میں ناصر کی جیپ بھی پولیس کی نظروں میں آنے کا خدشہ موجود تھا، جو کسی طرح بھی مناسب بات نہیں تھی۔ (جاری ہے)