محمد فاروق
انگلینڈ آیا تو ایک طرف اصحاب قرآنک سوسائٹی کے دوستوں کا فراق ستاتا رہا، دوسری طرف شاہ صاحب کے ساتھ ان خوبصورت محفلوں کا خاتمہ بھی ہوا تھا۔ تب بھی ایک انتظار میں رہا، کہ واپس جاتے ہی، حاضر ہو کر ان سے لپٹ جاؤں گا۔ افسوس…! یہ آرزو، آرزو رہی۔ فتنوں کی آماجگاہ سوات جب اپنی تاریخ کے نئے فتنے میں مبتلا ہوا تو ہمارے یہ مخدوم ظاہر شاہ شہید اس کا پہلا لقمہ بنے۔ یہ خبر مجھ پر بجلی بن کر گری اور سوات واپس جانے کی تمام آرزوئیں دم توڑ گئیں۔ اب وہاں میرے انتظار میں کسی کے ہاں… اور خود میرے اندر… کسی کے لئے دیوانہ وار شوق و اشتیارق کی تڑپ باقی نہیں رہی تھی۔ کار جہاں کی درازی شاہ صاحب کے میرے لئے صبر و انتظار کو مات دے گئی تھی۔ وہ مزید میرا انتظار نہیں کر سکتے تھے۔ وہ انتظار بھی کرتے تو وصال یار نصیبوں میں نہیں تھا…۔ انتظار… اور لمبے سفر کے راہی کا لمبا انتظار…! وہ ’’اتفاق‘‘ سے یہی پیغام دے گئے تھے کہ:
نہ تھی یہ ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتااگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتاسوات میں برپا اسی فتنے کا نتیجہ تھا کہ ٹھیک تیرہ دسمبر دو ہزار سات کو پاکستان واپسی کا ٹکٹ لینے کے باوجود بھی میری آرزو پوری نہ ہوسکی۔ حالات نے چار و ناچار یہاں انگلینڈ میں رہنے اور اب اسے مستقل مسکن بنانے پر مجبور کیا۔ مجھے میرے وجدان نے ہجرتِ رسولؐ سے پہلے والی آیتوں کے ورد میں کیوں لگایا تھا…؟ اور مجھے شاہ صاحب نے ’’مستقل‘‘ طور پر خدا حافظ کیوں کہا تھا۔ نہیں معلوم کہ اگر یہ اتفاقات ہوں، تو یہ ’’اتفاقات‘‘ کی کونسی قسم ہے؟
یہی ظاہر شاہ صاحب تھے، جنہوں نے کوہاٹ ٹیکنکل کالج میں بحیثیٹ پرنسپل اپنی مدت ملازمت میں پیش آنے والے ایک واقعہ کا ذکر کیا تھا اور اس بابا جیؒ سے اپنی ملاقات کی روداد سنائی تھی، جس کا ابتدائی تذکرہ آپ پڑھ چکے ہیں۔
’’میں کالج کے اساتذہ میں سے ایک دو کر لے کر بابا جیؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ بڑے تپاک سے ملے۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ پہلے سے یہ جانتے تھے کہ میرا تعلق بھی سوات سے ہے۔ شاید کالج ہی کے اساتذہ میں سے کسی نے بتایا ہو، مگر معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ میری ملاقات سے پہلے کسی نے بھی میرا ذکر ان سے نہیں کیا تھا۔ کہنے لگے کہ میرا تعلق سوات میں ’’سیر تلیگرام‘‘ سے ہے۔ جو ملم جبہ جاتے ہوئے راستہ پر آنے والے دو چھوٹے گاؤں ہیں۔ پچھلے تیس پینتیس سال سے میں یہاں کوہاٹ میں ہوں۔ میری یہاں ’’ڈیوٹی‘‘ لگی ہے۔ ’’ان‘‘ کی اجازت کے بغیر کہیں نہیں جاسکتا…۔ اشارہ اپنے روحانی بزرگوں کی طر ف تھا…۔ پہلے میں سال دو سال بعد گھر ضرور جایا کرتا تھا۔ اب الحمد للہ، میرا بیٹا جوان ہے۔ وہ مجھے ملنے آجاتا ہے۔ ہاں…! آپ سے ایک ضروری بات یہ کرنا تھی، کہ آئندہ ایک ہفتے یا دس دن میں آپ کے کالج میں ایک بہت بڑا واقعہ پیش آنے والا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا ہنگامہ ہوگا۔ نقصان تو بہت ہوگا، مگر خیر…! اللہ خیر کرے گا۔ آپ محفوظ رہیں گے۔ آپ چاہیں تو پہلے سے کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرلیں۔
بابا جیؒ کی اس پہلی ملاقات سے، خدا گواہ ہے، قدرتی طور میں نے کچھ اچھا تاثر نہیں لیا۔ میرے ذہن میں مختلف سوالات گردش کرنے لگے۔
’’تم بال بچوں کو چھوڑ کر اس بیابان میں کیوں بیٹھے ہو؟‘‘۔ ’’تمہاری وہ کون سی ’’ڈیوٹی‘‘ ہے… جس نے تمہیں اس رہبانیت پر مجبور کر رکھا ہے؟‘‘۔ ’’کیا تمہاری بیوی اور بچوں کا تم پر کوئی حق نہیں کہ تم ان کے ساتھ رہو؟‘‘۔ ’’تم کوئی کام یا روزگار نہیں کرتے۔ لوگوں کی عطیات پر تکیہ کر بیٹھے ہو! کیا یہ شرعاً جائز ہے؟‘‘۔
یہ وہ سوالات تھے کہ میرا ذہن ان سے فارغ نہیں تھا۔ پھر بابا جیؒ کی اس پیشنگوئی کو تو میں نے نہ صرف یہ کہ سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں دی، بلکہ میں اسے مکمل طور پر بھول بھی بیٹھا تھا۔ ابھی ہفتہ بمشکل گزرا تھا کہ ایک دن اسٹاف ممبران سے مختلف ایشوز پر ہماری ایک جنرل میٹنگ ہو رہی تھی۔ میرے دفتر کے ساتھ کانفرنس ہال میں ہم سب جمع تھے۔ اتنے میں مین گیٹ کی طرف سے کچھ شور شرابے کی آوازیں آنی لگیں۔ ایک ٹیچر نے باہر نکل کر دیکھا، تو واپس آکر بتایا کہ، ’’سر، کچھ دس پندرہ لڑکے ہیں، جو گیٹ کے قریب جمع ہیں۔ شور میں آواز صاف نہیں سنائی دے رہی۔ مگر زندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں‘‘۔ چونکہ اس وقت ایسا کوئی ایشو نہیں تھا، نہ اسٹوڈنٹس اور کالج انتظامیہ کے درمیان کوئی حل طلب مسئلہ یا تنازعہ تھا، اس لئے اس کو چند طلبہ کی جانب سے عادتاً ایک غیر سنجیدہ قسم کا کوئی ہنسی مذاق والا کارنر شو سمجھ کر نظر انداز کیا گیا۔ ابھی بمشکل بیس یا پچیس منٹ گزرے تھے کہ شور شرابے اور ہنگامے میں اضافہ ہوا۔ باہر جاکر دیکھا گیا، تو مین گیٹ کے سامنے کئی بسیں کھڑی نظر آئیں، جن میں سے کچھ طلبہ اتر رہے تھے، کچھ اتر گئے تھے۔ غالباً دوسرے کالجوں یا اسکولوں سے بڑے پیمانے پر لڑکوں کو یہاں پر لایا گیا تھا۔ اونچی جگہ پر چڑھ کر ایک اسٹوڈنٹ لیڈر کے منہ سے آگ برس رہی تھی۔ اور ہم اپنے کانوں سے سن رہے تھے، کہ:
’’آج کا دن ہے فیصلے کا…‘‘، ’’زندہ بچ کر نہ جائے… ان میں سے ایک بے غیرت بھی…‘‘۔
میں حیران، بلکہ کسی حد تک پریشان ہوا… اور پورے اسٹاف کے ممبران سے دریافت کرنے لگا، کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ سب کے چہروں پر وحشت اور خوف طاری تھا اور کسی کی نہ تو سمجھ میں کچھ آرہا تھا، نہ میرے سوال کا جواب کسی کے پاس تھا۔ اتنے میں ہزاروں نوجوان طلبہ کا یہ ریلا، جن میں سے بعض کے ہاتھوں میں ڈنڈے اور پتھر تھے، مین گیٹ سے کالج کے ایڈمنسٹریشن بلاک کی طرف بڑھا۔ میں نے فون اٹھایا تو کنکشن کو پہلے ہی کاٹ دیا گیا تھا۔ اساتذہ سے میں نے کہہ دیا کہ تم لوگ اپنی حفاظت کے کے لئے جو بھی مناسب سمجھو کرو۔ میں یہاں سے ہلنے والا نہیں۔ اساتذہ نے مجھے دفتر چھوڑنے اور ان کے ساتھ کالج کے ایڈمنسٹریشن بلاک چھوڑ کر محفوظ مقام پر چلے جانے پر اصرار کیا، مگر میں نے ان کی بات نہیں مانی۔ اساتذہ سب وہاں سے نکل گئے۔ میں نے آفس کا دروازہ اندر سے کنڈی لگا کر بند کیا اور ادھر ہی خدا کے بھروسے پر بیٹھ گیا۔ یہ طوفان بدتمیزی جب بلاک کے پہلے حصے میں پہنچا تو شیشوں، کھڑکیوں اور دروازوں کو توڑنے کی آوازیں مجھے اپنے دفتر میں سنائی دینے لگیں۔ میرے دفتر تک پہنچے، دروازے پر کئی ڈنڈے مارے، گالیاں… اور غضبناک نعرے لگائے۔ ’’بھاگ گیا ہے بے غیرت‘‘۔ حالانکہ میں اندر بیٹھا سن رہا تھا۔ آگے بڑھے تو لائبریری، ٹیکنکل لیبارٹری، کلاس رومز، غرض جہاں سے بھی وہ گزرے، تاتاریوں کی طرح روندتے ہوئے اور تاراج کرکے گزر گئے۔ پولیس پورے ڈیڑھ گھنٹے بعد پہنچی۔ کس نے انہیں خبر دی…؟ کیسے پہنچی؟ کچھ نہیں معلوم۔ لیکن ان کے آنے تک یہ لوگ سب بھاگ گئے تھے… اور یہ سیلاب پوری قوت کے ساتھ ساحل سے ٹکرا کر اپنا کام کر چکا تھا۔ تین چار بد قسمت اساتذہ نے مار کھائی تھی… اور کسی بلاک میں کوئی شیشہ، کھڑکی یا راستے میں آنے والی کسی دوسری چیز کو سلامت نہیں چھوڑا گیا تھا۔
میں اگلے دن بابا جیؒ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو ایک معنی خیز، مگر شفقت بھری مسکراہٹ سے میرا استقبال کیا۔ آپ نے مجھے خاموشی کی زبان میں سمجھا دیا کہ جو کچھ تاثر میں اپنی پہلی ملاقات میں لے کر آپ سے رخصت ہوا تھا، اور جس طرح میں نے بابا جیؒ کی پیش گوئی کو جوتے کی نوک پر رکھ کر ’’پذیرائی‘‘ دی تھی، بابا جیؒ نہ صرف اس سے باخبر ہیں، بلکہ اس ’’نامراد‘‘ کی اس گستاخی کو دل سے معاف کرنے پر بھی آمادہ ہیں‘‘۔
٭٭٭٭٭
Prev Post