عمران خان
پاکستان میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے ایرانی باشندوں کو پاکستانی شہریت دینے والے پاسپورٹ آفس کے ملوث افسران کو بچانے کی کوششیں شروع کردی گئیں۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کے قوانین کرپٹ پاسپورٹ افسران کیلئے نہ صرف رشوت ستانی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے جب کرپشن میں ملوث پاسپورٹ افسران کے خلاف کارروائی کرنے لگتے ہیں تو یہی قوانین پاسپورٹ آفس کے کرپٹ افسران کو بچانے کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔ ایرانی شہریوں کو پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری ہونے کے اسکینڈل کی تحقیقات میں سنسنی خیز انکشافات سامنے آنے لگے ہیں۔
ایف آئی اے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ تربت کے راستے پاکستان آنے والے ایرانی شہریوں کو 5 لاکھ روپے کے عوض قومی شناختی کارڈ کوئٹہ اور کراچی کے نادرا دفاتر سے بنوا کر دیئے گئے تھے، جس کیلئے ان کے ایجنٹوں نے ایرانی باشندوں کو پہلے نادرا کے کرپٹ افسران کو رشوت دے کر انہیں پاکستانی شہریوں کے فیملی ٹری میں ڈلوایا۔ اس کے بعد ان شہریوں کے شناختی کارڈ بنوانے کیلئے ایجنٹوں نے اپنے پاس موجود افراد کو ان کا رشتہ دار ظاہر کرکے ان کے انگوٹھے لگوائے۔ اس پورے پروسس میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ کوئٹہ اور کراچی میں ایرانی باشندوں کو پاکستانی شہریت دلوانے والے ایجنٹوں نے اپنے پاس ایسے مشکوک شہریت کے حامل افراد کو رکھا ہوا ہے، جن کے خاندان کے کوائف کو نئے آنے والے ایرانی شہریوں کو شامل کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایجنٹوں کے پاس موجود یہ افراد بھی ایرانی ہیں اور ان کی پاکستانی شہریت بھی مشکوک ہے۔ تاہم ایف آئی اے کراچی اور کوئٹہ کی ٹیمیں ابھی تک ان ایجنٹوں کا سراغ لگانے میں ناکام رہی ہیں۔ تاہم اس ضمن میں ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل کراچی عبدالحمید بھٹو نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی ٹیم مسلسل کوششوں میں مصروف ہے اور انہیں امید ہے کہ وہ جلد ہی ان ایجنٹوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
ایف آئی اے ذرائع کے مطابق ڈیڑھ ہفتہ قبل بحرین میں گرفتار 15 ایرانی شہریوں میں سے 12 ایرانی، جنہیں پاکستانی شناختی کارڈز اور پاسپورٹس برآمدگی کے بعد پاکستان ڈی پورٹ کیا گیا تھا، ان میں سے 6 ملزمان کو ایف آئی اے، اے ایچ ٹی سرکل کوئٹہ اور 6 کو کراچی کے حوالے کیا گیا، جہاں انہوں نے ابتدائی تحقیقات میں انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نادرا اور پاسپورٹ آفس کے ملازمین کو رشوت دے کر بنوائے تھے۔ اس حوالے سے کوئٹہ ACC میں مقدمہ نمبر 47/2018 جبکہ کراچی کے اے ایچ ٹی سرکل میں مقدمہ نمبر 406/2018 درج کر کے مزید تحقیقات شروع کردی گئیں۔ انہی مقدمات میں نادرا کے ان برانچوں میں تعینات افسران کو بھی نامزد کیا گیا جہاں سے ان ایرانی شہریوں کے شناختی کارڈز بنوائے گئے تھے۔ کراچی میں جن 6 ایرانی شہریوں کیلئے شناختی کارڈ ز بنوائے گئے، انہیں نادرا عوامی مرکز برانچ اور نادرا ڈیفنس میگا سینٹر لے جایا گیا تھا۔ کراچی میں درج ہونے والے مقدمہ میں ایف آئی اے نے مجموعی طور پر نادرا کے 6 افسران کو نامزد کیا، جن میں سے دو افسران کو تین روز قبل گرفتار کرلیا گیا تھا۔ جبکہ دیگر چار افسران تاحال روپوش ہیں اور ایف آئی اے میں درج ہونے والے اس مقدمہ کے تفتیشی افسر علی اکبر زرداری تاحال انہیں گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ اس ضمن میں تفتیشی افسر علی اکبر زرداری نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ مسلسل ان افسران کے تعاقب میں ہیں۔ تاہم یہ افسران گھروں پر نہیں ہیں اور ضمانت قبل از گرفتاری لینے کے کوشش میں مصروف ہیں تاہم وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے اور انہیں جلد ہی گرفتار کرلیں گے۔
ایف آئی اے ذرائع کے مطابق یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا تھا جب گزشتہ ہفتے بحرین میں پاکستانی پاسپورٹوں پر ویزے لے کر پہنچنے والے 12 ایرانی باشندوں کو ڈی پورٹ کردیا گیا تھا۔ اس ضمن میں درج ہونے والے مقدمہ کے مطابق ان ایرانی باشندوں کی موجودگی کی اطلاع پاکستانی ہائی کمشنر کو بحرین کی انتظامیہ سے ملی تھی جس میں انہیں بتایا گیا تھا کہ مناما کی جیل میں ایسے 15 پاکستانی ہیں جن کے پاس پاکستان کے شناکتی کارڈز اور پاسپورٹ موجود ہیں تاہم یہ افراد اصل میں ایرانی باشندے ہیں جس کے بعد ان 15 افراد میں سے 12 ایرانی باشندوں کو پاکستان ڈی پورٹ کردیا گیا تھا۔ جبکہ تین ایرانی شہری ابھی بھی وہیں موجود ہیں، جن کے آنے پر ان کیخلاف بھی مقدمات درج کئے جائیں گے۔ ذرائع کے بقول ایرانی شہری پاکستان آئے تو انہیں ایف آئی اے امیگریشن حکام نے حراست میں لیا اور ان سے تحقیقات شروع کردی گئیں۔ مذکورہ 12 ایرانی بانشدوں سے میں 6 ایرانی باشندے کوئٹہ ایئر پورٹ سے جبکہ 6 ایرانی بانشندے کراچی ایئر پورٹ سے بحرین کیلئے روانہ ہوئے تھے۔ یہ ایرانی شہری غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں انسانی اسمگلروں کے ذریعے داخل ہوئے تھے، جنہوں نے یہاں پر ایجنٹوں کے ذریعے بھاری رشوت کے عوض نادار افسران کی ملکی بھگت سے پہلے شناختی کارڈز بنوائے اور اس کے بعد انہوں نے ان شناخت کارڈز پر پاسپورٹ آفس کے کرپٹ افسران کے ذریعے پاسپورٹ حاصل کئے اور بعد ازاں ایجنٹوں کے ذریعے ان پاسپورٹوں پر ویزے لگوائے گئے جس کیلئے انہیں پاکستانی شہری ظاہر کیا گیا۔ ایف آئی اے کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ غیر قانونی طور پر ایرانی شہریوں کے پاکستان آنے کے بعد انہیں قومی شناختی کارڈ ز سے لے کر پاسپورٹ اور برتھ سرٹیفکیٹ بنواکر دینے والا ایک پورا نیٹ ورک سرگرم ہے، جس کے ایجنٹ نادرا اور پاسپورٹ افسران کو بھاری رشوت کے عوض اپنا کام کرواتے ہیں۔ ایف آئی اے کو وفاقی وزارت داخلہ سے بھی یہی ہدایات جاری کی گئیں ہیں کہ ان تمام ایجنٹوں اور سرکاری افسران کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف مقدمات قائم کئے جائیں جس پر عمل در آمد کرتے ہوئے ایک مقدمہ کوئٹہ میں گزشتہ روز درج کردیا گیا تھا۔ تاہم کراچی میں کارروائی کو جمعرات کے روز آگے بڑھایا گیا۔ اس ضمن میں ’’امت‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے ڈائریکٹر ایف آئی اے منیر شیخ نے بتایا کہ ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل میں ایرانی شہریوں کو پاکستانی جعلی دستاویزات بنا کر دینے والوں کیخلاف کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے، جس میں پہلا مقدمہ جمعرات کو درج کرکے 6 نادرا افسران نامزد کئے گئے ہیں جن میں ڈیٹا آپریٹر سے لے کر سپروائزری افسران تک ملزمان شامل ہیں۔ ان میں سے دو کو گرفتار کر کے تفتیش شروع کردی گئی ہے جنہوں نے اہم انکشافات کئے ہیں جبکہ چار مزید افسران کی گرفتاری کیلئے کارروائی جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی شہریوں کو پاسپورٹ جاری کرنے والے پاسپورٹ آفس کے افسران کے خلاف بھی انکوائری شروع کردی گئی ہے اور جلد ہی ان کے خلاف بھی کارروائی میں عمل میں لائی جائے گی۔
ایف آئی اے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ نادرا کے کرپٹ افسران کے خلاف کارروائی جاری ہے، تاہم پاسپورٹ آفس کے ملوث افسران کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جنہوں نے یہ جواز پیش کیا ہے کہ ان کے ادارے کے قوانین کے مطابق جس شہری کے پاس شناختی کارڈ موجود ہے وہ پاسپورٹ بنوانے کا اہل ہے۔ اگر اس کے نادرا شناختی کارڈ کا ڈیٹا پاسپورٹ آفس کے سسٹم میں آرہا ہے تو اسے پاسپورٹ جاری کرنا پاسپورٹ آفس کے افسران کی ذمہ داری ہے۔ اس لئے وہ اس معاملے میں بری الزمہ ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ قوانین کرپٹ افسران کیلئے کرپشن کا ذریعہ ہیں، کیونکہ جب پاکستانی شہری پاسپورٹ بنوانے جاتے ہیں تو انہیں ہر طرح سے تنگ کیا جاتا ہے اور سخت ترین چیکنگ اور تصدیق کی جاتی ہے۔ انہیں خوامخواہ میں مشکوک قرار دے کر ان کے انٹریو لئے جاتے ہیں اور ان سے ہر دستاویزات کی تصدیق مانگی جاتی ہے اور ذرا سا شک ہونے پر ان کے کاغذات پر این ایس یعنی مشکوک نیشنل اسٹیٹس کا اعتراض لگا کر انہیں اسپیشل برانچ کے پاس دھکے لگوائے جاتے ہیں۔ تاہم ایرانی شہریوں کو بغیر کسی حیل و حجت کے پاسپورٹ جاری کردیئے جاتے ہیں۔ ذرائع کے بقول ملوث پاسپورٹ افسران کو حراست میں لے کر اگر مکمل تحقیقات کی جائیں تو اسمگلروں اور جاسوسوں کا مکمل نیٹ ورک سامنے لایا جاسکتا ہے۔
٭٭٭٭٭