مرزا عبدالقدوس
میاں نواز شریف کی احتساب عدالت پیشی کے موقع پر جہاں سینکڑوں کارکنان اور رہنما موجود تھے، وہیں کفن پوش کارکنوں کی بھی ایک تعداد موجود تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے پرجوش کارکنوں اور رہنمائوں میں یہ تاثر پہلے سے ہی موجود تھا کہ نواز شریف کو احتساب عدالت سے سزا سنادی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز (پیر کو) اسلام آباد کورٹ کمپلیکس کے اطراف کے علاوہ اڈیالہ جیل کے ارد گرد بھی لیگی کارکنوں کی بڑی تعداد دس بجے ہی پہنچنا شروع ہو گئی تھی۔ عدالت کا وقت نو بجے کا تھا، لیکن گزشتہ رات سے ہی وزارت داخلہ نے ضلعی انتظامیہ کی مدد سے کورٹ کمپلیکس، جس کے احاطے میں احتساب عدالت موجود ہے، کے گرد سیکورٹی حصار قائم کر دیا تھا۔ خاردار تاروں کی مدد سے عام افراد کا داخلہ دو ڈھائی سو میٹر دور سے ہی بند کر دیا گیا تھا اور انتہائی سخت سیکورٹی حصار بنایا گیا تھا۔ عدالت کے مرکزی گیٹ پر بھی تالا تھا۔ جبکہ ساتھ متصل چھوٹے دروازے پر واک تھرو گیٹ لگا کر صرف کارڈ اور اجازت نامے رکھنے والے افراد کو داخلے کی اجازت تھی۔ میڈیا سے وابستہ کورٹ رپورٹرز جو روزانہ ان عدالتوں کی کارروائی کی رپورٹنگ کرتے ہیں، ان کو بھی روک لیا گیا، جس سے خاصی بدمزگی پیدا ہوئی۔ دھکم پیل میں واک تھرو گیٹ گر گیا اور ایک صحافی بھی گرنے سے بے ہوش ہو گیا، جسے فوری طور پر طبی امداد دی گئی۔
لیگی کارکنوں کی بڑی تعداد صبح سے پرجوش تھی۔ لیکن ساڑھے دس بجے جب رجسٹرار آفس سے فیصلے میں تاخیر کی خبر آئی تو وہ پُرسکون ہو گئے۔ کمپلیکس کے سامنے کھڑا رہنے کے بجائے ادھر ادھر خوش گپیوں اور کھانے پینے میں مصروف ہو گئے۔ شاہد خاقان عباسی، مشاہداللہ خان، سردار مہتاب عباسی، سردار یعقوب ناصر، مرتضیٰ جاوید، عبدالقادر بلوچ سمیت کئی رہنما بھی وہاں موجود تھے، جو نواز شریف کی آمد یعنی ڈھائی بجے تک ہلکی پھلکی گفتگو میں مصروف رہے۔ دوسری جانب پولیس کے الرٹ اہلکار اپنے سروں پر لوہے کے خول چڑھائے اور ہاتھوں میں ڈنڈے لیے کھڑے تھے۔ اسی دوران نواز شریف ڈھائی بجے کے لگ بھگ چالیس گاڑیوں کے جلوس میں کشمیر ہائی وے سے عدالتی احاطے کی طرف مڑے تو وہاں کھڑے لیگی کارکنوں نے حفاظتی حصار توڑ کر آگے جانے کی کوشش کی۔ اس موقع پر سیکورٹی اہلکاروں اور لیگی کارکنوں میں تصادم بھی ہوا۔ پولیس نے آنسو گیس کے گولے فائر کئے، تو لیگی کارکنوں نے جواباً پتھرائو کیا۔ اس دوران نواز شریف کی گاڑیاں آگے بڑھ گئیں تو کارکنان بھی پسپا ہوکر اس مقام سے دور چلے گئے۔
عدالتی احاطے کے اردگرد انتظامیہ نے دفعہ 144 کا نفاذ کر رکھا تھا۔ ایک ہزار پولیس اہلکاروں کے علاوہ رینجرز کو بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے طلب کر کے الرٹ رکھا گیا۔ واٹر کینن، خواتین سیکورٹی فورس کے علاوہ بم ڈسپوزل اسکواڈ، ایلیٹ فورس اور دو بکتر بند گاڑیاں بھی احاطہ عدالت میں صبح سے موجود تھیں۔ عام سائلین کو احاطہ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں تھی، جس کے سبب اکثر عدالتوں میں کیسز التوا کا شکار ہو گئے۔ وکلا کو احاطہ عدالت میں داخل ہونے کے لیے کافی مشکلات پیش آئیں۔ البتہ جاوید ہاشمی، پرویز رشید اور مریم اورنگزیب نو بجے ہی احاطہ عدالت میں داخل ہوکر کمرہ عدالت میں بھی پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ان کے بعد آنے والی لیگی رہنمائوں کو اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں ملی۔ نواز شریف چک شہزاد میں سابق سینیٹر عباس آفریدی کے فارم ہائوس پر موجود تھے، جہاں انہوں نے اپنے وکیل خواجہ حارث سے طویل قانونی مشاورت کی۔ حمزہ شہباز بھی وہیں موجود تھے، جو بعد ازاں نواز شریف کی گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے انہیں لے کر عدالت پہنچے۔
نواز شریف تقریباً سوا دو بجے فارم ہائوس سے نکلے اور آٹھ دس کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے ڈھائی بجے کشمیر ہائی وے کے دائیں جانب کورٹ کمپلیکس کی طرف مڑے۔ یہیں پر پولیس اور لیگی کارکن پہلے گتھم گتھا ہوئے۔ پھر آنسو گیس اور پتھرائو کا استعمال ہوا۔ ایک موقع پر سابق وزیر اعلیٰ صوبہ خیبرپختون سے سینیٹر صابر شاہ جن کو نیب نے نوٹس جاری کر رکھا ہے اور پولیس کے درمیان جھڑپ ہوئی۔ صابر شاہ نے آگے بڑھنے کی کوشش کی، لیکن پولیس نے اس کی اجازت نہیں دی۔ چونکہ عدالت کے فیصلے کا وقت صبح ساڑھے نو بجے، موخر کر دیا گیا تھا، اس لیے نواز شریف کو پیغام پہنچا دیا گیا کہ وہ ابھی عدالت نہ آئیں۔ بعض ذرائع کے مطابق سیکورٹی حکام نے نواز شریف کو عدالت آنے کے لیے کلیئرنس نہیں دی تھی۔ اس لیے عدالت سے استدعا کی گئی کہ وہ فیصلہ سنانے کا وقت آگے بڑھائے۔ اس لیے جب نواز شریف دو بج کر پینتیس منٹ پر کمرہ عدالت پہنچے تو عدالت نے بلا تاخیر فیصلہ سنا دیا۔ عدالت کے اندر موجود افراد کے مطابق معزز جج نے پہلے فلیگ شپ ریفرنس کا فیصلہ سنایا، جس میں سابق وزیر اعظم کو بری کر دیا گیا اور اگلے ہی لمحے العزیزیہ کیس میں انہیں سزا سنا دی گئی۔ فیصلہ سنائے جانے کے بعد پرویز رشید اور مریم اورنگزیب سمیت کئی لیگی رہنمائوں کے آنسو نکل آئے۔ نواز شریف نے معزز عدالت سے استدعا کی کہ ان کا گھر اور خاندان چونکہ لاہور میں ہے، اس لیے انہیں کوٹ لکھپت جیل میں رکھا جائے۔ عدالت نے اس درخواست پر فیصلہ کچھ دیر بعد سنایا اور نیب حکام کو انہیں لاہور جیل میں رکھنے کا حکم دیا۔ نیب کی پندرہ رکنی ٹیم بھی صبح سے کمرہ عدالت میں موجود تھی، تاکہ سزا سنائے جانے کی صورت میں نواز شریف کو گرفتار کیا جا سکے اور یہ مرحلہ تقریباً پونے تین بجے سہ پہر آیا جب احتساب عدالت نمبر دو کے جج ارشد ملک نے فیصلہ سنایا اور نیب حکام کو سابق وزیر اعظم کو گرفتار کرنے کی اجازت دے دی۔
میان نواز شریف کی کورٹ کمپلیکس آنے کے موقع پر لیگی کارکنوں نے ’’وزیر اعظم نواز شریف‘‘، ’’ووٹ کو عزت دو‘‘، ’’نواز شریف شہباز شریف کو انصاف دو‘‘ کے نعرے بھی لگائے۔ نعرے لگانے والے سینکڑوں کارکنان میں چند کفن پوش کارکن بھی موجود تھے۔ انہوں نے نواز شریف کی رہائی کے لیے تحریک چلانے اور ہر قسم کی قربانی دینے کا عزم کیا۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سمیت لیگی رہنما جو نواز شریف کی آمد سے پہلے ہلکی پھلکی گفتگو میں مصروف تھے، عدالتی فیصلہ آنے کے بعد خاصے رنجیدہ نظر آئے اور جارحانہ لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے اس فیصلے پر شدید تنقید کی۔ اس موقع پر ان سے صحافیوں نے یہ دلچسپ سوال بھی کیا کہ انہیں فلیگ شپ ریفرنس کا فیصلہ نامنظور ہے یا وہ العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ منظور کرنے سے انکاری ہیں۔ شاہد خاقان عباسی اس کا جواب نہ دے سکے۔ یاد رہے کہ ان دونوں کیسز کا فیصلہ ایک ساتھ سنایا گیا۔ فلیگ شپ کیس میں نواز شریف کو بری قرار دیا گیا۔ جبکہ دوسرے کیس میں بھی ان کے ناقدین کے مطابق انہیں ہلکی سزا دی گئی ہے۔
٭٭٭٭٭