400جعلی درآمد کمپنیوں کے بے نامی اکائونٹس سے20ارب باہر منتقل
کراچی( رپورٹ :عمران خان )منی لانڈرنگ اور حوالہ ہنڈی کا ایک اور میگا اسکینڈل سامنے آگیا۔400سےزائد جعلی درآمدی کمپنیوں کے بے نامی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے 20ارب روپے کا قیمتی زرمبادلہ گزشتہ تین برسوں میں بیرون ملک منتقل کردیا گیا۔نجی بینک، کلیئرنگ ایجنٹ،منی چینجرز ،ایف بی آر افسران ملوث نکلے۔کراچی اور لاہور کے بڑے منی چینجرز نے نیٹ ورک کے ذریعے کروڑوں ڈالرز دبئی منتقل کروائے ۔ایف آئی اے پنجاب زون نے معاملہ سامنے آنے پر تحقیقات شروع کردیں۔ چیف کلکٹر کسٹم ساؤتھ اور چیف کلکٹر کسٹم پریونٹو کو کمپنیوں کے ناموں ،بینک اکاؤنٹس اور ان کی جانب سے 2016سے 2018کے دوران منگوائی گئی 1200سے زائد کنسائنمنٹس کے نمبرز ارسال کرکے ڈیٹا طلب کرلیا گیا ۔زرمبادلہ منتقلی کے لئے الائیڈ بینک ،مسلم کمرشل بینک اور دیگر کی برانچوں کو استعمال کیا جاتا رہا زیادہ تر لاہور کی برانچیں استعمال کی گئیں، جبکہ حبیب بینک کراچی کی برانچوں سے بھی 18مشکوک بینک اکاؤنٹس کے ذریعے پہلے رقوم لاہور کے بینک اکاؤنٹس میں بھجوائی گئیں، جہاں سے یہ رقوم جعلی درآمدی دستاویزات کے ذریعے دبئی میں قائم کردہ ایل ایل سی رجسٹرڈ کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں فارن کرنسی میں منتقل کی جاتی رہیں۔’’امت‘‘ کو ذرائع سے حاصل ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے پنجاب زون کے ڈائریکٹر کی جانب سے دو تفصیلی لیٹرز کسٹم حکام کو ارسال کئے گئے ہیں، جن میں سے ایک لیٹر چیف کلکٹر کسٹم ساؤتھ اپریزمنٹ اور ایک لیٹر چیف کلکٹر کسٹم پریونٹو کو ارسال کیا گیا ہے ان دونوں لیٹرز کے ساتھ گزشتہ تین برسوں میں 400کمپنیوں کی جانب سے در آمد کی جانے والی 1200سے زائد کھیپوں کا ریکارڈ بھی منسلک ہے مذکورہ دستاویزات میں حبیب بینک ،مسلم کمرشل بینک ،الائیڈ بینک او دیگر بینکوں کے لاہور کے 400سے زائد اکاؤنٹ نمبرز بھی موجود ہیں اور درآمدی کمپنیوں کی وی بوک آئی ڈیز کے نمبر بھی درج ہیں ان لیٹرز کے ذریعے دونوں کسٹم حکام سے مذکورہ کمپنیوں کی جانب سے کی جانے والی درآمدات اور ان کے کلیئرنگ ایجنٹوں کا تفصیلی ڈیٹا طلب کیا گیا ہے، جن پر تین برسوں میں 20ارب روپے سے زائد کا قیمتی زر مبادلہ جعلی درآمد کی مد میں بیرون ملک بھجوائے جانے کے الزامات ہیں۔ایف آئی اے کے معتبر ذرائع کے بقول یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا، جب حالیہ دنوں میں اسٹیٹ بینک کے مانیٹرنگ سیل کی جانب سے بھاری مالیت کی ایک مشکوک بینک ٹرانزیکشن پر ایک رپورٹ جاری کی گئی، جس پر ایف آئی اے لاہور میں ایک انکوائری شروع کرکے اس پر تحقیقات کی گئیں تو انکشاف ہوا کہ کراچی کے ایک بینک اکاؤنٹ سے لاہور کے ایک بینک اکاؤنٹ میں بھجوائی جانے والی خطیر رقوم کو فارن کرنسی کی صورت میں دبئی میں رجسٹرڈ کمپنیوں کو بھجوایا جا رہا تھا یہ رقم بیرون ملک بھجوانے کے لئے امپورٹ کمپنیوں کی جانب سے برآمد کردہ سامان کی دستاویزات بینکوں میں جمع کروائی جا رہی تھی اس پر مزید تحقیقات کی گئیں تو انکشاف ہوا کہ یہ صرف کچھ بینک اکاؤنٹس نہیں ہیں بلکہ ان کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور یہ کام گزشتہ تین برسوں میں تیز ہوا ہے،اس پر مزید معلومات حاصل کی گئیں تو ایک پورا نیٹ ورک نکل کر سامنے آگیا ،ایف آئی اے ذرائع کے بقول اب تک کی تحقیقات میں معلوم ہواہے کہ اس نیٹ ورک میں جعلی کمپنیاں رجسٹرڈ کروانے والے کلیئرنگ ایجنٹ ،نجی بینک ،ایف بی آر اور کسٹم افسران کے علاوہ کراچی اور لاہور کے بڑے منی چینجرز شامل ہیں جنہوں نے قیمتی زر مبادلہ بیرون ملک منتقل کرنے کے لئے ایک انتہائی پیچیدہ اور نیا طریقہ وار ایجاد کیا اس پر عمل کرکے سینکڑوں کرپٹ افسران ،سیاستدانوں ،بیوروکریٹس اور تاجروں کا لا دھن بیرون ملک منتقل کرتے رہے ۔ایف آئی اے ذرائع کے بقول آئندہ آنے والے دنوں میں اس اسکینڈل کی باز گشت ایوانوں میں سنائی دے گی اس پر تیزی سے کام جاری ہے ،اب تک کی تحقیقات میں جو طریقہ واردات سامنے آیا ہے اس کے مطابق چین سے کپڑے سمیت دیگر خام مال کے کنٹینرز بک کروانے کے لئے جانے والے تاجر اپنے مال کی قیمت چینی تاجروں کو حوالہ کے ذریعے بھجوائی جانے والی رقوم کے ذریعے ادا کردیتے ہیں تاہم انہیں اپنا سامان پاکستان بھجوانے اور اسے کلیئر کروانے کے لئے ایسے کلیئرنگ ایجنٹوں کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ فوری طور پر نا صرف رجسٹرڈ اور وی بوک آئی ڈی رکھنے والے امپورٹ کمپنی کی سہولت فراہم کردیتے ہیں بلکہ تمام کنٹینرز ایک لاکھ روپے فی کنٹینرزکمیشن کے حساب سے کلیئر کرنے کی ضمانت بھی دیتے ہیں ان میں کراچی اورلاہور کے کلیئرنگ ایجنٹوں کی بڑی تعداد شامل ہے یہ کلیئرنگ ایجنٹ چین میں سامان کی خریداری کرنے والے تاجروں کے رابطہ کرنے پر انہیں ایک سے دو دن کے اندر ایسی امپورٹ کمپنیوں کے کوائف ارسال کردیتے ہیں جو کہ ایف بی آر ،کسٹم اور ایس ای سی پی میں مینو فیکچرنگ یونٹ کے طور پر رجسٹرڈ ہوتی ہیں تاہم اصل میں ان کمپنیوں وجود نہیں ہوتا یہ صرف کاغذوں میں ہی چلائی جاتی ہیں ایسی کمپنیاں کلیئرنگ ایجنٹ ایف بی آر کے افسران کے ساتھ ملی بھگت کرکے رجسٹرڈ کرواتے ہیں اور دنوں کے اندر ان کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس کھلوانے کے علاوہ امپورٹ کے لئے ان کی وی بوک آئی ڈیز بھی بنوالی جاتی ہیں ایسی جعلی کمپنیوں کو زیادہ سے زیادہ ایک سے دو ماہ تک چلایا جاتا ہے اس دوران ان کے کوائف استعمال کرکے 200سے 250تک کنٹینرز منگوا لئے جاتے ہیں اس کے بعد یہ کمپنیاں غیر فعال کردی جاتی ہیں اور نئی کمپنیاں رجسٹرڈ کروالی جاتی ہیں ،ان کمپنیوں کی خرید وفروخت پر کمپنیاں رجسٹرڈ کروانے والے ایجنٹوں اور ایف بی آر اہلکاروں کو ہر کنٹینر پر 30ہزار روپے ملتے رہتے ہیں، چین میں سامان خریدنے والے تاجر سامان کو شپنگ کمپنیوں کے حوالے کرنے کے بعد ان کی دستاویزات کراچی یا لاہور میں موجود کلیئرنگ ایجنٹوں کو بھجوادیتے ہیں جہاں پر یہ کلیئرنگ ایجنٹ جعلی امپورٹ کمپنیوں کے نام پر ڈیوٹی اور ٹیکس ادا کرکے یہ سامان کسٹم سے کلیئر کروالیتے ہیں ،تاہم اسی دوران حوالہ اور ہنڈی کے علاوہ منی لانڈرنگ مافیا کا کردار اس نیٹ ورک میں شروع ہوجاتا ہے چونکہ چین سے سامان خریدنے والے تاجر پہلے ہی اپنے سامان کی قیمت چینی تاجروں کو ادا کردیتے ہیں اس لئے کلیئرنگ ایجنٹوں کی جانب سے ان کا سامان کلیئر ہونے کے بعد وہ اپنا سامان گوداموں اور مارکیٹوں میں منتقل کردیتے ہیں ایجنٹوں کا کمیشن ادا کرنے کے بعد ان دونوں کا رابطہ ختم ہوجاتا ہے اس کے بعد کراچی اور لاہور کے بڑے ایکسچینج کمپنیوں کے مالکان اور ڈائریکٹرز جنہوں نے اپنے کلائنٹس کے لئے زر مبادلہ بیرون ملک منتقل کرانا ہوتا ہے وہ ان کلیئرنگ ایجنٹوں سے رابطہ کرتے ہیں جس کے لئے یہ کلیئرنگ ایجنٹ چین سے سامان خرید کر آنے والے تاجروں کی جانب سے بھیجی جانے والی دستاویزات اور جعلی امپورٹ کمپنیوں کے کوائف پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے بیرون ملک سے سامان منگوایا ہے اور اب انہوں نے بیرون ملک اس کی ادائیگی کرنی ہے اور اس طرح ان کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس کے ذریعے جعلی امپورٹ کے کاغذات پر نجی بینکوں کے ذریعے ایک بار پھر قیمتی زر مبادلہ بیرون ملک بھجوادیا جاتا ہے اس طرح سے بیرون ملک سے خریدے گئے سامان کی مد میں دو بار قیمتی زر مبادلہ بیرون ملک بھجوادیا جاتا ہے ایک بار وہ تاجر یہ رقم خود بھجواتا ہے جو کہ بیرون ملک سے سامان خرید کرآتا ہے اور دوسری بار اسی سامان کی دستاویزات استعمال کرکے ایجنٹ مافیا منی چینجرز کی رقم بیرون ملک منتقل کردیتے ہیں ۔ایف آئی اے ذرائع کے بقول اس اسکینڈل پر تحقیقات کے لئے ایف آئی اے لاہور کی تین رکنی ٹیم کراچی پہنچ گئی ہے جس نے کراچی میں ایف آئی اے کے دو افسران کے ساتھ مشترکہ طور پر کام شروع کردیا ہے اس کے لئے سب سے پہلے حبیب بینک ،الائیڈ بینک ، اور مسلم کمرشل بینک کی انتظامیہ سے رابطہ کرکے ان مشکوک اور بے نامی اکاؤنٹس کی ٹرانزیکشنز اور ان اکاؤنٹس کا ڈیٹا حاصل کیا جا رہا ہے تاکہ تحقیقات کو مزید آگے وسعت دے کر اصل ملزمان تک پہنچا جاسکے۔ایف آئی اے ذرائع کے مطابق اب تک اس حوالہ اور منی لانڈرنگ کے حجم کا اندازہ 20ارب روپے تک لگایا گیا ہے تاہم اس میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے جبکہ کسٹم اور ایف بی آر کے متعلقہ شعبوں کی جانب سے بھی ریکارڈ کی فراہمی میں تاخیر کی جا رہی ہے جس سے معاملہ مزید مشکوک ہوگیا ہے کیونکہ عام حالات میں کسٹم کی وی بوک آئی ڈی بنانے کے لئے قانونی طور پر شفاف کام کرنے والی کمپنیوں سے درجنوں قسم کی دستاویزات اور سرٹیفکیٹ طلب کئے جاتے ہیں اور پیچیدہ ویریفکیشن کے عمل کے بعد ان کی امپور ٹ کے لئے وی بوک آئی ڈیز کی منظوری دی جاتی ہے تاہم جعلی کمپنیوں کی رجسٹریشن دھڑا دھڑ ہوجاتی ہے ایک اطلاع کے مطابق گزشتہ عرصے میں کمپنیوں کی رجسٹریشن میں 65فیصد کا اضافہ ہوا ہے جوکہ انتہائی مشکوک ریکارڈ ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ملک معاشی طور پر بحران کا شکار ہے کیونکہ کمپنیوں کی رجسٹریشن میں اس غیر معمولی اضافے کا واضح مطلب ہے کہ کاروبار میں اضافہ ہورہا ہے جوکہ معاشی خوشحالی کا سبب بنتا ہے جبکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ ملک میں زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہوئے ہیں جو کہ جعلی کمپنیوں کی رجسٹریشن اور ان کے ذریعے حوالہ اور منی لانڈرنگ کا واضح ثبوت ہے۔