عباس ثاقب
اعصابی کشیدگی بڑھنے پر بالآخر میں نے اونگھنے کا ناٹک کیا۔ لیکن پھر سچ مچ میری آنکھ لگ گئی۔ ظہیر نے دھیرے سے جگایا تو دیکھا سورج مغرب کی طرف جھکنے میں ابھی دیر تھی۔ تاہم ظہیر پہلے ہی پوری طرح تیار نظر آیا۔ یاسر بھی وہاں موجود تھا۔ میں منہ ہاتھ دھوکر واپس آیا تو اس نے بتایا ’’میں نے منڈی گوبند گڑھ میں گودام سے ملحق اپنے مکان کو مہمان خواتین کے قیام کے لیے بالکل تیار کروا دیا ہے۔ وہاں ایک خادمہ چوبیس گھنٹے موجود رہے گی۔ ان دونوں کی کشمیر منتقلی کے لیے آپ اطمینان سے ناصر کے ساتھ مل کر پروگرام بنا لینا‘‘۔
میں نے پوچھا ’’اس کا مطلب ہے ہمیں ان دونوں کو یہاں لانے کے بجائے منڈی گوبند گڑھ لے کر جانا ہوگا؟‘‘۔
میری بات سن کر یاسر نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’وہاں ہمارا اپنا باقاعدہ گھر موجود ہے، جو عموماً خالی ہی رہتا ہے۔ کیونکہ ناصر اکثر اپنے آڑھت خانے کے اوپر بنے کمرے میں ہی سو جاتا ہے ۔ اگر آپ لوگ چاہیں تو یہاں بھی الگ گھر کا بندوبست ہو سکتا ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’نہیں، یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ خصوصاً خدمت گار خاتون کی موجودگی میں وہاں وہ زیادہ مطمئن رہیں گی‘‘۔
ناصر نے کہا۔ ’’آپ کا ٹکیوں والا معاملہ بھی ایک آدھ دن میں مناسب انداز میں طے ہو جائے گا۔ پہلے آپ اصل ذمہ داری کامیابی سے مکمل کرلیں۔ کل صبح میں بھی منڈی گوبند گڑھ آکر آپ لوگوں سے ملوں گا‘‘۔
ہم دونوں نے یاسر کی موجود گی میں ہی اپنے ہتھیاروں کی درست کارکردگی کی جانچ کی اور پھر دونوں ریوالور لوڈ کرلیے۔
سردیوں میں خطہ پنجاب اندھیرے کا کمبل اوڑھنے میں بہت عجلت دکھاتا ہے، لہٰذا ہم مغرب سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہی اپنی منزل کی طرف چل دیئے ۔ گاڑی میں چلا رہا تھا۔ ناصر کی جیپ کارکردگی اور طاقت کے اعتبار سے امر دیپ کی جیپ سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس گاڑی کی سجاوٹ میں آرام و آسائش کا خصوصی اہتمام نمایاں تھا۔ خصوصاً پچھلی نشستوں پر موجود چرمی گدیاں بہت نرم و گداز دکھائی دے رہی تھیں۔
ہم پٹیالے کی حدود میں داخل ہوئے تو دھوپ ڈھلنے لگی تھی۔ مجھے اپنی یاد داشت کے ساتھ اب ظہیر کی رہنمائی بھی میسر تھی۔ چنانچہ بھٹکے بغیر ہم سیدھے مانک کی کوٹھی کے بند پھاٹک کے سامنے پہنچ گئے۔ میں نے بریک لگاتے ہی ہارن بجایا۔ ہارن کی گونج ابھی ماند بھی نہیں پڑی تھی کہ آہنی پھاٹک کے دونوں ستونوں پر نصب قمقمے روشن ہوگئے۔ میری نظریں پھاٹک کی جالیوں سے نظر آنے والے کوٹھی کے سامنے کے کچھ حصے پر جمی ہوئی تھیں۔ کوٹھی کے برآمدے اور احاطے کے قمقمے ابھی روشن نہیں ہوئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ظہیر گہری نظروں سے کوٹھی کی بناوٹ اور محل وقوع کا جائزہ لے رہا ہے۔
اچانک دائیں طرف سے بھاری بھرکم شخص دو نالی شاٹ گن کاندھے سے لٹکائے نمودار ہوا اور پھاٹک کے پاس پہنچ کر اس نے گہری نظروں سے جیپ کا جائزہ لیا۔ میں اسے پہلی نظر میں پہچان چکا تھا۔ یہ وہی ناری نکیتن کا گورکھا چوکیدار تھا۔ میرے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ مانک نے اسے دونوں لڑکیوں کی پہرے داری کے لیے خصوصی طور پر یہاں تعینات کیا ہے۔
گورکھے کی عقابی نظروں نے بھی مجھے پہلی نظر میں پہچان لیا تھا، کیونکہ اس نے چھوٹے دروازے سے باہر نکل کر پوچھ گچھ کیے بغیر پھاٹک کھول دیا۔ اس نے یقیناً مانک کی ہدایت کے مطابق ایسا کیا ہوگا۔ لیکن میرے ساتھ ظہیر کی موجودگی اس کے لیے غیر متوقع رہی ہوگی۔ اس لیے وہ گہری نظروں سے اس کا جائزہ لے رہا تھا۔ جواب میں اسے ظہیر کی طرف سے بھی خشمگیں نظروں کا سامنا کرنا پڑا، جو اسے پہلی بار دیکھ رہا تھا۔
پھاٹک کھلتے ہی میں جیپ چلاتا ہوا اندر لے گیا اور احاطے میں ایک طرف کھڑی کر کے نیچے اتر آیا۔ ظہیر بھی میرے ساتھ تھا۔ میں گورکھے کو مانک کو بلا لانے کا حکم دینے ہی والا تھا کہ برآمدے میں کھلنے والے مرکزی دروازے میں جنبش ہوئی اور وہ مجھے باہر نکلتا نظر آیا۔ وہ تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا میرے پاس پہنچا اور گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔ اس نے ظہیر سے ہاتھ ملاتے ہوئے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔
میں نے اپنے لہجے میں رعونت کا تاثر بھرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ گوتم ادھیکاری ہیں۔ عہدے کے اعتبار سے ہمارے فنانس منیجر، لیکن دراصل میرے جگری یار ہیں۔ اتنی بھاری رقم کے ساتھ تنہا آنے کی پتا جی سے اجازت لینے کے لیے گوتم کو باڈی گارڈ بناکر لانا پڑا‘‘۔
ظہیر نے مصافحہ کرتے ہوئے مانک کا ہاتھ غالباً کچھ زیادہ ہی زور سے بھینچ ڈالا تھا۔ مجھے اس کے چہرے پر کرب کے آثار دکھائی دیئے۔ ظہیر نے اس کا ہاتھ گرفت میں رکھتے ہوئے کہا۔ ’’تم سے ملنے کا بہت ارمان تھا مانک جی۔ سنا تھا نفع نقصان ہر کاروبار کا حصہ ہوتا ہے۔ شکر ہے، ایسے بیوپاری کا دیدار بھی نصیب ہوگیا جو کبھی گھاٹا نہیں کھاتا‘‘۔
مانک کو ظہیر کے طنزیہ لہجے میں پنہاں نفرت کا خدا جانے کس حد تک ادراک ہوا، لیکن ذہنی یا جسمانی اذیت کے تحت، وہ بہرحال کسمسایا ضرور تھا۔ میں نے ان کے درمیان پروان چڑھتی دو طرفہ ناپسندیدگی کے بین شکل میں ظاہر ہونے سے پہلے معاملہ اپنے ہاتھ میں لینا مناسب سمجھا۔ ’’مانک جی، کب تک یہاں ٹھنڈ میں کھڑا رکھیں گے۔ اندر چلیں، میں اپنا مال وصول کرنے کے لیے بے تاب ہوں۔ آپ کو بھی اتنے سارے نوٹ گننے میں کافی وقت لگے گا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭