کرپٹ سرکاری افسران400 جعلی درآمدی کمپنیوں کے معاون بنے رہے

0

عمران خان
نجی بینکوں کی ملی بھگت سے 400 جعلی درآمدی کمپنیوں کے اکائونٹس سے 20 ارب روپے کا قیمتی زر مبادلہ بیرون ملک منتقل کرنے کے کیس کی تحقیقات میں ہوشربا انکشافات ہوئے ہیں۔ اس نیٹ ورک کے افراد نہ صرف جعلی درآمدی دستاویزات استعمال کر کے زر مبادلہ بیرون ملک منتقل کر رہے تھے۔ بلکہ گزشتہ تین برس تک کرپٹ کسٹم افسران اور ایف بی آر افسران کی ملی بھگت سے ان جعلی کمپنیوں کی درآمدات سے کروڑوں روپے کا ٹیکس بھی چوری کیا جاتا رہا۔ کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کی چوری کیلئے ایس آر او SRO NO, 492 (I) 2009 کو استعمال کیا گیا۔ ’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق مذکورہ ایس آر او 2009ء میں مقامی ایکسپورٹ کی صنعت کو فروغ دینے کیلئے جاری کیا گیا تھا۔ جس کے تحت مینوفیکچرنگ یونٹس کیلئے در آمد کئے جانے والے خام مال پر حکومت کی جانب سے خصوصی رعایت یعنی سبسڈی دی جاتی ہے۔
اب تک کی تحقیقات میں کسٹم افسران کا یہ کردار سامنے آیا ہے کہ جعلی درآمدی کمپنیوں کے حقیقت میں کوئی بھی مینوفیکچرنگ یونٹ نہیں تھے، بلکہ یہ کمپنیاں صرف کاغذوں میں موجود تھیں۔ جبکہ ایس آر او SRO NO, 492(I)2009 کے تحت رعایت پر مال اس وقت ہی کلیئر کیا جا سکتا ہے، جب کسٹم افسران اس بات کی تصدیق کرلیں کہ جس کمپنی کے نام سامان منگوا کر کلیئر کرایا جا رہا ہے، اس کا واقعتاً مینو فیکچرنگ پلانٹ موجود ہے بھی یا نہیں۔ تاہم تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ ان 400 جعلی کمپنیوں کے نام پر منگوایا گیا اربوں روپے کا سامان ایس آر او SRO NO, 492(I)2009 کے تحت کسٹم اپریزمنٹ ایسٹ کراچی، کسٹم اپریزمنٹ ویسٹ کراچی اور کسٹم اپریزمنٹ پورٹ قاسم سے کرپٹ کسٹم افسران بھاری رشوت کے عوض بغیر تصدیق کئے کلیئر کر دیتے۔ یہی طریقہ لاہور کے ڈرائی پورٹ پر کرپٹ کسٹم اہلکاروں نے اختیار کیا ہوا ہے۔ جبکہ ان کمپنیوں کی وی بوک آئی ڈیز بھی آسانی سے بنا کردے دی جاتی ہیں، تاکہ انہیں ایکٹو مینو فیکچرنگ یونٹس کا اسٹیٹس مل سکے۔ ایف آئی اے لاہور نے کسٹم افسران کا کردار سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات شروع کردی ہیں اور گزشتہ تین برسوں میں فہرست میں موجود 400 جعلی کمپنیوں کے نام پر منگوائے گئے کنسائنمنٹس کو کلیئر کرنے والے کسٹم افسران کی فہرست بھی تیار کی جا رہی ہے۔
دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے پنجاب زون کے ڈائریکٹر کی جانب سے دو تفصیلی لیٹرز کسٹم حکام کو ارسال کئے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک لیٹر چیف کلکٹر کسٹم سائوتھ اپریزمنٹ اور دوسرا لیٹر چیف کلکٹر کسٹم پریونٹو کو ارسال کیا گیا ہے۔ دونوں لیٹرز کے ساتھ گزشتہ تین برس میں 400 کمپنیوں کی جانب سے درآمد کی جانے والی 1200 سے زائد کھیپوں کا ریکارڈ بھی منسلک ہے۔ مذکورہ دستاویزات میں حبیب بینک، مسلم کمرشل بینک، الائیڈ بینک اور دیگر بینکوں کے لاہور کے 400 سے زائد اکائونٹ نمبرز بھی موجود ہیں اور درآمدی کمپنیوں کی وی بوک آئی ڈیز کے نمبر بھی درج ہیں۔ ان لیٹرز کے ذریعے دونوں کسٹم حکام سے مذکورہ کمپنیوں کی جانب سے کی جانے والی درآمدات اور ان کے کلیئرنگ ایجنٹوں کا تفصیلی ڈیٹا طلب کیا گیا ہے، جن پر تین برسوں میں 20 ارب روپے سے زائد کا قیمتی زر مبادلہ جعلی درآمد کی مد میں بیرون ملک بھجوائے جانے کے الزامات ہیں۔ ایف آئی اے کے معتبر ذرائع کے مطابق یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب حالیہ دنوں میں اسٹیٹ بینک کے مانیٹرنگ سیل کی جانب سے بھاری مالیت کی ایک مشکوک بینک ٹرانزیکشن پر ایک رپورٹ جاری کی گئی۔ اس پر ایف آئی اے لاہور میں ایک انکوائری شروع کرکے تحقیقات کی گئیں تو انکشاف ہوا کہ کراچی کے ایک بینک اکائونٹ سے لاہور کے ایک بینک اکائونٹ میں بھجوائی گئی خطیر رقوم کو فارن کرنسی کی صورت میں دبئی میں رجسٹرڈ کمپنیوں کو بھجوایا جا رہا تھا۔ یہ رقم بیرون ملک بھجوانے کیلئے امپورٹ کمپنیوں کی جانب سے برآمد کردہ سامان کی دستاویزات بینکوں میںجمع کروائی جا رہی تھیں۔ اس پر مزید تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ یہ صرف چند بینک اکائونٹس نہیں، بلکہ ان کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور یہ کام گزشتہ تین برسوں میں تیز ہوا ہے۔ اس پر مزید معلومات حاصل کی گئیں تو ایک پورا نیٹ ورک نکل کر سامنے آگیا۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول اب تک کی تحقیقات کے مطابق اس نیٹ ورک میں جعلی کمپنیاں رجسٹرڈ کروانے والے، کلیئرنگ ایجنٹس، نجی بینکس، ایف بی آر اور کسٹم افسران کے علاوہ کراچی اور لاہور کے بڑے منی چینجرز شامل ہیں۔ جنہوں نے قیمتی زر مبادلہ بیرون ملک منتقل کرنے کیلئے ایک انتہائی پیچیدہ اور نیا طریقہ کار ایجاد کیا۔ اس پر عمل کرکے وہ سینکڑوں کرپٹ افسران، سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور تاجروں کا کالا دھن بیرون ملک منتقل کرتے رہے۔
جعلی کمپنیوں کے نام پر فعال مینو فیکچرنگ یونٹس ظاہر کرنے کیلئے ٹیکس چور مافیا نے ایک پلاٹ پر قائم فیکٹری میں ہی ایک کمرہ دوسری کمپنی کے نام پر استعمال کیا جاتا ہے اور ایک ہی ایڈریس پر دونوں کمپنیوں کے نام پر ڈاک کی ترسیل ہوتی ہے۔ اسی سبب متعلقہ اداروں کو شک نہیں ہوتا، جبکہ دونوں کمپنیاں جو سامان منگواتی ہیں وہ بھی ایک ہی ایڈریس پر آتا ہے۔ اس طرح دونوں کمپنیوں کے ساتھ کاروبار کرنے والے یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ ایک ہی کمپنی کا مینو فیکچرنگ یونٹ ہے، جس کے ساتھ وہ کاروبار کر رہے ہیں۔ اسی طرح ایک کمپنی کے پلاٹ پر بنے مینو فیکچرنگ یونٹ کے ایڈریس پر کئی کئی کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں اور ان کی علیحدہ علیحدہ وی بوک آئی ڈیز بنی ہوئی ہیں، جس سے وہ درآمد ات کے لئے کام کرسکتی ہیں۔
ذرائع کے بقول تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ چین سے کپڑے سمیت دیگر خام مال کے کنٹینرز بک کرانے کیلئے جانے والے تاجر اپنے مال کی قیمت چینی تاجروں کو حوالہ کے ذریعے بھجوائی جانے والی رقوم کے ذریعے ادا کردیتے ہیں۔ تاہم انہیں اپنا سامان پاکستان بھجوانے اور اسے کلیئر کرانے کیلئے ایسے کلیئرنگ ایجنٹوں کی ضرورت ہوتی ہے، جو فوری طور پر نہ صرف رجسٹرڈ اور وی بوک آئی ڈی رکھنے والے امپورٹ کمپنی کی سہولت فراہم کرتے ہوں بلکہ تمام کنٹینرز ایک لاکھ روپے فی کنٹینرز کمیشن کے حساب سے کلیئر کرنے کی ضمانت بھی دیتے ہوں۔ ان میں کراچی اور لاہور کے کلیئرنگ ایجنٹوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ یہ کلیئرنگ ایجنٹ چین میں سامان کی خریداری کرنے والے تاجروں کے رابطہ کرنے پر انہیں ایک سے دو دن کے اندر ایسی امپورٹ کمپنیوں کے کوائف ارسال کردیتے ہیں، جو ایف بی آر، کسٹم اور ایس ای سی پی میں مینو فیکچرنگ یونٹ کے طور پر رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔ تاہم اصل میں ان کمپنیوں کا وجود نہیں ہوتا اور یہ صرف کاغذوں میں ہی چلائی جاتی ہیں۔ ایسی کمپنیاں کلیئرنگ ایجنٹ کے ذریعے ایف بی آر کے افسران کے ساتھ ملی بھگت کرکے رجسٹرڈ کرواتے ہیں اور دنوں کے اندر ان کمپنیوں کے بینک اکائونٹس کھلوانے کے علاوہ امپورٹ کیلئے ان کی وی بوک آئی ڈیز بھی بنوالی جاتی ہیں۔ ایسی جعلی کمپنیوں کو زیادہ سے زیادہ ایک سے دو ماہ تک چلایا جاتا ہے۔ اس دوران ان کے کوائف استعمال کرکے 200 سے 250 تک کنٹینرز منگوا لئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد یہ کمپنیاں غیر فعال کردی جاتی ہیں اور نئی کمپنیاں رجسٹرڈ کروالی جاتی ہیں۔ ان کمپنیوں کی خرید وفروخت پر کمپنیاں رجسٹرڈ کروانے والے ایجنٹوں اور ایف بی آر اہلکاروں کو ہر کنٹینر پر 30 ہزار روپے ملتے رہتے ہیں۔ چین میں سامان خریدنے والے تاجر سامان کو شپنگ کمپنیوں کے حوالے کرنے کے بعد ان کی دستاویزات کراچی یا لاہور میں موجود کلیئرنگ ایجنٹوں کو بھجوادیتے ہیں، جہاں پر یہ کلیئرنگ ایجنٹ جعلی امپورٹ کمپنیوں کے نام پر ڈیوٹی اور ٹیکس ادا کر کے یہ سامان کسٹم سے کلیئر کروالیتے ہیں۔
ذرائع کے بقول گزشتہ دنوں کسٹم حکا م کو اطلاع ملی کہ ایف آئی اے نے اس اسکینڈل پر تحقیقات شروع کردی ہیں۔ جس کے بعد خود کو بچانے کے لئے جعلی کمپنیوں کی آئی ڈیز کسٹم حکام نے خود ہی منسوخ کرنی شروع کردیں۔ تاہم انہیں رجسٹرڈ کرنے والے افسران کو بچا لیا گیا۔ جن کمپنیوں کی ’’یوزرز آئی ڈیز‘‘ منسوخ کی گئی ہیں، ان میں گلوبل ٹیکسٹائل، ہلال ویونگ، اسٹار ٹیکسٹائل، ہنڈا شارع فیصل اور دیگر شامل ہیں۔ یہ کمپنیاں آئی ڈیز کی منسوخی کے بعد نہ تو بیرون ملک سے سامان منگواسکتی ہیں اور نہ ہی اپنا سامان بیرون ملک بھجواسکتی ہیں۔ تاہم ان کمپنیوں کو کسٹم کے کلیئرنس سسٹم ’’وی بوک‘‘ کی یوزر آئی ڈیز جاری کرنے والے کسٹم حکام کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی گئی اور انہیں بچا لیا گیا۔ ذرائع کے بقول کسٹم کے سسٹم سے امپورٹ یا ایکسپورٹ کرنے کیلئے کمپنیوں کو آئی ڈیز بنوانی پڑتی ہیں، جس کے ذریعے کمپنیاں اپنا ’’یوزر نیم‘‘ اور پاس ورڈ استعمال کرکے اپنا سامان امپورٹ کرنے یا ایکسپورٹ کرنے کیلئے کسٹم کے ’’وی بوک سسٹم‘‘ میں گڈز ڈکلریشن یعنی جی ڈیز داخل کرتی ہیں۔ اس کے بعد کسٹم حکام آن لائن سسٹم میں کمپنیوں کی داخل کردہ دستاویزات کی جانچ پڑتال کے بعد ان کے سامان کی فزیکل ایگزامنیشن کرکے کلیئرنس کی اجازت دیتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق کسٹم کی وی بوک سسٹم کی آئی ڈی بنانے کا عمل انتہائی پیچیدہ ہے۔ اس میں کمپنیوں کو اپنی تمام تر درست معلومات اور دستاویزات فراہم کرنی ہوتی ہیں۔ تصدیق کے مراحل مکمل ہونے کے بعد ہی ان کو وی بوک سسٹم کی آئی ڈیز کے یوزر نیم اور پاس ورڈ جاری کئے جاتے ہیں۔ تاہم کچھ ایسے ایجنٹ سرگرم ہیں، جو کمپنیوں کو آسانی سے آئی ڈیز بنا کر دینے کیلئے بھاری رقم وصول کرتے ہیں۔ ان ایجنٹوں کی کسٹم کے متعلقہ شعبے کے افسران سے مضبوط سیٹنگ ہے۔ رشوت دے کر ضروری دستاویزات اور معلومات کے بغیر ہی آئی ڈیز بنادی جاتی ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ مشکوک اور ادھوری معلومات پر بننے والے آئی ڈیز کے ذریعے ہی ٹیکس چوری اور مس ڈکلریشن اور اسمگلنگ کے فراڈ کئے جاتے ہیں۔ جبکہ ایسی آئی ڈیز استعمال کر کے فراڈ کرنے والی کمپنیوں کے خلاف تحقیقات میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ ذرائع سے ملنے والی دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ ایسٹ کراچی کے کلکٹر سعید اکرم کی جانب سے جاری کردہ تحریری فیصلے کے تحت میسرز ایکرس انٹر پرائزرز کمپنی، میسرز عامر انٹر پرائزرز کمپنی، میسرز ثروت ٹریڈرز کمپنی، میسرز یونین انجیئرنگ اینڈ سپلائز کمپنی، میسرز ایکسیلنٹ ڈیجیٹائزنگ کمپنی، میسرز وی ٹریڈ کمپنی، میسرز اویس انٹر پرائزرز، میسرز اسٹون ہنگ لاجسٹک پاکستان کمپنی، میسرز روتھ سلینا انٹرنیشنل کمپنی، میسرز اسٹار ٹیکسٹائل کمپنی، میسرز علی ٹیکسٹائل کمپنی، میسرز مسیح ٹریڈرز کمپنی، میسرز اوشین ٹریڈ کنسرن کمپنی، میسرز گریس ورلڈ انٹر نیشنل کمپنی، میسرز لیئر اینڈ کو کمپنی، میسرز ریمبو انڈسٹریز کمپنی، میسرز فاسٹ سائیڈ ٹریڈرزکمپنی، میسرز ٹیکنو انٹر پرائزرز کمپنی، میسرز ایلسن کارپوریشن کمپنی، میسرز ایم زیڈ ٹریڈنگ کارپوریشن کمپنی، میسرز براق انٹر پرائزرز کمپنی، میسرز ناصف پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی، میسرز ارحم ٹیکسٹائل کمپنی، میسرز ویرجان اینڈ کو کمپنی، میسرز اے کے ڈسٹری بیوٹرزکمپنی، میسرز اے ایس اے انٹر پرائزرز کمپنی، میسرز ثناء کاپوریشن کمپنی، میسرز یونی کیئر پاکستان لمیٹڈ کمپنی، میسرز اسٹار لائٹ انڈسٹریز لمیٹڈ کمپنی، میسرز ون ٹریڈرز کمپنی، میسرز ہلال ویونگ انڈسٹریز کمپنی، میسرز ساغر ایمپیکس کمپنی، میسرز عمار انٹر پرائزرز کمپنی، میسرز بشیر اینڈ سنز کمپنی، میسرز عبدالخالق ٹائر ریٹیلر کمپنی، میسرز جے انٹر پرائزرز پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی، میسرز ہنڈا شارع فیصل اینڈ ڈیفنس ورک شاپ، میسرز زیڈ این ایم انٹر پرائزرز کمپنی، میسرز اے کے ٹی انویسٹمنٹ کمپنی، میسرز روبی انٹر پرائزرز کمپنی، میسرز منہاس برادرز کمپنی، میسرز جرار انٹر پرائزرز کمپنی، میسرزاسماعیل ٹریڈنگ کمپنی، میسرز دی ایکسپرٹ کمپنی، میسرز تھریڈ کنکٹ کمپنی، میسرز گلوبل ٹیکسٹائل کمپنی، میسر ز کموڈیٹی انٹر نیشنل کمپنی، میسرز جی ایم انڈسٹریز، میسرز سوپر نائس سین فوڈ کمپنی اور میسرز ڈے ٹو ڈے ٹریڈ نگ کمپنی شامل ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More