کراچی (اسٹاف رپورٹر) پولیس نےعلی رضا عابدی کیس کے حوالے سے متحدہ دھڑوں میں جنگ چھڑنے سمیت3مختلف پہلوؤں سے تحقیقات شروع کردی ہیں۔ مقتول کے موبائل فون کا ڈیٹا ،زیر استعمال سوشل میڈیا آئی ڈیز کا مواد بھی تحقیقات کا حصہ بنالیا گیا ہے ۔ذرائع کے مطابق تحقیقاتی اداروں کی رائے میں ایم کیو ایم کے تحت محفل میلاد پر دستی بم حملہ ، پی ایس پی کارکناں کے دفتر پر حملے میں 2کارکنوں کی ہلاکت اور غدار وطن الطاف حسین کے قریب سمجھے جانے والے علی رضا عابدی کی ہلاکت اسی کی کڑی ہے ۔پولیس کے مطابق دہشت گردوں نے علی رضا عابدی پر آٹو میٹک پستول سے گولیاں چلائیں اور وہ پہلے سے گھات لگائے ہوئے تھے۔علی رضا عابدی فریئر پولیس اسٹیشن کے پاس واقع اپنے ہوٹل ’’بریانی آف دی سیز‘‘ سے گھر واپس لوٹے تودہشت گردوں نے قریب آکر ان پر فائرنگ کی اور فرار ہوگئے۔ذرائع کے بقول پولیس نے تین مختلف پہلوؤں سے تحقیقات شروع کردی ہے ،ذرائع کے بقول علی رضا عابدی ایم کیو ایم اور پاکستان سرزمین پارٹی کے اتحاد کے مخالف تھے اور ان کو ایم کیو ایم پاکستان میں بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا کہ ان کی ہمدردیاں لندن ٹولے کے ساتھ ہیں ۔3روز قبل گلبہار میں پی ایس پی ٹاؤن آفس پر فائرنگ اور2 کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد علی رضا عابدی کے قتل پر مختلف پہلوؤں سے تحقیقات شروع کردی گئی ہیں، تحقیقات میں ایس ایس پی انویسٹی گیشن ساؤتھ طارق رزاق دھاریجو اور سی آئی ڈی کے افسران شامل ہیں ۔ذرائع کے مطابق تحقیقات میں متحدہ کے دھڑوں میں جنگ چھڑنے سمیت 3پہلوؤں سے تفتیش شروع کر دی ہے اور اس ضمن میں پی ایس پی کے ٹارگٹ کلرز کے حوالے سے بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں، کیونکہ پی ایس پی میں ایم کیو ایم کو چھوڑ کر بہت سے دہشت گرد شامل ہوئے تھے اور یہ واردات پی ایس پی کارکنوں کے قتل کا جواب ہوسکتا ہے ۔کسی کالعدم تنظیم کے علاوہ ایم کیو ایم لندن اور ساؤتھ افریقہ نیٹ ورک کے ملوث ہونے کے پہلوؤں کی بھی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ذرائع کے مطابق علی رضا عابدی کے والد اخلاق عابدی کا کہنا ہے کہ حملہ آور موٹر سائیکل پر سوار تھے۔علی رضا عابدی کی میت پوسٹ مارٹم کیلئے جناح اسپتال منتقل کی گئی ۔ ابتدائی رپورٹ اور ایکسرے نتائج کے مطابق مقتول کو3 گولیاں سر میں، ایک گردن میں اور ایک پیٹ میں لگی۔