عظمت علی رحمانی
کراچی کے ایکسپو سینٹر میں منعقد ہونے والے پانچ روزہ عالمی کتب میلے میں کروڑوں روپے کی کتابیں فروخت ہوئیں۔ سب سے زیادہ توجہ کا مرکز تعلیمی کتب رہیں۔ جبکہ دینی کتابوں اور اردو ادب کے حوالے سے بھی ریکارڈ سیل ہوئی۔ یونیورسٹی لیول کی کتابوں کے کروڑوں روپے کے آرڈر بک کئے گئے۔ پانچ روز کے دوران 6 لاکھ سے زائد افرا د نے کتب میلے میں شرکت کی۔ خواتین اور بچوں کی جانب سے بھی دلچسپی دکھائی گئی۔
کراچی میں ہر برس کی طرح اس سال بھی عالمی کتب میلے کا آغاز 21 دسمبر سے کیاگیا تھا۔ ماضی کے برعکس امسال کتب میلہ 5 روز جاری رہا۔ اس کتب میلے میں ایکسپو سینٹر کے 3 ہالوں میں مجموعی طور پر 330 سے زائد اسٹالز لگائے گئے تھے، جہاں 40 سے 50 فیصد کم داموں میں کتابوں کی فراہمی کی جارہی تھی۔ انٹرنیشنل بک فیئر 2018ء کا انعقاد پاکستان پبلشرز اور بک سیلرز ایسوسی ایشن کی جانب سے کیا گیا تھا۔ کراچی ایکسپو سینٹر میں 21 تا 25 دسمبر تک منعقد رہنے والے میلے میں ایسو سی ایشن کے مطابق 17 ممالک کے تقریباً 40 ناشر اداروں کی کتابیں فروخت کیلئے رکھی گئی تھیں۔ جبکہ پاکستان بھر سے 110 نامور پبلشرز نے بھی اپنے اسٹال لگائے تھے۔21 دسمبر کو سندھ کے وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے عالمی کتب میلے کا افتتاح کیا تھا۔ کتب میلے میں عوامی داخلے کے اوقات کار صبح 10 بجے سے رات 9 بجے تک تھے۔
’’امت‘‘ کی جانب سے کئے گئے سروے کے مطابق عالمی کتب میلے کے 5 روز میں محتاط اندازے کے مطابق 6 لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ عالمی کتب میلے میں نہ صرف پاکستان بھر سے بلکہ ایران، بھارت، ترکی، سنگاپور، چین، ملائیشیا، برطانیہ، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک کے پبلشنگ اداروں کی جانب سے کتابیں رکھی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ میلے میں تمام پبلشرز، ڈسٹری بیوٹرز اور لائبریرینز کے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے سے شہر کے ہر طبقہ فکر کے لوگ باآسانی شریک ہوکر کتابیں خرید رہے تھے۔ ایکسپو سینٹر کے ہال نمبر ایک میں اسکول، کالج، یونیورسٹی اور مدارس کے نصابی کی کتابوں کے اسٹال لگائے گئے تھے۔ اس کے علاوہ دینی کتابوں کے اسٹال بھی لگائے گئے تھے جہاں عوام کا رش کافی زیادہ تھا۔ ہال نمبر 2 میں ادبی کتابوں کے اسٹالز۔ جبکہ ہال نمبر 3 میں انگریزی اور ایجوکیشنل پبلشرز کی زیادہ تعداد تھی۔ اس کے علاوہ تینوں ہالوں میں مختلف اکیڈمیوں اور جماعتوں کی جانب سے اپنی کتابوں کے بھی اسٹال لگا ئے گئے تھے۔ سروے کے مطابق سب سے زیادہ نصابی کتابوں کی خریداری اور بکنگ کی گئی۔ دوسرے نمبر پر اسلامی کتابیں جن میں قرآن کریم، تفاسیر اور احادیث کی کتب کے علاوہ علمائے کرام کی لکھی گئی کتب خریدی گئیں۔ اس کے علاوہ تیسرے نمبر پر اردو ادب کی کتابیں خریدی گئیں۔
آنے والوں میں 60 فیصد شرکا کی تعداد خواتین اور بچوں پر مشتمل تھی جبکہ 40 فیصد مرد شرکا تھے۔ مجموعی طور پر کروڑوں روپے کا بزنس ہوا۔ اس حوالے سے پاکستان پبلشرز اور بک سیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عزیز خالد کا کہنا تھا کہ ’’5 روز میں اردو ادب کی اتنی کتابیں فروخت ہوئی ہیں، جتنی سال بھر میں فروخت نہیں ہوتیں۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ اردو ادب میں لوگوں کا رحجان بڑھے۔ ہم پر امید ہیں کہ لوگ کتاب کی جانب راغب ہورہے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’ایسا کوئی خاص تیار کردہ ڈیٹا نہیں ہے، تاہم اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 5 روز میں کروڑوں روپے کی سیل ہوئی ہے‘‘۔
کتب میلہ میں جہاں عوام کی جانب سے خصوصی شوق و جذبے سے شرکت کی گئی، وہیں پر سیاسی جماعتوں کے رہنما، اعلیٰ حکام اور سماجی رہنما بھی شریک ہوئے۔ گورنرسندھ عمران اسماعیل، متحدہ پاکستان کے ڈپٹی کنوینر عامر خان، ایم کیوایم کے رہنما خواجہ اظہار الحسن، وزیر تعلیم سندھ سید سردار علی شاہ، کمشنر کراچی افتخار شلوانی، پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ اور قمر الزماں کائرہ، جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان، متحدہ کے سابق رہنما ناصر جمال، سابق صوبائی وزیر تعلیم سندھ پیر مظہر الحق، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ممتاز بھٹو، ایم کیو ایم کے رہنما سید سردار احمد، فیصل سبزوار ی، وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی خالدمقبول صدیقی، رابطہ کمیٹی کے رکن شیخ اصلاح الدین، ریجنل ڈائریکٹر کالجز کراچی معشوق بلوچ اور ڈائریکٹر پرائیوٹ کالجز زاہد احمد کے علاوہ روس اور تھائی لینڈ کے قونصل جنرل بھی شریک ہوئے۔