امت رپورٹ
متحدہ کے دھڑوں میں خونریز تصادم کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ لندن ٹولے اور پی ایس پی نے سلیپر سیلز فعال کرنا شروع کردیئے ہیں۔ تحقیقاتی اداروں نے کراچی میں بڑی خونریزی سے بچاؤ کیلئے سیکورٹی ریڈ الرٹ جاری کر دیا ہے۔ 5 سال سے کراچی میں جاری آپریشن کے دوران پکڑے گئے متحدہ کے ٹارگٹ کلرز کے حوالے سے جہاں چھان بین شروع کر دی گئی، وہیں گرفتار اور جیل میں موجود ٹارگٹ کلرز سے بھی پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔ جبکہ ضمانتوں پر رہا دہشت گردوں کو دوبارہ پکڑنے کی تیاری کرلی گئی ہے۔ پولیس کے تفتیشی افسران کا کہنا ہے ک علی رضا عابدی کے قتل میں استعمال ہونے والا پستول 15 روز قبل لیاقت آباد میں احتشام نامی نوجوان کے قتل میں بھی استعمال ہوا تھا۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ گلبہار میں پاک سرزمین پارٹی کے ذمہ داروں کے قتل کا ردعمل دیا گیا ہے۔ کراچی میں اتوار کی شب گلبہار کے علاقے میں پاک سرزمین پارٹی کے دفتر پر حملے میں دو ذمہ دار نعیم اور اظہر مارے گئے تھے۔ واقعے سے ایک دن پہلے بانی متحدہ غدار وطن الطاف حسین کے بیان پر مبنی ویڈیو سامنے آئی تھی۔ الطاف حسین نے کمال گروپ اور متحدہ پاکستان کے دونوں دھڑوں کے رہنماؤں کے حوالے سے کارکنوں کو ہدایات دی تھیں کہ ان کو قتل کر دو اور اگلے روز پی ایس پی کارکنوں کے قتل کا واقعہ سامنے آیا۔ چونکہ لندن قیادت کی واضح ہدایت سامنے آئی تھی، لہٰذا رضویہ تھانے میں پاک سرزمین پارٹی کے دونوں ذمہ داروں کے قتل میں الطاف حسین کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ مقدمہ نمبر 368/18 میں انسداد دہشت گردی ایکٹ، قتل، اقدام قتل اور دیگر دفعات لگائی گئی ہیں۔ کیس میں الطاف حسین کی ایما کے علاوہ متحدہ لندن کے ساؤتھ افریقہ اور بھارتی نیٹ ورک کے ذمہ داروں ندیم احسان، سفیان قاسم، علی رضا اور تراوش کی ہدایت پر کام کرنے والے 6 نامعلوم دہشت گردوں کو نامزد کیا گیا ہے۔ اس مقدمے کا معاملہ ابھی چل رہا تھا کہ منگل کی شب ڈیفنس میں متحدہ کے سابق رہنما اور سابق ایم این اے علی رضا عابدی کو قتل کر دیا گیا۔ تحقیقاتی اداروں نے واقعے کی تفتیش شروع کر دی ہے کہ یہ قتل انتہائی تربیت یافتہ دہشت گردوں نے کیا ہے۔ علی رضا عابدی کی قتل سے قبل مکمل ریکی کی گئی تھی۔ 2005ء میں متحدہ میں شامل ہونے والے علی رضا عابدی اپنے ساتھ سیکورٹی نہیں رکھتے تھے، خود گاڑی چلاتے تھے۔ ان کے گھر پر ایک نجی سیکورٹی گارڈ تھا، جو گاڑی کی آمد پر گیٹ کھولنے لگا تھا۔ ابھی ایک طرف کا دروازہ کھولا ہی کہ پیچھے سے موٹر سائیکل سوار دو دہشت گرد آئے۔ ایک نے اتر کر 30 بور پستول سے فائرنگ کی۔ 7 سیکنڈ میں 6 فائز کئے، نشانہ گردن اور سر کا لیا گیا اور فائرنگ کرکے دہشت گرد فرار ہوگئے۔ پولیس کو جائے وقوعہ سے جو استعمال شدہ خول ملے ان کو فارنسک لیب بھیجا گیا، جہاں ٹیسٹ کے بعد معلوم ہوا کہ اس پستول کو پہلے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ 10 دسمبر 2018ء کو لیاقت آباد میں ایک نوجوان احتشام کو اسی پستول سے قتل کیا گیا تھا۔ مقتول کے موبائل سے ایک عورت کی قابل اعتراض ویڈیو ملی تھی۔ پولیس کے مطابق یہ عورت، عرفان کچھی نامی نوجوان کی سابقہ بیوی تھی اور اس نے عرفان سے شکایت کی تھی۔ عرفان کچھی کی سابقہ بیوی نے پولیس کو بیان میں بتایا کہ عرفان کچھی نے کہا تھا کہ تم فکر نہ کرو، وہ احتشام کو مروادے گا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ عرفان کافی عرصے سے متحدہ میں تھا اور 10 ماہ قبل لیاری میں منتقل ہوگیا تھا۔ وہ جوئے سٹے کا کام کرتا ہے۔ جیل بھی جاچکا ہے۔ شبہ ہے کہ اس نے کرائے کے اجرتی قاتل استعمال کئے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ علی رضا عابدی کے واقع میں ملوث دونوں ملزمان کا طریقہ کار بھی وہی ہے، جبکہ ہتھیار بھی وہی نکلا ہے۔ عرفان، احتشام کے قتل کے بعد سے غائب ہے اور اس کی تلاش جاری ہے۔ دوسری جانب تحقیقاتی اداروں نے آگاہی دی ہے کہ متحدہ لندن کے سلیپر سیل فعال ہو چکے ہیں، جو شہر میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب پاک سرزمین پارٹی کے سیلیپر سیل بھی سرگرم ہورہے ہیں۔ پاک سرزمین پارٹی میں متحدہ لندن اور متحدہ پاکستان کے دونوں دھڑوں کے دہشت گرد شامل ہوئے تھے۔ ان میں کئی مطلوب دہشت گردوں نے خاموشی اختیار کی ہوئی تھی۔ اب جبکہ لندن ٹولہ کھل کر کمال گروپ کے خلاف فعال ہوچکا ہے تو کمال گروپ کے دہشت گرد بھی اس کے مقابلے پر آچکے ہیں۔ تحقیقاتی ادارے آگاہی دے رہے ہیں کہ ’’را‘‘، ’’این ڈی ایس‘‘ اور دیگر بیرونی آقاؤں کی ایما پر غدار وطن الطاف حسین سرگرم ہوچکا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کی اشتعال انگیز ویڈیو چل رہی ہیں اور ہدایات دی جارہی ہیں۔ جبکہ متحدہ لندن کے جنوبی افریقی اور بھارتی نیٹ ورک بھی فعال ہوچکے ہیں۔ سیکورٹی ادارے شہر میں 6 ہفتے کے دوران ہونے والے دہشت گردی کے 6 واقعات میں مماثلت ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان میں کالعدم سندھی و بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں اور کالعدم فرقہ ورانہ تنظیموں کے علاوہ لندن ٹولے کے دہشت گرد ملوث ہیں۔
تحقیقاتی اداروں کے ذرائع کا کہنا ہے کہ الطاف حسین کے خلاف 6 سال بعد قتل کا مقدمہ درج ہوا ہے۔ اس سے قبل 2012ء میں لانڈھی شرافی گوٹھ کے علاقے میں مہاجر قومی موومنٹ کے وائس چیئرمین عاصم قائم خانی اور دیگر رہنماؤں کے قتل کا مقدمہ الطاف حسین کیخلاف درج ہوا تھا۔