امت رپورٹ
ایم کیو ایم کے سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کے قتل سمیت کراچی میں گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران رونما دہشت گردی کے چھ واقعات نے سندھ حکومت کو فکر مند کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق صوبے کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کے بعض حلقے ان سارے معاملات کو ایک سازش کے طور پر دیکھتے ہیں، اور ان کو فکر ہے کہ اگر شہر میں بدامنی کی یہ تازہ لہر نہیں رکتی تو اس کو بنیاد بنا کر صوبے میں گورنر راج کا راستہ ہموار کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ شہر میں امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے بدھ کو وزیر اعلیٰ سندھ کی صدارت میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں بھی دہشت گردی کی پے در پے کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ کراچی میں پچھلے چھ ہفتوں کے دوران چینی قونصل خانے پر اٹیک، ایم کیو ایم پاکستان کی محفل میلاد پر کریکر حملہ، ڈیفنس میں خالی پلاٹ پر کھڑی چھینی گئی کار میں بم دھماکہ، پی ایس پی کے دفتر پر فائرنگ سے دو کارکنوں کی ہلاکت اور علی رضا عابدی کے قتل کی واردات ہوئی۔ وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مکمل خود مختاری دی ہے، لیکن اس کے نتائج سامنے نہیں آ رہے۔
ذرائع کے مطابق شہر میں امن و امان سے متعلق معاملات اور ہائی پروفائل قتل کی واردات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب کراچی میں سندھ رینجرز کے خصوصی اختیارات کی 90 روزہ میعاد اگلے چند دنوں میں پوری ہونے جا رہی ہے۔ اکتوبر کے اوائل میں یہ مدت ختم ہونے پر وفاقی وزارت داخلہ کی منظوری کے بعد صوبائی محکمہ داخلہ نے کراچی میں رینجرز کے خصوصی اختیارات میں مزید 90 روز کی توسیع کی تھی، جو 5 جنوری کو ختم ہو جائے گی۔ اینٹی ٹیرر ازم ایکٹ 1997 کے تحت خصوصی اختیارات ملنے کے بعد سندھ رینجرز کراچی ڈویژن میں جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے خلاف آزادانہ کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ یہ دوسرا موقع ہو گا، جب پی ٹی آئی حکومت اقتدار سنبھالنے کے بعد سندھ رینجرز کے اختیارات میں توسیع کرے گی۔ یاد رہے کہ ماضی میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے دور حکومت کے دوران جب کراچی سمیت سندھ میں وفاقی تحقیقاتی ادارے نیب اور ایف آئی اے متحرک ہوئے تھے تو سندھ حکومت نے رینجرز کو خصوصی اختیارات دینے میں گریز کی پالیسی اختیار کر لی تھی۔ حتیٰ کہ کشیدگی اس حد تک بڑھ جاتی تھی کہ اس دور کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار رینجرز کو سندھ سے واپس بلانے کا انتباہ تک کر دیا کرتے تھے۔ لیکن نون لیگی دور حکومت کے آخری دور میں جب وفاقی تحقیقاتی اداروں کی سندھ میں مداخلت کم ہوئی تو اس کے بعد سے رینجرز کے 90 روزہ اختیارات میں خاموشی سے توسیع کا سلسلہ چل پڑا، جو پی ٹی آئی حکومت کے آنے کے بعد بھی جاری ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ جس طرح ایک بار پھر آصف علی زرداری سمیت پیپلز پارٹی کے دیگر اہم رہنمائوں کے خلاف ایف آئی اے اور نیب کا دائرہ تنگ ہونا شروع ہوا ہے، اس صورت حال میں رینجرز کے خصوصی اختیارات کے معاملے پر صوبے اور وفاق کے درمیان دوبارہ تنائو کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ پی پی کے بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک بار پھر وفاقی تحقیقاتی ادارے سندھ کے امور میں مداخلت کر کے اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے صوبائی حکومت کو اپنے روزمرہ کے امور چلانے میں دشواری کا سامنا ہے۔ قریباً ایک ڈیڑھ ماہ قبل لوکل باڈیز کے صوبائی وزیر سعید غنی بھی اسی قسم کی شکایت کا اظہار کر چکے ہیں۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے مختلف رہنمائوں کے خلاف جاری تحقیقات کے سلسلے میں نیب اور ایف آئی اے کے دوبارہ متحرک ہونے کے بعد اس بات کا امکان بڑھ گیا ہے کہ کراچی میں سندھ رینجرز کے اختیارات میں مزید 90 روزہ توسیع کے معاملے کو ایک بار پھر لٹکانے کی کوشش کی جائے۔ تاہم کراچی میں آنے والی دہشت گردی کی تازہ لہر سندھ حکومت کے لئے ڈس ایڈوانٹیج ہے۔ جبکہ موجودہ صورت حال نے کراچی میں خصوصی اختیارات کے ساتھ رینجرز کی اہمیت بڑھا دی ہے۔
سندھ میں گورنر راج کی خبروں یا افواہوں کے بارے میں پی پی رہنما اگرچہ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ انہیں اس بات کا کوئی خوف نہیں۔ تاہم اپنی نجی محفلوں میں یہ رہنما نہ صرف اس موضوع پر ڈسکس بھی کرتے ہیں، بلکہ فکر مند بھی دکھائی دیتے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اگرچہ کچھ عرصہ قبل سندھ میں گورنر راج کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس سلسلے میں کی جانے والی ساری باتیں بے بنیاد ہیں۔ تاہم شہر اقتدار میں اس حوالے سے اب بھی خبریں چل رہی ہیں۔ اسلام آباد میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری کی جارحانہ تقریر سے ملنے والے اس اشارے کے بعد کہ ان کی گرفتاری کے ردعمل میں سندھ میں امن و امان خراب ہو سکتا ہے، حکومت بھی پس پردہ پی پی قیادت کو بالواسطہ یہ عندیہ دے چکی ہے کہ منی لانڈرنگ اور دیگر کیسز کے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر آصف زرداری کی ممکنہ گرفتاری سے پیچھے نہیں ہٹے گی، اور اگر اس اقدام پر سندھ میں جلائو گھیرائو کی کوشش کی گئی تو پھر گورنر راج کا آپشن استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے بقول وفاقی حکومت کو گورنر راج لگانے کا آئینی اختیار حاصل ہے۔ یعنی یہ کوئی غیر آئینی کام نہیں۔ لیکن عموماً یہ قدم خاص حالات میں اٹھایا جاتا ہے، جب کسی صوبے میں امن و امان کی صورت حال قابو سے باہر ہو جائے، یا ناقص گورننس کے باعث انتظامیہ صوبائی معاملات چلانے میں ناکام رہے۔ تاہم یہ مثال موجود ہے کہ اس قسم کے حالات نہ ہونے کے باوجود 2009ء میں خود اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے پنجاب میں دو ماہ کے لئے گورنر راج لگا دیا تھا۔ لہٰذا آنے والے دنوں میں اگر وفاقی حکومت کی جانب سے اس قسم کا کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو پیپلز پارٹی کے پاس اس پر احتجاج کرنے کا جواز نہیں ہو گا۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم کی ایڈوائس پر آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت صدر صوبے میں گورنر راج لگا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت کو صرف منی لانڈرنگ کیس سے ہی پریشانی نہیں، جس سے متعلق جے آئی ٹی میں آصف زرداری ، فریال تالپور اور بلاول بھٹو کا ذکر آ چکا ہے۔ بلکہ دیگر انکوائریاں بھی پی پی قیادت کے لئے فکر مندی کا باعث ہیں۔ ان میں سندھ کے جنگلات پر قبضے کا کیس بھی شامل ہے، جس کی سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آصف علی زرداری کی ہدایت پر قوانین میں تبدیلی کر کے بڑے پیمانے پر جنگلات کی اراضی من پسند لوگوں کو الاٹ کر دی گئی تھی۔ اس کا سارا ریکارڈ اور تفصیلات سپریم کورٹ کے حوالے کی جا چکی ہیں۔ اسی طرح ایک اور کیس میں ٹیکنیکل بنیادوں پر آصف زرداری کی بریت کے فیصلے کو بھی نیب اسلام آباد ہائی کورٹ میں چینلج کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ دوسری جانب تھر کے لئے خرچ کئے جانے والے اربوں روپے کی شفافیت کے حوالے سے کمیشن بنائے جانے کا امکان ہے۔ ٭
Next Post