کراچی میں ڈکیت ماسیوں کی وارداتیں بڑھ گئیں

0

امت رپورٹ
کراچی میں ڈکیت ماسیوں کی وارداتیں بڑھ گئیں۔ زیادہ وارداتیں شہر کے 22 تھانوں کی حدود میں کی جا رہی ہیں۔ پنجاب کے 13 شہروں سے تعلق رکھنے والی ڈکیت ملازمائوں کے 7 گروپ سرگرم ہیں۔ جن میں مقامی عورتیں اور مرد بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان بڑھتی کارروائیوں کی ایک وجہ ملازمہ کو رکھنے سے قبل اس کے کوائف تھانے میں جمع کرانے اور انکوائری کرانے کی ہدایات کو نظر انداز کرنا ہے تو دوسرا سبب پولیس کے بعض کرپٹ اہلکاروں کی جانب سے ڈکیت گروپوں کی سرپرستی بھی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے کوئی بڑا گروپ نہیں پکڑا گیا اور نہ ہی پنجاب میں ان کے آبائی علاقوں میں چھاپے مارے گئے۔ دوسری جانب گلشن اقبال پولیس نے ڈکیت ماسی گروپ کو گرفتار کیا ہے، جس میں شامل عورتوں اور مردوں سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
کراچی میں لوٹ مار کی وارداتیں بڑھنے کے ساتھ ساتھ پوش علاقوں کے بنگلوں میں ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ کلفٹن، ڈیفنس، پی ای سی ایچ ایس، بہادر آباد، سندھی مسلم ہاؤسنگ سوسائٹی، گلشن اقبال، گلستان جوہر، نارتھ ناظم آباد اور شہر کے دیگر علاقوں میں گھروں پر کام کرنے والی ملازمائیں زیادہ تر پنجاب سے تعلق رکھتی ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی بلوچ، کچھی، سرائیکی ملازمائیں بہت کم تعداد میں گھروں میںکام کرتی ہیں۔ جبکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والی ماسیوں کی تعداد لگ بھگ 40 ہزار سے زائد ہے۔ بعض ماسیاں کئی کئی برسوں سے ایک ہی گھر میں کام کر رہی ہیں۔
شہر میں لوٹ مار کرنے والے، ڈکیت بنگلوں میں باآسانی وارداتیں نہیں کرسکتے کہ وہاں سیکورٹی سسٹم (الارم، خفیہ کیمرے) نصب ہوتے ہیں۔ گیٹ پر سیکورٹی گارڈ یا چوکیدار بھی ہوتا ہے۔ لہذا بنگلے میں رسائی گھر کے ملازمین کے ذریعے ممکن ہو سکتی ہے۔ گھروں میں کام کرنے والی ماسیاں یا تو خود وارداتیں کرتی ہیں یا ڈکیتوں کو سہولت فراہم کرتی ہیں کہ گھر کے اندر قیمتی اشیا، نقدی زیورات کہاں رکھے ہیں۔ اندر تک رسائی کس طرح ہوگی اور واردات کرکے فرار کس طرح ہوا جائے گا۔ کراچی میں ماسیوں کی ڈکیتیاں 20 سال قبل زیادہ ہونے لگی تھیں۔ جس کے بعد ہر علاقے کے تھانے میں باقاعدہ ایک فارم رکھا گیا جس میں گھر پر ملازمہ یا ملازم رکھنے سے قبل اس کے کوائف درج کرانا اور اس کی انکوائری کرانا ہے۔ چند تھانے اس حوالے سے سرگرمی دکھا رہے ہیں۔ تاہم باقی تھانوں کے اندر دیگر معاملات کی کی طرح اس فارم کو بھی ’’پیدا گیری‘‘ کا ذریعہ بنالیا گیا ہے۔ جس پر لوگوں نے ملازمائوں کی انکوائری اور کوائف درج کرانا چھوڑ دیا ہے۔ جبکہ بعض متاثرہ افراد کم مالیت کی وارداتوں کی رپورٹ ہی نہیں کراتے۔ لٹنے والے بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ کوشش کی جاتی ہے کہ بنگلے کے قریبی علاقے میں ماسی کا گھر ہو اور ضرورت پڑنے پر اسے بلوایا بھی جاسکے۔ اس کا وقت پر آنا آسان ہو۔ ماسیوں کی اکثریت کاتعلق جنوبی پنجاب کے 13 شہروں علی پور، بہاولپور، بھورے والا، عارف والا، چیچہ وطنی، چینوٹ، فیصل آباد، صادق آباد، رحیم یار خان، خانیوال، سرگودھا اور ملتان کے گاؤں دیہات سے ہوتا ہے اور وہ روزگار کیلئے کراچی آتی ہیں۔ ان کے مرد مزدوری کرتے ہیں، جبکہ وہ گھروں پر کام کرتی ہیں۔ پوش علاقوں میں ماسیاں رکھوانے والی کئی پرانی عورتیں سرگرم ہیں۔ گھر کی مالکن ان سے رابطہ کرتی ہے۔ ان میں ہی بعض جرائم پیشہ گروپوں کے ساتھ کام کرنے والی ماسیاں ہوتی ہیں، جو تربیت یافتہ ہوتی ہیں اور ایک جگہ وارداتیں کر کے دوسرے علاقوں میں منتقل ہوجاتی ہیں۔ ان کے پتے بھی غلط ہوتے ہیں۔ کراچی میں ماسیوں کے یہ گروپ بڑے منظم انداز میں کام کرتے ہیں۔ عین واردات کے وقت مسلح مردوں کو بلوالیا جاتا ہے اور گھنٹوں گھر کا سامان لوٹا جاتا ہے۔ یہ جرائم پیشہ ماسیاں مالکن کو نشہ آور اشیا کھلانے، زہر دینے، قتل کرنے سے بھی نہیں چوکتیں۔
کراچی میں ڈکیت ماسیوں کی وارداتیں تو ہر تھانے کی حدود میں ہوتی ہیں، تاہم زیادہ تر وارداتیں 22 تھانوں کی حدود میں رپورٹ ہوتی ہیں۔ ان تھانوں میں درخشاں، کلفٹن، گذری، بوٹ بیسن، گلشن اقبال، عزیز بھٹی، مبینہ ٹاؤن، ڈیفنس، گلستان جوہر، بہادرآباد، بلوچ کالونی، فیروزآباد، رضویہ، نیو کراچی، نارتھ ناظم آباد، تیموریہ، سر سید ٹاؤن، نیو ٹاؤن، ٹیپو سلطان، محمود آباد، شاہراہ فیصل اور شارع نور جہاں تھانہ شامل ہے۔ ڈیفنس کلفٹن کے مکین تو متعدد بار ڈکیت ماسیوں کے ہاتھوں لٹ چکے ہیں اور اب انہوں نے احتیاطی تدابیر اختیار کرلی ہیں۔ تاہم اس کے باوجود ان کے گھروں لوٹ لیا جاتا ہے۔ کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے نیٹ ورک میں عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں، تاہم ماسی گروپ زیادہ تر عورتیں ہی چلاتی ہیں۔ انہوں نے اپنے ساتھ رشتہ دار یا گاؤں کے ڈکیت اور چور رکھے ہوتے ہیں۔ یہ کرائے پر رہتی ہیں اور گرفتاری کا خطرہ دیکھ کر گھر چھوڑ کر نکل جاتی ہیں۔ پولیس افسران کا کہنا ہے کہ کچی آبادیوں اور جھگی پٹی پر رہنے والی ماسیاں خود واردات میں شامل ہوتی ہیں یا انفارمیشن دینے اور ملزمان کو واردات کے وقت سہولت دینے میں ملوث ہوتی ہیں۔ ان کے کئی گروپ شہر میں سرگرم ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں گزشتہ کئی برسوں سے ڈکیت ماسیوں کے 7 گروپ سرگرم ہیں۔ ان میں گلشن اقبال اور فیڈرل بی ایریا میں وارداتیں کرنے والی جگن ماسی کا گروپ زیادہ فعال ہے۔ اس گروپ میں 17 عورتیں اور 5 مرد شامل ہیں۔ تمام کا تعلق پنجاب کے شہر صادق آباد کے ایک گاؤں سے ہے۔ اس گروپ کی دو عورتیں اکبری اور عارفہ مبینہ ٹاؤن پولیس کے ہاتھوں چند سال قبل پکڑی جاچکی ہیں۔ ان کے خلاف ڈکیٹی کے مقدمات درج ہوئے تھے۔ اس دوران انکشاف ہوا تھا کہ ماسیوں کی سرپرستی بااثر افراد، گینگ سرغنہ اور پولیس کے بعض کرپٹ افسران و اہلکار کرتے ہیں۔ پولیس متاثرہ فیملی کو لوٹ کی اشیا واپس کرکے معاملہ دبانے پر زور یتی ہے۔ دوسرا گروپ یاسمین کا ہے، جس کا تعلق چیچہ وطنی سے ہے۔ اس گروپ میں شامل عورتیں بعض اوقات مردوں کے ساتھ مل کر بھی لوٹ مار کرتی ہیں۔ اس گروپ کے دو ملزمان یونس اور حفیظ کے خلاف 2004ء میں گلشن ، شاہراہ فیصل اور الفلاح میں مقدمات درج ہوئے تھے۔ اس گروپ میں شامل عورتیں ماسیوں کے روپ میں بنگلوں پر ملازمت کرتی ہیں اور موقع دیکھ کر قیمتی اشیا لوٹ کر فرار ہو جاتی ہیں۔ تیسرا گروپ وقار عرف وکی کا ہے، تاہم اسے نسرین نامی عورت چلاتی ہے۔ نیپا چورنگی کے قریب جھگی پٹی میں نسرین گھروں پر ماسیاں لگواتی ہے۔ اس کے گڈاپ ٹاؤن میں تعینات بعض اہلکاروں سے رابطے ہیں۔ نسرین کے گروپ میں وقار سمیت 13 ڈکیت بھی شامل ہیں۔ یہ زیادہ تر وارداتیں سہراب گوٹھ، نارتھ ناظم آباد، نیو کراچی، بہادر آباد میں کرتے ہیں۔ بعض افراد کم تنخواہ دینے کے لالچ میں کچی آبادی کے ایجنٹ عورتوں سے رابط کرتے ہیں، جو چند روز یا ایک دو ماہ کام کر کے گاؤں میں کسی کی بیماری یا موت کا بہانہ بناکر کسی دوسری عورت کو رکھوا کر چلی جاتی ہیں۔ یہ نئی ماسی موقع دیکھ کر مردوں کو بلوا کر واردات کر جاتی ہے۔ چوتھا گروپ نیلم کالونی اور شاہ رسول کالونی میں ساجدہ کا ہے، جو پنجاب کے شہر علی پور سے تعلق رکھتی ہے۔ کراچی میں رہتے ہوئے اسے 25 سال سے زائد عرصہ ہوگیا ہے۔ ساجدہ بنگلوں پر بلوچی اور کچھی عورتیں کام کے لئے فراہم کرتی ہے۔ یہ ڈیفنس، کلفٹن، اختر کالونی اور دیگر اطراف کی آبادیوں میں وارداتیں کراتی ہے۔ اس گروپ کی دو عورتیں بلقیس اور شازیہ درخشاں اور گذری میں کئی بار پکڑی جاچکی ہیں۔ پانچواں گروپ نفیسہ اور چھٹا گروپ آسیہ کا ہے، جو ضلع سینٹرل اور ایسٹ میں سرگرم ہے۔ محمود آباد، بلوچ کالونی، ٹیپو سلطان اور فیروز آباد کے علاقوں میں پروین کا گروپ سرگرم ہے، جو فیصل آباد کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتی ہے۔
دو روز قبل گلشن اقبال کے علاقے میں ماسیوں کا ڈکیت گروپ گھر پر واردات کر رہا تھا۔ ایک ماسی اہلخانہ کو یرغمال بنا کر ساتھیوں کو بلوا چکی تھی، جبکہ ایک ماسی ساتھیوں کے ساتھ اسلحہ لے کر آئی تھی۔ تاہم لوٹ مار کر کے جاتے ہوئے گھر کے دروازے پر پولیس سے سامنا ہوگیا۔ پولیس نے ماسی ممتاز بی بی اور اس کے دو ساتھیوں آصف اور ندیم کو پکڑ لیا۔ اسلحہ اور لوٹا ہوا سامان برآمد کرلیا۔ جبکہ ایک ماسی اور اس کا ساتھی فرار ہوگئے۔ پولیس گرفتار ملزمان سے تفتیش کر رہی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More