پانچ سالہ بچی کے قاتلوں کی گرفتاری میں تاخیر کا خدشہ

0

محمد زبیر خان
ایبٹ آباد میں پانچ سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے ملزمان کی گرفتاری کیلئے پولیس نے کم از کم تیس مشتبہ افراد کے خون کے نمونے حاصل کئے ہیں، جو ڈی این اے ٹیسٹ کیلئے لاہور بھجوا دیئے گئے ہیں۔ صوبہ خیبر پختون میں ایک بھی فارنسک لیبارٹری موجود نہ ہونے کی وجہ سے ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ بچی فریال کی میت کے ہمراہ والد کی غم زدہ تصویر سوشل میڈیا پر آتے ہی عوام شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ننھی فریال کا والد اب تک گم سم ہے۔ وہ یقین کرنے کو تیار نہیں کہ اس کی لاڈلی اب اس دنیا میں نہیں رہی۔
پچیس دسمبر کو خیبر پختون کے ضلع ایبٹ آباد کی تحصیل حویلیاں کے گاؤں کریلہ میں گوہر نامی شخص کی پانچ سالہ بیٹی دن کے وقت غائب ہوگئی اور دوسرے روز صبح اس کی لاش قریبی جنگل سے دستیاب ہوئی۔ واضح رہے کہ کرلہ نامی علاقے میں صرف چالیس سے پچاس کے قریب گھر ہیں۔ مقتولہ بچی کے خاندانی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ 25 دسمبر کو دن کے دو بجے کے قریب پانچ سالہ فریال اس وقت غائب ہوئی جب اس کے دادا معمول کے مطابق اپنے مویشیوں کے باڑے کی طرف گئے تھے۔ فریال بھی اپنے دادا کے جانے کے بعد ان کے پیچھے باہر نکل گئی تھی۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ فریال اپنے دادا کے بہت قریب تھی اور زیادہ وقت ان کے ساتھ ہی گزارتی تھی۔ اگر دادا فریال کو چھوڑ کر کہیں باہر جاتے تو وہ ان کے پیچھے پیچھے چلی جاتی تھی۔ ویسے بھی یہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، جہاں سب ہی آپس میں رشتہ دار ہیں۔ اجنبیت کی کوئی بھی بات نہیں تھی۔ ذرائع کے بقول فریال کے دادا مویشیوں کے باڑے میں معمول کا کام کرکے واپس آئے تو انہوں نے گھر والوں سے فریال کے بارے میں پوچھا۔ اس پر ان کو بتایا گیا کہ وہ تو آپ کے پیچھے گئی ہے۔ مگر انہوں نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ بعدازاں بچی کو اردگرد کے گھروں میں تلاش کیا گیا، مگر وہاں نہ پا کر مقامی اور قریبی علاقوں کی مساجد میں اعلانات کروائے گئے۔ جب شام تک بچی نہ ملی تو پھر حویلیاں تھانے میں رپورٹ درج کروائی گئی۔ بچی کا والد حق نواز جو سرکاری ملازم ہے، اس وقت گھر پر نہیںتھا، بلکہ اپنی ڈیوٹی پر تھا۔ اسے اطلاع دی گئی تو وہ رات ہی کو پہنچ گیا اور اس نے مقامی لوگوں اور پولیس کے ساتھ مل کر تلاش جاری رکھی۔ ذرائع کے مطابق بچی کی لاش دوسرے روز چھبیس دسمبر کی صبح قریبی جنگل سے دستیاب ہوئی۔ فریال کا والد ننھی لاڈلی کی لاش دیکھ کر حواس کھو بیٹھا۔ گزشتہ روز (جمعرات کو) بھی اس کے گھر پر تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا، جہاں حق نواز موجود تو تھا، مگر گم سم بیٹھا ہوا تھا۔ ’’امت‘‘ کے ساتھ مختصر بات چیت کرتے ہوئے حق نواز کا کہنا تھا کہ وہ ابھی تک پوری طرح سمجھ ہی نہیں پایا کہ اس کی بچی کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ علاقہ تو محبتوں والا علاقہ ہے۔ اس میں اس طرح کا کوئی تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ حق نواز کا کہنا تھا کہ فریال اس کی ننھی فرشتہ تھی اور اس کے بعد وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
گزشتہ روز حق نواز کی اپنی بیٹی کی میت کے ساتھ ایک تصویر منظر عام پر آئی تھی، جس میں حق نواز اپنی بیٹی کی میت کی چارپائی کے ساتھ غم زدہ بیٹھا ہوا ہے۔ یہ تصویر سوشل میڈیا پر آتے ہی پورے ملک کے عوام نے قصور کی زینب کی طرح کا احتجاج شروع کر دیا۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’’وہ سوچ رہا ہے کہ اس وقت اس لڑکی کا والد کیا سوچ رہا ہوگا۔ یہ صورتحال کسی سونامی سے زیادہ تباہ کن ہے‘‘۔ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’’جب تک ایسے درندوں کو سر عام نہیں لٹکایا جائے گا اس وقت تک اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے‘‘۔ ایک اور صارف نے کہا کہ ’’پولیس کیا کر رہی ہے اور کہاں ہے‘‘۔
’’امت‘‘ کو پولیس کے ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ضلع ایبٹ آباد کی پولیس اس وقت صرف اسی کیس کی تفتیش کر رہی ہے۔ اب تک پولیس نے چھوٹے سے علاقے سے تیس کے قریب افراد کو اپنی حراست میں رکھا ہوا ہے اور ان کے ڈی این اے کے نمونے لاہور فارنسک لیبارٹری میں بھجوا دیئے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق محسوس ہوتا ہے کہ اس کیس میں بھی پولیس کو صرف ڈی این اے ٹیسٹوں ہی پر انحصار کرنا پڑے گا۔ جبکہ ڈی این اے ٹیسٹوں کے نتائج میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ ملزمان جلد گرفتار نہ ہوئے تو پھر سخت احتجاج بھی ہو سکتا ہے کہ کریلہ سمیت ایبٹ آباد کے لوگ سخت غم و غصے میں ہیں۔ یاد رہے کہ صوبہ خیبر پختون میں کوئی بھی فارنسک لیبارٹری موجود نہیں ہے، جس کی وجہ سے خیبر پختوں پولیس کو اہم کیسوں کے لئے پنجاب میں موجود لاہور فارنسک لیبارٹری پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ عوامی اور سماجی حلقوں نے خیبر پختون پولیس اور صوبے میں فارنسک لبیارٹری کے موجود نہ ہونے پر شدید ترین احتجاج کیا ہے۔ پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وہ 24 گھنٹوں میں ملزمان کو گرفتار کر لیں گے۔
ڈی ایس پی حویلیاں اعجاز نے ’’امت‘‘ کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پر امید ہیں کہ ملزمان کو جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔ پولیس ٹھیک خطوط پر تفتیش کر رہی ہے۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں 25 دسمبر کو بچی کی گمشدگی کی اطلاع ملی تھی اور فوراً ہی ایک پولیس پارٹی موقع پر روانہ کردی گئی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے بچی کی لاش دستیاب ہوئی۔ اس وقت کم از کم تیس افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ لاہور فارنسک لیبارٹری بھجوا دیئے گئے ہیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ انہیں ٹیسٹوں کے نتائج جلد موصول ہوجائیں گے اور کیس بھی جلد نمٹادیا جائے گا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More