خرطوم (امت نیوز)سوڈان بدستور عوامی احتجاج کی زد میں ہے ۔10 روز سے متعدد صوبوں میں ہنگامی حالات کے نفاذ،کرفیو و تعلیمی اداروں کی تعطیلات کا اعلان کر دیا گیا ہے ۔حکام نے نماز جمعہ کے بعد مظاہروں کی قیادت کا اعلان کرنےپر 9 اپوزیشن رہنماؤں کو احتجاج سے قبل ہی گرفتار کر لیا ۔انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ اب تک کوئی گرفتاری نہیں کی گئی۔حکومت کا کہنا ہے کہ ایک ہفتہ کے دوران مظاہروں میں 19افراد ہلاک،219شہری زخمی ہو گئے ۔مظاہرین کے جوابی حملوں میں 187فورسز اہلکار بھی زخمی ہو گئے ہیں ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ بعض ہلاکتیں دکانداروں اور لٹیروں میں جھگڑوں کے دوران ہوئی ہیں ۔ ہلاکتوں کا جائزہ لینے کیلئے فائرنگ کے واقعات کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔اس بات کا تعین کیا جارہا ہے کہ فائرنگ کس نے کی تھی۔سوڈان کے مختلف شہروں میں 19دسمبر کو حکومت کی جانب سے روٹی کی قیمتوں میں 3گنا کے ہوشربا اضافے ، مہنگائی و ابتر معاشی صورتحال کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے ہیں ۔سیکڑوں افراد 1989 سےبرسر اقتدار صدر عمر حسن البشیر کےاستعفیٰ کے مطالبات کے ساتھ سڑکوں پر ہیں۔مظاہرین کا کہنا ہے کہ عمر البشیر کی حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے ملک کے معاشی معاملات خراب تر ہو گئے ہیں ۔ اکتوبر میں سوڈانی پاؤنڈ کی قدر میں بڑی گراوٹ کے باوجود اب تک معاشی سرگرمیوں میں تیزی نہیں آئی ہے۔سوڈانی صدر نے 2روز قبل توڑ پھوڑ کا الزام عائد کرتے ہوئےمظاہرین کو غدار،دراندازو بیرونی ایجنٹ قرار دیا تھا اور کہا کہ لوگوں کو درپیش زندگی کی مشکلات سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے توڑ پھوڑ کی جا رہی ہے۔شرپسند تخریب کاری کرکے سوڈان کے دشمنوں کے لیے کام کررہے ہیں ۔صدر عمر البشیر نے ملک گیر احتجاجی مظاہروں کے بعد وسیع تر اقتصادی اصلاحات متعارف کرانے کے عزم کا اظہار کیا تھا اور ملک کے بینک کاری کے شعبے پر اعتماد بحال کرنے کے لیے حقیقی اقدامات کا وعدہ کیا تھا۔