عباس ثاقب
اندر نظر پڑتے ہی ہمیں اپنے ادا کیے ہوئے نوٹوں والی سرخ پوٹلی سامنے ہی رکھی دکھائی دی۔ ظہیر نے وہ نکال کر میرے حوالے کر دی اور ایک بار پھر تجوری کی طرف متوجہ ہوا۔ میں نے اسے چونکتے دیکھا۔ وہ سیدھا ہوا اور پھر میری طرف متوجہ ہوا۔ ’’جمال بھائی، ذرا قریب آکر غور سے دیکھیں۔ یہاں تو اچھا خاصا خزانہ موجود ہے‘‘۔
اس کی دعوت قبول کرتے ہوئے میں آگے بڑھا اور سچ مچ میری بھی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وہ تجوری اندر سے ہمارے اندازے سے زیادہ کشادہ نکلی۔ سامنے والے درمیانی حصے میں ایک طرف بڑے نوٹوں کی بہت سی گڈیاں ترتیب سے رکھی ہوئی تھیں۔ دوسری طرف زیورات کے کئی چھوٹے بڑے مخملیں ڈبے اوپر نیچے رکھے ہوئے تھے۔ جبکہ کئی گول اور لمبوترے سے ڈبے بھی وہاں موجود تھے، جن میں چوڑیاں اور کنگن رکھے گئے ہوں گے۔ یہی نہیں، تجوری میں کئی خانے بھی بنے ہوئے تھے۔ اللہ جانے ان میںکیا کچھ موجود ہوگا۔
مجھے ظہیر کو کچھ کہنا نہیں پڑا۔ وہ تیزی سے باہر نکلا۔ کچھ ہی دیر بعد واپس لوٹا تو اس کے ہاتھ میں کسی تکیے کا ریشمی غلا ف موجود تھا۔ وہ جلدی جلدی تجوری میں موجود تمام مال و متاع غلاف میں ڈالتا گیا۔ تجوری خالی ہونے پراس نے کنجی گھماکر اسے ایک بار پھر مقفل کیا او اس بڑے سے بغچے کو گردن سے تھامے واپس مڑا۔ ’’چلیں جمال بھائی، کام ہوگیا!‘‘۔
ہمیں واپس آتا دیکھ کر دونوں بہنوں نے گویا اطمینان کا سانس لیا۔ میں نے کہا ’’چلیں جناب، محترمہ جمیلہ کے کارنامے نے یہ جگہ ہمارے لیے پھندا بنادی ہے۔ ہمیں جلد از جلد یہاں سے فرار ہونا ہے‘‘۔
جمیلہ نے ایک بار پھر شرمندگی کا اظہارکیا۔ اس اثنا میں ظہیر مانک کی لاش کی ایک بار پھر تلاشی لے چکا تھا۔ اس کے لباس سے بٹوے کے علاوہ ایک بھرا ہوا پستول بھی برآمد ہوا۔ ظہیر نے مجھے دکھاکر دونوں چیزیں اپنے لباس میں چھپالیں۔
جیپ کی طرف بڑھتے ہوئے ہم چوکنا نظروں سے ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیتے رہے، لیکن کوئی خطرے والی بات نظر میں نہ آئی۔ ظہیر نے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے غور سے دیکھا تو وہاں گورکھا چوکیدار منہ کے بل فرش پر ڈھیر نظر آیا۔ اس تمام عرصے کے دوران میں نے ظہیر کو جس قدر سمجھا تھا، اس مشاہدے کی روشنی میں اس گورکھے کی زندگی کی امید رکھنا بے سود تھا۔ وہ اپنے خلاف کم سے کم چشم دید گواہ چھوڑنے کا قائل تھا۔ لہٰذاریوالور کے دستے کے ساتھ ساتھ اس نے یقیناً شاٹ گن کا بٹ بھی گورکھے کی موٹی کھوپڑی پر بجایا ہوگا۔
دونوں لڑکیوں کو مال غنیمت کے ساتھ جیپ کی عقبی نشتوں پر بٹھانے کے بعد میں نے جیپ کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر انجن اسٹارٹ کر دیا۔ اس دوران میں ظہیر نے آہنی پھاٹک کھول دیا تھا۔ میں جیپ کو ریورس کرکے باہر لایا۔ ظہیر نے پھاٹک کے دونوں پٹ جوڑے اور تیزی سے میرے ساتھ والی سیٹ پر آ بیٹھا۔ اس نے اپنا ریوالور گود میں رکھا ہوا تھا۔ اس دوران میں نے آس پاس کا گہری نظروں سے جائزہ لیا۔ نیم آباد علاقے میں دور دور تک کوئی ہماری نقل و حرکت کا جائزہ لینے والا دکھائی نہ دیا۔
گاڑی جیسے ہی روانہ ہوئی، ظہیر نے باآواز بلند الحمد للہ کہا۔ پٹری پار کر کے شہر کی طرف جانے کے بجائے میں ٹرین کی پٹریوں کے ساتھ ساتھ چلنے والی سڑک پر جیپ دوڑا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد ریلوے کالونی میں سے گزرے۔ اس کے بعد صنعتی علاقہ آگیا۔ کئی کارخانوں کے درمیان بے مقصد چکر لگانے کے بعد ایک پھاٹک سے گزر کر میں ایک بار پھر شہر کی حدود میں داخل ہوگیا۔ اگلے نصف گھنٹے تک میں پٹیالے شہر کی مصروف سڑکوں پر جیپ گھماتا رہا۔ بالآخر قلعہ مبارک کے پاس سے گزرنے کے بعد میں نے جیپ اندازے سے شہر سے باہر جانے والی مصروف سڑک پر ڈال دی۔ میرا رخ بائیں طرف تھا۔
میرا اندازہ تھا کہ ظہیر میری اس بے وقت کی آوارہ گردی کا مقصد سمجھ گیا ہوگا۔ مجھے مایوسی نہیں ہوئی۔ اس نے مطمئن لہجے میں کہا۔ ’’اب فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔ کوئی ماہر سے ماہر کھوجی بھی اب ہمارا سراغ نہیں لگا سکتا۔ ہم آدھے پونے گھنٹے میں راج پور پہنچنے والے ہیں۔ وہاں سے جیپ بائیں طرف جانے والی جی ٹی روڈ پر موڑ لینا۔ اس پر چلتے ہوئے ہم پونے گھنٹے میں سرہند اور سوا گھنٹے میں اپنی منزل، منڈی گوبند گڑھ پہنچ جائیں گے۔ امید ہے ناصر بھٹ نے سارے انتظامات مکمل کرلیے ہوں گے اور وہ بے تابی سے ہمارا انتظار کر رہا ہوگا‘‘۔
ظہیر کی بات سن کر مجھے خوشی ہوئی۔ میں نے محض اندازے سے یہ راستہ پکڑا تھا، جو خوش قسمتی سے بھٹکانے کے بجائے سیدھا منزل کی طرف لے جارہا تھا۔ دونوں لڑکیاں آپس میں باتیں کرتی رہی ہوں گی، لیکن انہوں نے اپنی آواز اتنی دھیمی رکھی تھی کہ ان کی گفتگو ہم تک نہیں پہنچ پائی۔ وہ دونوں یقیناً شدید اعصابی تناؤ کا شکار ہوں گی۔ مانک کی کوٹھی پر ہم جو کچھ کرآئے تھے، اس کے پیش نظر ان کی یہ کیفیت عین فطری تھی۔ طرح طرح کے ہنگاموں سے بار بار نبرد آزما ہونے کا عادی ہونے کے باوجود خود میرے اعصاب بھی کسی قدر کشیدہ تھے۔ شاید ظہیر کی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت رہی ہوگی۔ لیکن راج پور پہنچنے کے بعد میں نے جیسے ہی جیپ جی ٹی روڈ پر گھمائی، ہم دونوں ہی تناؤ سے آزاد ہوتے چلے گئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭