محمد فاروق
لیکن اتنی بات اس جائزہ رپورٹ سے واضح تھی کہ ارکان جماعت نے جماعت کے اندر اخلاقی زوال اور کسی حد تک انتخابی سیاست سے بیزاری یا کم از کم انتخابی دوڑ دھوپ میں جماعت کے زیادہ ملوث ہونے اور تعمیر افکار و کردار کے کام پر توجہ کم ہو جانے کی بات کی تھی۔ جو نتیجہ اس متفقہ رپورٹ سے اخذ کیا گیا تھا، اس میں سید مودودیؒ کی طرف سے اوپر بیان شدہ چار نکاتی لائحہ عمل میں نکتہ نمبر چار، یعنی ’’نظام حکومت کی اصلاح‘‘ کی خاطر جماعت اسلامی کے انتخابی میدان میں کودنے کو ناپسند کیا گیا تھا اور تجویز یہ تھی کہ اس چوتھے نکتے کو یا تو فی الحال بالکل ہی معطل کیا جائے۔ اور بقایا تین نکات پر پوری توجہ سے کام کیا جائے، تاکہ جماعت کے اندر اس کے نصب العین اور مقصد کے مطابق اعلیٰ اخلاق و کردار سازی کا مقصد حاصل کیا جا سکے۔ یا نظام حکومت کی اصلاح کے کام کو دعوت اور بالواسطہ سیاسی سرگرمی تک محدود رکھا جائے اور براہ راست انتخابی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی جائے۔ یہ رپورٹ جب پیش ہوئی تو اس میں ان تجاویز، جن کا اوپر ذکر کیا گیا، کے علاوہ جماعت کی قیادت پر تنقید…، بلکہ آگے بڑھ کر الزامات تک موجود تھے۔ جن میں جماعت کی اعلیٰ قیادت کا اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی کا ذکر تھا۔
اس رپورٹ سے جماعت کے شوریٰ کے ارکان دو واضح گروہوں میں تقسیم ہوئے۔ ایک گروہ کا خیال تھا کہ کوتاہیاں بہت چشم کشا اور بنیادی نوعیت کی ہیں اور ان کا تدارک انتخابی سیاست یا دوسرے الفاظ میں سیاسی کام سے مکمل اجتناب سے ہی ممکن ہے۔ دوسرے گروہ کا خیال یہ تھا کہ بے شک کوتاہیاں بھی ہیں اور جماعت اپنے تربیتی نظام میں کردار سازی کے حوالے سے جو محنت کرتی ہے اس میں خاطر خواہ تشنگی اور کمی بھی واقع ہوئی ہے، مگر اس کا علاج جماعت اسلامی کے درجہ بالا چار نکاتی پروگرام میں کسی کمی بیشی کرنے یا ان نکات میں سے کسی ایک کو معطل کرنے سے ممکن نہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان میں دستور اسلامی کے لیے مسلسل کام نے لائحہ عمل میں پہلے تین نکات پر کما حقہ توجہ نہیں ہونے دی، جس کی وجہ سے پیدا ہونے والی کوتاہی کو پورا کرنے کے لیے اب اس بنیادی کام اور پہلے تین نکات پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
امین احسن اصلاحیؒ اور سید مودویؒ دونوں اس موقع پر پریشان تو تھے، مگر واضح طور پر کسی ایک گروہ کے حق میں اپنی آرا پیش کرنے سے دونوں نے احتراز فرمایا۔ البتہ سید مودودیؒ اس صورت حال سے پریشان تھے اور اسی لیے انہوں نے اپنا استعفیٰ یہ کہہ کر پیش کیا کہ چونکہ جائزہ کمیٹی کی رپورٹ میں ذمہ داری کے تعین میں ان پر تنقید بھی ہوئی ہے اور الزامات بھی لگے ہیں، لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ اس رپورٹ پر کوئی بھی غور و خوض ان کے زیرصدارت نہ ہو۔ اس استعفیٰ کو منظور نہیں کیا گیا اور پوری شوریٰ کی متفقہ رائے یہ تھی کہ رپورٹ میں الزام کسی ایک شخصیت یا چند ذمہ داران کے سر نہیں ڈالا گیا ہے، بلکہ کوتاہیوں کے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ اس لیے کسی ایک شخصیت کا استعفیٰ اس کا نہ کوئی حل ہے نہ تقاضا۔
آخرکار شوریٰ میں اس نزاع کو ختم کرنے اور ایک متفقہ قرارداد کے لیے کوشش شروع ہو گئی اور بالآخر ایک متفقہ قرارداد پر شوریٰ نے ان اصولوں کو سامنے رکھ کر اتفاق کیا کہ اعتدال اور توازن کا وہ راستہ اختیار کیا جائے کہ جس میں لائحہ عمل کے چاروں نکات پر بیک وقت ’’توازن‘‘ کے ساتھ عمل ہو۔ اس قرارداد میں جماعت اسلامی کے بعد از تقسیم کے کام میں انتخابی سیاست کے بظاہر ’’نئے عنصر‘‘ کے شامل ہونے اور جماعت کے سابقہ لٹریچر میں اس کی کوئی بنیاد نہ ہونے کا معاملہ… جو بظاہر بعض اراکین کے لیے باعث اعتراض تھا، یہ کہہ کر حل کیا گیا کہ جماعت اسلامی کے لیے اصل حجت قرآن و سنت ہے۔ اس کے بعد پھر جماعت کا دستور ہے، جس میں شوریٰ، امیر اور ارکان کے فیصلے شامل ہیں، نہ کہ لٹریچر۔ اصلاح احوال کے لیے مناسب تدابیر تجویز کرنے کا اختیار امیر جماعت، امین احسن اصلاحیؒ، نعیم صدیقی اور غلام محمد صاحب کو دیا گیا۔ اس طرح اس مرحلے پر شروع ہونے والا وہ بحران ٹل گیا اور جماعت کے شوریٰ کا اجلاس دعا و درود کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔
بظاہر ایک متفقہ قرارداد پر اہل شوریٰ و امیر جماعت کا اتفاق کرنا اور قرارداد کے اصولوں کے مطابق کام کو آگے بڑھانے کا عزم کرنا ایک خوش آئند بات تھی، جس سے یہ ثبوت فراہم ہوتا تھا کہ اس جماعت کے اندر اخلاص و للہیت کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں، تربیتی نظام نے خوف خدا اور بے غرضی کو دلوں کے اندر اس درجہ راسخ کر دیا ہے کہ بڑے سے بڑا اختلاف رائے بھی ان بزرگوں کے درمیان اعتماد کے رشتوں کو کسی صورت کمزور کروا کر کبھی بحران کی شکل اختیار نہیں ہونے دے گا۔ مگر شومئی قسمت کہ اس موقع پر ایک شدید ترین غلطی…، وہ غلطی جسے میں سیدؒ محترم کی زندگی کی بدترین غلطی شمار کرنے پر مجبور ہوں… وہ خود سید مودودیؒ کی طرف سے ہوئی۔
آگے بڑھنے اور سیدؒ کے اس اقدام پر مزید گفتگو کرنے سے پہلے میں یہاں اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہتا ہوں، تاکہ میرے آئندہ کے اس تجزیئے کو آپ اس ’’مقام‘‘ پر رکھ کر دیکھ سکیں جس کا یہ تجزیہ تقاضا کرتا ہے۔ تم اور تمہارے دوست یہ نہ سمجھیں کہ خانقاہ کا یہ صوفی زادہ… اور ساتھ ہی ایک روایتی مدرسے میں سید مودودیؒ کے دشمنوں کے درمیان دینی تعلیم حاصل کرنے والا معروف معنوں میں یہ مولوی صاحب اپنے اکثر استادوں کے جذبہ ’’مودودی دشمنی‘‘ سے مغلوب ہو کر خدا رسول واسطے سید مودودیؒ کو لتاڑنے اور بے توقیر کرنے کو اپنا دینی فریضہ سمجھتا ہے۔ میں خدا کی ذات پر پناہ مانگتا ہوں، وقت کے علمائے اسلام کی اس خدا بے خوفی ہے، جس میں انہوں نے اس خادم اسلام کو ہر طرح کی اذیت پہنچانے کو اپنا وطیرہ بنایا ہے۔ میرے دل میں اس ہستی کے لیے احترام و جذبات کے تمام پیمانے اس آخری مقام پر ہیں، جہاں کسی انسان کے احترام کی حدود ختم ہوکر مخلوق کے بجائے خالق کے احترام یا اطاعت کا دائرہ شروع ہو جاتا ہے۔
آپ کو معلوم ہے کہ میدانِ تصوف میں اپنے مرشد پر کسی تنقید یا اس کے ساتھ کسی اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہوا کرتی۔ تصوف مرشد کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے تزکیہ نفس اور روحانی بالیدگی کی خاطر بلاچوں اس کے ہر حکم کو ماننے اور دل سے قبول کرنے کا طریقہ ہے۔ تصوف کے طریق میں مرشد کے ساتھ اختلاف کرو گے تو اس کام کی فطرت و نوعیت ہی ایسی ہے کہ مرشد کامل کے فیوض سے کبھی استفادہ نہیں کر سکو گے، اور جیسے اپنے مرشد کے پاس گئے تھے ویسے ہی خالی ہاتھ واپس لوٹو گے۔ علم کا میدان رد و قبول، تنقید و تنقیح، سوال و جواب اور اختلاف و اتفاق کا میدان ہے۔ یہی نہیں علم کی نشو و نما، بلکہ اس کی ’’زندگی‘‘ کا انحصار ہی تنقید کے آزادانہ استعمال پر ہے۔
آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند میں دینی علم کے میدان میں تنقید کے راستے کو نہ صرف مسدود کیا گیا ہے، بلکہ اسے حرام کے درجے پر پہنچایا گیا ہے۔ یہاں یا تو آپ کو مختلف مسالک کے ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑوں کا ایک دل آزار اور کفر و شرک پر مبنی فتوئوں کا ایک پلندہ ملے گا، جس میں تعمیری تنقید نام کی شے کا کوئی وجود نہیں۔ یا ایک مسلک، مثلاً دیوبند یا بریلوی علما کے اپنے درمیان اگر کبھی ایک عالم نے دوسرے کی کسی علمی رائے سے اختلاف کی جرأت کی بھی ہے تو بیک وقت سعادت مند شاگردوں اور عقیدت مند مریدوں نے اپنے شیخ سے اختلاف کی گستاخی کا وہ سبق اختلاف کرنے والے کو سکھایا ہے کہ خدا کی پناہ!
مثلاً آپ اہل دیوبند میں حضرت تھانویؒ کی مثال لے لیں۔ وہ علم کے میدان میں بیک وقت اپنے بے شمار شاگردوں کے استاد محترم ہیں تو تصوف میں یہی ہستی اپنے ہزاروں انہی شاگردوں کے مرشد بھی ہیں۔ اب جہاں علم کے میدان میں تعمیری تنقید جائز بلکہ ضروری ہے، وہاں تصوف میں اس قسم کا کوئی اختلاف قطعاً حرام و ناجائز ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ حضرت تھانویؒ سے کسی علمی اختلاف رائے کرنے والے کو اس کے سعادت مند شاگردوں اور بیک وقت مریدوں نے کبھی معاف نہیں کیا۔ تصوف کے تربیت یافتہ شاگرد نے جو حضرت کے مرید بھی ہیں، یہ تربیت پائی ہے کہ ان کی ذات سے کوئی اختلاف… چاہے علمی ہی کیوں نہ ہو… حرام کے درجے میں ممنوع سمجھتے ہیں۔ پھر تنقید کی یہ غلطی اگر ’’باہر‘‘ کے کسی آدمی، مثلاً سید مودویؒ جیسے اہل علم سے سرزد ہوئی ہو تو اس پر ردعمل کا کیا کہنے…!
دلچسپ بات آپ کو یہ بتائوں کہ تقسیم ہند اور تشکیل پاکستان کے سیاسی مسئلے میں جب خوش قسمتی سے اہل دیوبند میں حضرت تھانویؒ اور شبیر احمد عثمانیؒ جیسی ہستیاں پاکستان بنانے والوں اور قائد اعظمؒ کی ہمنوا بنیں تو دوسری طرف مولانا حسین احمد مدنیؒ اور مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ جیسے حضرات متحدہ ہندوستان کے سیاسی فلسفے کے حامیوں میں شامل ہوئے۔ چونکہ حضرت تھانویؒ کا پلڑہ ہر حیثیت سے بھاری تھا… کہ آپ کی ذات بیک وقت علم اور زہد و تقویٰ کا نمونہ تھی۔ مگر حیرت انگیز طور پر مولانا احمد علی لاہوریؒ نے مولانا حسین احمد مدنیؒ کی ذات کے حوالے سے یہ دعویٰ فرمایا کہ حضرت مدنیؒ تصوف میں اپنے دور کے صوفیا کے رئیس ہیں۔ اس طرح بٹے ہوئے اور سیاسی طور پر تقسیم شدہ اہل دیوبند کے اس حصے کے علما و طلبا کو جو تقسیم ہند کیخلاف تھے، یقین دلایا گیا کہ اگر پاکستان کی مخالفت میں تم لوگ حضرت تھانویؒ جیسی بزرگ ہستی کے سیاسی موقف کی مخالفت پر بھی مجبور ہوتے ہو، تو فکر نہ کرو، تصوف میں حضرت مدنیؒ وقت کے اولیا کے رئیس کے درجے پر فائز ہیں۔ یہ دعویٰ یا مقابلہ دونوں شخصیات کے درمیان ان کے ’’علمی‘‘ مقام و مرتبے کے حوالے سے ممکن نہ تھا۔ کیونکہ علم میں تو حضرت تھانویؒ کا مقام حضرت مدنیؒ کے مقابلے میں بے حد نمایاں تھا۔ مگر تصوف؟ وہاں جاکر تصدیق کون کرے؟ کہ کون کس مقام پر ہے؟
اسی فضا میں یہ سید مودودیؒ کی ذات تھی جس نے علم میں تعمیری تنقید کو رواج دینے کی ابتدا کی اور یہی ان کے منجملہ دوسرے تجدیدی کارناموں میں ایک بڑا کارنامہ ہے۔ لہٰذا ان کی ذات پر تعمیری تنقید خود ان کا سکھایا گیا طریقہ، ان کا دیا گیا حوصلہ اور ان کا اختیار کیا گیا مسلک و راستہ ہے۔ اس سے ان کے بقول نہ تو ان کی توہین کا کوئی پہلو نکلتا ہے، نہ ان کے مقام و مرتبے میں کوئی کمی آتی ہے۔ نہ تنقید کرنے والے کے حق میں یہ بدگمانی لازم آتی ہے کہ وہ تنقید کسی اخلاص یا تعمیری جذبے میں نہیں، ذاتی پرخاش یا بغض و عناد کے جذبے میں کر رہا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post