نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنے کا امکان نہیں

0

مرزا عبدالقدوس
آصف زرداری اور بلاول زرداری کے نام ای سی ایل پر آنے اور گرفتاری کے امکانات کے بعد پی پی پی اس وقت سیاسی تنہائی کا شکار ہے اور نواز لیگ بھی اس کا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں۔ جبکہ موجودہ صورتحال میں پی پی پی عوامی سطح پر احتجاج کرنے کے قابل نہیں۔ اس لئے اس نے اپنی لڑائی میڈیا، قانونی میدان اور اسمبلی و سینیٹ کے فلور پر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان دونوں ایوانوں میں پیپلز پارٹی کے موثر ارکان موجود ہیں، تاہم جے یو آئی، اے این پی اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کی کارروائی میں رخنہ ڈالنے کیلئے اسے مسلم لیگ (ن) کی حمایت بھی حاصل کرنا ضروری ہوگی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق سندھ حکومت کے خاتمے کی باتیں فی الحال قبل از وقت ہیں۔ آنے والے کل میں کیا ہوگا؟ اس بارے میں سو فیصد یقینی بات ممکن نہیں۔ لیکن آصف زرداری اور سندھ کی دیگر چند اہم شخصیات کی گرفتاری کی صورت میں کسی فوری تبدیلی کے امکان کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔
معتبر ذرائع کے مطابق احتساب کے شکنجے میں پھنسی مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی میں فی الحال تعاون کا امکان بہت مشکل ہے۔ اس حوالے سے نواز شریف کو آصف زراری کے علاوہ ان کے بیٹے بلاول کے بارے میں خاصے تحفظات ہیں۔ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے خاتمے اور اس کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کیلئے بنائی گئی جے آئی ٹی کے قیام پر پی پی کے قائدین نے جس والہانہ طریقے سے خوشیاں منائیں اور نواز شریف کو کرپٹ قرار دے کر دانستہ ان سے فاصلہ اختیار کیا، نواز شریف ان واقعات کو بھولے نہیں ہیں۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی ایک معتبر شخصیت نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ گزشتہ ہفتے جب نواز شریف پارلیمنٹ ہائوس میں شہباز شریف سے ملاقات کرنے آئے اور نواز لیگی قیادت کا اجلاس ہوا تو نواز شریف کا آصف زرداری اور ان کے خلاف مقدمات کے حوالے سے موقف واضح تھا۔ پارٹی کے بعض رہنمائوں نے بھی نواز شریف کے موقف کی تائید کی کہ آصف زرداری پر ’’ن‘‘ لیگی دور میں کئی مقدمات بنے۔ آصف زرداری ٹولے نے جی بھر کر لوٹ مار کی، اگر اس موقع پر نواز لیگ نے اگر ان کی حمایت کی پالیسی اپنائی تو پی پی قیادت کے بارے میں اس کے ماضی کا بیانیہ کمزور پڑے گا اور سیاسی نقصان ہوگا۔ اور پھر یہ کہ نجانے کس وقت آصف زرداری ایک تابعدار بچے کی طرح مقتدر قوتوں کی گود میں جا بیٹھیں، کیونکہ ان کے نزدیک عہد و پیمان اور معاہدے وقتی ضرورت کیلئے ہوتے ہیں، نبھانے کیلئے نہیں۔ ان ذرائع کے مطابق نواز لیگ کی قیادت موجودہ تمام تر مشکلات کے باوجود آصف زرداری پر اعتماد کرنے کیلئے فی الحال تیار نہیں ہے۔ البتہ پارلیمنٹ کے اندر احتجاج کی صورت میں دونوں جماعتیں ایک دوسرے کا ساتھ دینے پر آمادہ ہیں۔ جیسا کہ شہباز شریف کو اے پی سی کا چیئرمین بنانے کیلئے پی پی نے احتجاج میں نواز لیگ کا ساتھ دیا اور اپوزیشن کو کامیابی ملی۔ اگر پی پی پی اس احتجاج کی بجائے پی ٹی آئی کے موقف کی حمایت کرتی تو حکومت بلاول بھٹو زرداری کو بھی اے پی سی چیئرمین شپ دینے پر آمادہ تھی۔
معتبر ذرائع کے مطابق آصف علی زرداری، حکومت کے خلاف کوئی مہم چلانے پر اب بھی آمادہ نہیں ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق ایک جانب انہیں اپنے خلاف مقدمات کے علاوہ اپنے جرائم کا بھی علم ہے تو دوسری جانب انہیں یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ جس حکومت کو وہ کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں، اس کا ماسٹر کون ہے۔ اس کے فوراً بعد انہیں جھرجھری بھی آجاتی ہے۔ انہیں سب سے زیادہ خوف اپنی دولت کے چھن جانے کا ہے جس کو مزید پانے کی ان کی ہوس اب بھی کم نہیں ہوئی ہے۔ پی پی حکومت سے وابستہ رہنے والے ایک سابق بیوروکریٹ اور حالیہ تجزیہ نگار نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری اپنی دولت بچانے کیلئے کسی بھی سیاسی فیصلے پر پہنچ سکتے ہیں۔ بشرطیکہ اپنی سیاسی بقا کیلئے انہیں کچھ فیس سیونگ دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کی برسی پر بھی انہوں نے صرف بیانات داغنے پر اکتفا کیا، واضح حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا۔
لیگی ذرائع کے مطابق شہباز شریف اس حد تک پی پی پی قیادت سے رابطے رکھنے اور تعاون کرنے پر متفق ہیں کہ کوئی تحریک وغیرہ چلانے کی بجائے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے مقتدر حلقوں سے اچھی بارگیننگ کی جائے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے رہنمائوں کے سامنے یہ دلیل بھی رکھی ہے کہ اگر آصف زرداری کو ڈیل کی آفر کی گئی تو وہ ایسا کرلیں گے، ان حالات میں ہماری مشکلات مزید بڑھ سکتی ہیں۔ اس لیے وکٹ کے دونوں طرف دیکھ کر اور سنبھل کر اپنا کردار ادا کیا جائے، لیکن پی پی سے کھلے تعاون کے وہ بھی مخالف ہیں۔ کیونکہ اس صورت میں پی ٹی آئی اور عمران خان کا یہ موقف درست ثابت ہوجائے گا کہ کرپشن کے معاملے میں یہ دونوں جماعتیں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت فی الحال دونوں جماعتوں کو کوئی بھی ریلیف دینے پر آمادہ نہیں اور آئندہ ہفتوں میں دونوں جماعتوں کے مزید کئی اہم رہنما گرفتار ہوں گے۔ حکومت کے اس موقف کو ذرائع کے مطابق مقتدر قوتوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More