وجیہ احمد صدیقی
سابق آمر پرویز مشرف نے غیر قانونی طور پر ہتھیائی گئی جائیدادیں فروخت کرنا شروع کر دیں۔ صرف کراچی اور اسلام آباد میں سابق صدر کی دس جائیدادیں ہیں۔ جن کی مالیت اربوں روپے ہے۔ پرویز مشرف نے کراچی اسٹیڈیم کی اٹھارہ ایکڑ اراضی بھی چائنا کٹنگ کر کے فروخت کرائی۔ من پسند افسران کو دس کھرب روپے مالیت کے پلاٹس تقسیم کئے۔ کرنل (ر) انعام الرحیم ایڈووکیٹ کی جانب سے نیب کو لکھے گئے خط میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھماکوں اور اس کے نتیجے میں اقتصادی پابندیوں کے بعد سعودیہ کی جانب سے تیل کی مفت فراہمی بھی مشرف کے اقتدار پر غاصبانہ قبضے کی وجہ سے ختم ہوئی۔ اور یہ کہ امریکی اشارے پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری کی سربراہی سے الگ کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ نیب نے 20 مارچ 2018ء کو کرنل (ر) انعام الرحیم ایڈووکیٹ کی شکایت کے بعد سابق صدر کے غیر قانونی اثاثوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی تفتیش شروع کی تھی۔ تاہم ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کرنل (ر) انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ نیب اس معاملے میں سستی سے کام لے رہا ہے۔ 9 ماہ گزرنے کے باوجود اس نے پرویز مشرف کی جائیدادوں اور متنازعہ الاٹمنٹس کی خرید و فروخت پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ کراچی میں چھوٹی چھوٹی دکانوں کو تو تجاوزات کے نام پر گرایا جارہا ہے، لیکن تجاوزات ختم کرنے والوں کی نظر اس سمت نہیں جارہی کہ کراچی کے نیشنل کرکٹ اسٹیڈیم کی پارکنگ کی 18 ایکڑ زمین چائنا کٹنگ کر کے بیچ ڈالی گئی۔ کرنل (ر) انعام الرحیم نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پرویز مشرف کی اس ایک کرپشن کی رقم اتنی ہے کہ اس سے کالا باغ ڈیم بغیر کسی بیرونی مدد کے بن سکتا تھا۔ کرنل (ر) انعام الرحیم نے کہا کہ جس فوج سے عوام دل وجان کے ساتھ محبت کرتے ہیں اور وہ ان کا سرمایہ افتخار ہے، اس کے امیج کو بھی پرویز مشرف نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ پرویز مشرف کو سزا ملنے کا مطلب ہرگز پاک فوج کی کردار کشی نہیں، بلکہ یہ پرویز مشرف کا لگایا ہوا دھبہ مٹانا کہلائے گا۔ کرنل (ر) انعام الرحیم نے بتایا کہ 1998ء میں جب قوم نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم بھارت کو جواب دینے کے لیے ایٹمی دھماکے کریں گے اور امریکی چاہتے تھے کہ پاکستان کسی بھی طرح یہ جرأت مندانہ اقدام نہ اٹھائے، امریکی صدر بل کلنٹن نے پاکستان کو 200 ملین ڈالر امداد کی پیش کش کی، لیکن پاکستان نے ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کرلیا تھا اور ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بن گیا۔ امریکہ نے فوری طور پر پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کرکے اس پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔ سعودی عرب نے پاکستان کی اس مشکل کو سمجھا اور اس وقت سعودی ولی عہد شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز جو اس وقت مملکت سعودیہ کے وزیر دفاع تھے، ان کا وفد پاکستان آیا۔ اس پر مغربی میڈیا کی گہری نظریں تھیں۔ شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز نے پاکستان کی اقتصادی ذمہ داری لے لی اور پاکستان کو بڑی مقدار میں مفت تیل بھی فراہم کیا۔ یہ فراہمی بھی پرویز مشرف کے اقتدار پر غاصبانہ قبضے کی وجہ سے ختم ہوگئی۔ کرنل (ر) انعام الرحیم نے نیب کے نام خط میں بھی اس کا تذکرہ کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ سعودی حکومت کے ساتھ یہ سب کچھ نہایت خفیہ طور پر طے ہوا تھا، لیکن اس اجلاس کی معلومات امریکہ کو مل گئیں تو امریکیوں نے پرویز مشرف کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے گرین سگنل دے دیا۔ سعودی معاہدے کے فوراً بعد جنرل پرویز مشرف نے ٹرپل ون بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈیئر مختار کی جگہ بریگیڈیئر صلاح الدین ستی کوکمانڈر ٹرپل ون بریگیڈ مقرر کردیا، جو پرویز مشرف کے وفادار تھے۔ بریگیڈیئر مختار کو اس عہدے پر اپنی تقرری کی ایک سال کی قانونی مدت بھی پوری نہیںکرنے دی گئی تھی۔ فوج کے افسران اس نئی روایت پر حیران و پریشان تھے، لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ پرویز مشرف کا اصل ایجنڈا کیا ہے۔ یہ امریکی سازش تھی۔ سعودی ولی عہد شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز 22 اکتوبر 2011ء کو نیویارک میں پراسرار طور پر وفات پاگئے تھے۔ نیویارک میں وہ نجی دورے پر گئے ہوئے تھے۔ پرویز مشرف نے پھر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری کی سربراہی سے الگ کردیا تھا۔ یہ سب کچھ بھی امریکی اشارے پر ہوا تھا۔ پرویز مشرف صرف ملک کے مفادات کا سودا نہیں کر رہے تھے، بلکہ انہوں نے فوجی چھائونیوں کی زمینوں پر بھی نظر گاڑ لی تھی۔ یہ وہ زمینیں تھیں جو فوج کے افسران اور فوج کے شہدا کے خاندانوں کے لیے مختص تھیں۔ پرویز مشرف نے فوجی چھائونیوں کی ہزاروں ایکڑ زمین قواعد و ضوابط کے پرخچے اڑاتے ہوئے ان کی تجارت شروع کردی۔ صرف کراچی چھائونی کی 2125 ایکڑ زمین ہڑپ کی گئی۔ کرنل (ر) انعام الرحیم ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ’’میں نے مارچ 2018ء کو نیب کو اس حوالے سے آگاہ کیا تھا۔ لیکن نیب نے اپنے ہی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 9 ماہ کا طے شدہ عرصہ گزر جانے کے باوجود اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ نیب انکوائری سے بچنے کے لئے پرویز مشرف نے ان ناجائز اثاثوں کو فروخت کرنا شروع کر دیا ہے۔ علاوہ ازیں پرویز مشرف نے پاکستان کی مختلف چھائونیوں کی 4000 ایکڑ نہایت قیمتی زمین بھی اپنے چہیتوں میں بانٹ ڈالی۔ ان میں تجارتی پلاٹس، زرعی زمین اور اسٹڈ فارم (مویشی خانے اور اصطبل) شامل تھے۔ یہ پلاٹ جن افسران کو الاٹ کیے گئے، یہ ان کے استحقاق سے زیادہ تھے۔ اس طرح انہوں نے قومی خزانے کو 1000 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان پہنچایا۔ صرف یہی نہیں بلکہ کے ڈی اے پلان کے مطابق نیشنل کرکٹ اسٹیڈیم کی 18 ایکڑ زمین بھی ہتھیائی جو پارکنگ کے لیے مختص تھی اور پاکستان اسپورٹس بورڈ اس زمین کا مالک تھا۔ اس وقت پاکستان اسپورٹس بورڈ کے چیئرمین لیفٹینیٹ جنرل (ر) توقیر ضیا نے وہاں چائنا کٹنگ کرکے جنرلز کالونی بنالی۔ اس کٹنگ کی نہ تو کے ڈی اے سے منظور ی لی گئی اور نہ ہی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے کوئی اجازت لی گئی۔ پرویز مشرف نے اس کالونی میں خود بھی متعلقہ اداروں کی اجازت کے بغیر ایک بہت بڑا بنگلہ تعمیر کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ کوشش بھی کی کہ ان کے دوسرے الاٹی ساتھی غیر قانونی طور بنائی گئی اس جائیداد کو ٹھکانے لگا دیں‘‘۔ کرنل (ر) انعام الرحیم نے بتایا کہ پرویز مشرف کے ایک بینک اکائونٹ Account no. 4002000304, میں جو Union National Bank Abu Dhabi, UAE میں ہے، اس میں نامعلوم اکائونٹ سے 20 لاکھ ڈالر منتقل ہوئے ہیں۔ پرویز مشرف نے خود اپنے لئے 10 بھاری مالیت کی جائیدادیں الاٹ کی تھیں، جو ان کے اپنے اور ان کے خاندان کے لوگوں کے نام پر ہیں۔ ان میں سے دو جائیدادوں کی قیمت ایک ارب روپے سے بھی زیادہ ہے۔ یہ پلاٹس نمبر 172 اور 301 ہیں، جو خیابان فیصل ڈی ایچ اے کراچی میں ہیں۔ ان میں سے ہر پلاٹ کی قیمت 50 کروڑ روپے ہے۔ اس کے علاوہ پرویز مشرف کے دو گھر آرمی ہائوسنگ سوسائٹی زمزمہ ڈی ایچ اے کراچی میں ہیں۔ ایک پلاٹ ڈی ایچ اے اسلام آبادکے D سیکٹر میں بھی ہے۔ ایک کارنر پلاٹ 1A DHAاسلام آباد، Plot No. 15A Sector D, DHA اور Plot No. 15B Sector D, DHA بھی اسلام آباد میں ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے سابق آرمی چیفس جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف کو اور اپنے وائس آرمی چیف جنرل یوسف کو بھی پلاٹوں سے نوازا۔ ان میں سے ہر پلاٹ کا سائز دو کینال (تقریباً 1200 گز) ہے۔ جنرل (ر) احسان الحق کو بھی دوکینا ل کے دو پلاٹس کراچی میں اسٹیڈیم والی زمین میں دیئے گئے۔ پلاٹ نمبر 15اور پلاٹ نمبر 29۔ اس کے علاوہ انہیں ڈی ایچ اے میں بھی دو پلاٹ مزید دیئے گئے۔ کرنل انعام الرحیم کہتے ہیں کہ ’’پاکستان سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اغوا کے وقت یا امریکیوں کو حوالگی کے وقت جنرل احسان ہی ڈی جی آئی ایس آئی تھے۔ کراچی میں جنرل کیانی کو پلاٹ نمبر 112 دیا گیا۔ جبکہ جنرل کیانی کو4 کینال کا پلاٹ گولف کورس روڈ راولپنڈی میں الاٹ کیا گیا۔ اس کے علاوہ جنرل کیانی کو ڈی ایچ اے اسلام آباد میں 800 گز کا ایک پلاٹ ڈی ایچ اے اسلام آباد میں دیا گیا اور انہیں ڈی ایچ اے فیز ون میں بھی 20 کنال کی اراضی پر قبضے کی اجازت دی گئی۔ اس کے علاوہ جنرل (ر) یوسف، جنرل (ر) عزیز، جنرل (ر) مصطفیٰ خان، جنرل (ر) عبدالجبار بھٹی، جنرل (ر) عارف حسین، جنرل (ر) حامد رب نواز، جنرل (ر) شاہداللہ، جنرل (ر) امتیاز، جنرل (ر) صلاح الدین ستی، جنرل (ر) سید اطہر علی، جنرل (ر) ندیم تاج، جنرل (ر) اعجاز بخشی، جنرل (ر) انیس عباس، جنرل (ر) عارف حیات، جنرل (ر) طاہر قاضی، میجر جنرل (ر) خالد ظہیر سابق ڈی جی این ایل سی (ان کو این ایل سی میں میگا کرپشن کے الزام میں سزا ملی)، میجر جنرل (ر) احتشام ضمیر، میجر جنرل (ر) محسن، جنرل (ر) احمد شجاع پاشا کے علاوہ کئی افسران کو تجارتی اور رہائشی پلاٹس غیر قانونی طور پر الاٹ کیے۔ ان میں میجر جنرل شاہد حشمت واحد افسر تھے، جنہوں نے کراچی اسٹیڈیم والا پلاٹ اور اپنے استحقاق سے زیادہ زمین لینے سے انکار کیا‘‘۔
٭٭٭٭٭
Next Post