کرپشن نشاندہی پر 11 تا 17 گریڈ بلدیہ ملازمین کی سروس بکس طلب
حیدرآباد (بیورو رپورٹ) کرپشن نشاندہی پر11 تا 17 گریڈ بلدیہ ملازمین کی سروس بکس طلب کر لی گئیں۔ واٹر کمیشن نے 2روز میں فراہم کرنیکی ہدایت کی۔ بلدیہ میں تعینات سید عاصم علی پرسنگین بدعنوانی کے الزامات ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے قائم کردہ فراہمی ونکاسی آپ کمیشن نے بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد میں گریڈ 11 سے گریڈ17 میں تعینات ہونے والے ملازمین کی بدعنوانیوں، ملازمت میں سنگین بے ضابطیگوں پر مشتمل سروس سے اور دیگر ذاتی دستاویزات دوروز میں طلب کرلیں۔ تفصیلات کے مطابق کمیشن کے سربراہ کو بلدیہ ملازم نے ٹھیکوں میں 26کروڑ روپے کی خطیر رقم اقر باپروری، بدعنوانی اور منظور نظر افراد کو دینے کی نشاندہی کی تھی۔ بلدیہ میں تعینات سید عاصم علی پر سنگین بدعنوانی کے الزامات ہیں۔ فراہمی ونکاسی آب کمیشن نے میونسپل کمشنر نصراللہ عباس نے گریڈ11کے ایس سی یوجی ملازم سید عاصم علی کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ میئر حیدرآباد سید طیب حسین کے کماؤ پوت انجینئر سید عاصم کو سپریم کورٹ کے آؤٹ آف ٹرن پروموشن، ڈبیوٹیشن نان کیڈر ختم کرنے سے متعلق احکامات کی سنگین خلاف ورزی کرتے وہئے اسٹنٹ ایگزیکیٹو انجینئر تعینات کیا، جسے حال ہی میں میونسپل کمشنر نے اس عہدے سے ہٹایا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ 28 دسمبر کو فراہمی ونکاسی آب کمیشن نے سید عاصم علی سے سروس بک کی نقل، سروس ریکارڈ کی کاپیاں۔ اور ذاتی دستاویزات کارکارڈ دوروز کے اندر پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ یادرہے کہ بلدیہ کے ملازم رئیس راجا نے چیئرمین نیب سمیت چیئرمین فراہمی ونکاسی آب کمیشن اور دیگر تحقیقات اداروں سے اپنی درخواست میں اپیل کی تھی کہ۔ 2016سے 2016تک بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد کو سندھ حکومت سے ملنی والی کروڑوں روپے کی گرانٹ اور بلدیہ کی آمدنی کی تحقیقات کی جائے۔ کیونکہ باریہ کی بدعنوان مافیا جعلی بلوں کے ذریعہ قومی خزانے کو کروڑوں کا چونا لگا چکی ہے۔ جبکہ شہر کے مسائل تبدزج بڑھ رہے ہیں اور شہری بلدیاتی اداروں کی کرپشن اور ناقص کارکردگی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ نام نیاد مذکورہ کاموں کے ٹھیکے جن ٹھیکیداروں کے دیئے گئے ہیں۔ ان سے باریہ پر قابض سیاسی جماعت کے 5فیصد کمیشن سمت 22فیصد تک کمیشن وصول کرکے ورک آرڈرز کا اجراء کیا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے ٹھیکیدرار انتہائی ناقص میٹریل استعمال کررہے ہیں۔ جبکہ اکثریتی ٹھیکوں کے صرف جعلی بل بنائے گئے ہیں۔ اور کوئی عملی کام نہیں کرایا گیا۔ صرف کاعذوں کا پیٹ بھرا گیا ہے۔