پوش علاقوں- فارم ہاؤسز اور ساحلی ہٹس پر نشے کی فروخت میں اضافہ- فی گرام 5 ہزار روپے کا ہے- شہر میں آئس بلوچستان کے راستے افغانستان سے لائی جاتی ہے- بااثر افراد کا نیٹ ورک ختم کرنے میں پولیس ناکام
امت رپورٹ
کراچی میں آئس نامی نشے نے پنجے گاڑنا شروع کردیئے۔ پوش علاقوں اور تعلیمی اداروں کے علاوہ فارم ہاؤسز اور ساحلی ہٹس پر اس کی فروخت میں اضافہ ہوگیا۔ پولیس، بااثر افراد سیاسی شخصیات اور جرائم پیشہ عناصر اس کے نیٹ ورک قائم کرنے لگے۔ ڈیمانڈ بڑھنے پر افغانستان سے بلوچستان لاکر کراچی تک لانے کا سلسلہ تیز ہوگیا۔ پولیس معمولی مقدار میں فروخت کرنے والوں کو گرفتار کر کے کریڈٹ لینے تک محدود ہے۔ 5 ہزار روپے گرام فروخت ہونے والے اس مہنگے نشے نے شہر میں ہلچل مچادی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوان نسل کو نشے کی لت میں مبتلاکرنے والوں کو پولیس پکڑنے میں ناکام ہے۔ کراچی سے منشیات کا کاروبار ختم کرنا مشکل کام ہے کیونکہ کراچی بین الاقوامی سطح پر نشے کا مرکزی پوائنٹ بنتا جارہا ہے۔ افغانستان سے آنے والی منشیات پشاور سے زیادہ تر کوئٹہ لائی جاتی ہیں۔ جہاں سے سی اور ڈرائی پورٹس سے انہیں کراچی لایا جاتا ہے اور شہر بھر کے علاوہ ملک بھر میں سپلائی کی جاتی ہے۔ یہی نہیں سمندری اور فضائی راستوں سے بیرون ملک بھی بھیجی جاتی ہے۔ ان منشیات فروشوں کو بااثر افراد، سیاسی رہنماؤں، جرائم پیشہ افراد اور پولیس کے کرپٹ افسران کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ کراچی میں منشیات کی جن اقسام کی طلب زیادہ ہے ان میں چرس، ہیروین، افیون، مارفین، کوکین، کرسٹل، ولن، گانجا اور دیگر شامل ہیں۔ تاہم کراچی میں تیزی سے پھیلتے مہنگے نشے آئس نے شہریوں کو نوجوان نسل کو اپنی گرفت میں جکڑلیا ہے۔ مالدار طبقہ نشے سے زیادہ متاثر ہے، جسے آئس پاؤڈر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک منفرد نشہ ہے۔ آج کل اعلیٰ تعلیمی اداروں، پوش علاقوں، ملیر، گڈاپ، سپر ہائی وے، نیشنل ہائی وے اور دیگر علاقوں کے اندر فارم ہاؤسز اور ساحلی علاقوں میں واقع ہٹس پر ہونے والی ڈانس پارٹیوں میں اس کا استعمال بڑھ چکا ہے۔ جبکہ شراب، ہیروین، افیون، چرس کے عادی افراد تو اپنی غلطیوں کا احساس ہونے پر نجات پانے کیلئے اپنا علاج کرالیتے ہیں۔ تاہم طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئس پاؤڈر میں یہ خرابی ہے کہ یہ نشہ انسان کے اندرونی اعضا کو گلا کر بہت کم عمر میں کینسر اور دیگر موذی امراض کا سبب بنتا ہے۔ آئس سفید پاؤڈر کی شکل میں ہوتا ہے۔ یہ پانی، کولڈڈرنکس، اور الکحل میں آسانی سے حل ہوجاتا ہے۔ اسے گولیوں کی شکل دے کر بآسانی سپلائی بھی کیا جاسکا ہے۔ اس کے محلول بناکر سرنج سے جسم میں داخل کیا جاتا ہے اور براہ راست الکحل یا پانی میں ڈال کر پی لیا جاتا ہے۔ یہ حقے کے سسٹم پر بھی پیا جاتا ہے۔ آئس نشہ پینے والے کو برف کی طرح ٹھنڈا کر دیتا ہے۔ آئس نشہ کرنے والے تھکن کا شکار نہیں ہوتے۔ اور مستقل دن اور رات تک جاگتے رہتے ہیں۔ آئس کے استعمال سے وقتی سکون ملتا ہے مگر دو سال کے مختصر عرصے میں پینے والی کی موت ہوجاتی ہے۔ آئس نامی منشیات افغانستان سے لائی جارہی ہے۔ جبکہ مقامی طور پر بھی اس کی تیاری جاری ہے۔ ملزمان مختلف کمپنیوں سے زائد المیاد دوائیں خریدتے ہیں اور اس سے آئس تیار کرتے ہیں۔ اس کی تیاری کیلئے ایفڈرین کے متبادل کیمیکل حاصل کئے جاتے ہیں۔ خاص طور پر نزلہ، بخار، کھانسی کی زائد المیاد ادویات سے آئس بنانے میں مدد ملتی ہے۔ جبکہ زائد المیاد ادویات کا پاؤڈر بطور دوا مچھلی، مرغی اور مویشیوں کی فیڈ میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں زائد المیاد دوائیں خرید کر ان کا پاؤڈر بنایا گیا۔ اب زائد المیاد دوائیں اور گولیاں نئے لیبل لگا کر افغانستان بھیجی جا رہی ہیں۔ جہاں دیگر کیمیکل ملا کر آئس تیار کی جاتی ہے۔ کراچی میں تین سال قبل آئس کو لیاری اور لانڈھی ایریا کے بعض منشیات فروشوں نے فروخت کیا۔ اس دوران لیاری میں فیکڑیاں لگائی گئی تھیں۔ پاکستان میں دو سال قبل اس کی قیمت 6 سے 8 لاکھ روپے اور بیرون ملک میں 20 ہزار ڈالر فی کلو تک تھی، جو اب بڑھتی جارہی ہے۔ کراچی میں باہر کی اور مقامی آئس دونوں ہی 5 ہزار روپے ایک گرام کے حساب سے مل رہی ہے۔ ایک دو بار استعمال کرنے والے اس کے عادی ہوجاتے ہیں۔ دو سال قبل رینجرز نے مختلف علاقوں لیاری، اولڈ سٹی ایریا میں آئس کے اڈوں، فیکٹریوں پر چھاپے مارے تھے۔ تاہم بعد میں مقامی پولیس اور بااثر افراد کی سرپرستی کے بعد آئس چھوٹے علاقوں، کچی آبادیوں سے فروخت اور سپلائی کیا جانے لگا۔ کراچی پولیس آئس مافیا کا نیٹ ورک توڑنے میں ناکام رہی ہے۔ مہنگا نشہ ہونے پر پوش طبقے کے لوگ اسے زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ یہ نشہ سوشل میڈیا کے ذریعے خاص طور پر واٹس اپ پر فروخت کیا جاتا ہے۔ اس کے استعمال کرنے والوں میں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ اسلام آباد، لاہور کی طرح کراچی کی درس گاہوں میں اسٹاف کے علاوہ طلبہ بھی پیسے بنانے کیلئے اسے سپلائی کرنے لگے ہیں۔ مہنگا نشہ ہونے پر چھوٹے طبقے کے لوگ جرائم کرکے اس کو پورا کررہی ہیں۔ دو روز قبل کراچی میں میڈیا ورکرز میاں بیوی کی گرفتاری نے لوگوں کو حیران کردیا۔ دونوں کسی تقریب میں آئس نشہ استعمال کر بیٹھے اور عادی ہوگئے، لیکن خریدنے کی اسطاعت نہیں تھی۔ لہذا پارک گاڑیوں کی اشیاء نکالنے لگے، پولیس نے گاڑیوں سے چوریاں کرتے ہوئے پکڑلیا۔ پوش علاقوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں آئس کی فراہمی کی روک تھام کیلئے جہاں سندھ کے آئی جی کوشش کرتے رہے وہیں موجودہ پولیس چیف کراچی میں سرگرم نظر آئے۔ منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیلئے انہوں نے حساس اداروں سے مدد طلب کی تھی۔ اس وقت معلوم ہوا کہ کراچی میں 30 منشیات کے بڑے اڈے میں اور بڑے سپلائر ہیں۔ مقامی پولیس نے چند منشیات استعمال کرنے والے چرسی یا ہیروینی پکڑے اور اڈے دوسری جگہ منتقل کرادیئے۔ بعدازاں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی کے تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی کرنے والی 3 عورتوں سیمت 24 بڑے ملزمان کی تفصیلات پولیس کو فراہم کی۔ اور معلومات کے ساتھ ان کے فون نمبرز اور ٹھکانے بھی بتائے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ملزمان کس یونیورسٹی، کالج اور اسکولز میں طلبہ کو منشیات فروخت کرتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے تعلیمی اداروں اور پوش علاقوں میں آئس سپلائی کرنے والوں میں جن ملزمان کے حوالے سے معلومات مل چکی ہیں، ان میں گلشن اقبال بلاک 5 میں واقع جامع کی پارکنگ میں داؤد اور فہیم سوٹ بیگس میں اسکولز کے اندر فہد نامی منشیات فروش کو نشہ دیتے ہیں۔ کلفٹن بلاک 3 کے اسکول اور ڈیفنس کی یونیورسٹی میں آصف اور اسامہ قیوم آباد کے جامع میں ملک احسان، جبکہ ڈیفنس بدر کمرشل میں زاہد، زرمین، راجہ غفور، بلال، عرفان، عمر، زیب بلوچ غازی کمرشل میں عباس بلوچ، جمہوریہ کالونی میں وقاص عرف دانش تنولی، گلستان جوہر میں روحیل عرف راجو، گلشن اقبال میں مکل باری، شاہجان، ڈیفیس فیز ٹو میں اسماعیل، لیاری میں زوہیب آئس سپلائی کرتے ہیں۔ منشیات کا قومی ادارہ اے این ایف اس حوالے سے سرگرم ہے۔ کوئٹہ میں اربوں روپے کی آئس پکڑی گئی، جو کراچی بھی جاتی تھی۔ کالعدم تنظیمیں لیاری گینگ وار کے دہشت آئس نشہ پھیلانے میں زیادہ سرگرم ہے۔