وزارت قانون نے مسودہ تیار کرلیا-لیکن تاحال اپوزیشن سےمشاورت کا سلسلہ شروع نہیں کیا گیا-پیپلز پارٹی اور نون لیگ اس بار مدت بڑھانےکے حق میں نہیں -حمایت کے عوض ریلیف کا مطالبہ کرسکتی ہیں-چند چھوٹی پارٹیاں بھی گریزاں-توسیع کے لئے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہے-رپورٹ
امت رپورٹ
حکومت نے اگرچہ فوجی عدالتوں کی مدت میں دوسری بار توسیع کا فیصلہ کر لیا ہے۔ تاہم اس بار بالخصوص اپوزیشن کی دو بڑی پارٹیوں اور حکومت کا اس سلسلے میں اتفاق رائے ہونا خاصا مشکل دکھائی دے رہا ہے، جس کے نتیجے میں توسیع کا عمل لٹکنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ فوجی عدالتوں کی مدت جنوری کے پہلے ہفتے میں ختم ہو رہی ہے۔ لہٰذا فوجی عدالتوں میں دوسری بار توسیع کے لئے نئی آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی۔ پیپلز پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بار پارٹی قیادت فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ دینے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ اگرچہ اس بارے میں فی الحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا، لیکن اب تک اس سلسلے میں مرکزی قیادت اور اہم رہنمائوں کے درمیان جو تھوڑی بہت مشاورت ہوئی ہے اس میں اکثریت کا کہنا یہی ہے کہ دوسری بار ملٹری کورٹس کی مدت میں اضافے سے پارلیمنٹ مزید کمزور ہوگی اور یہ کہ اس سے قبل کی جانے والی حمایت کا مطلب یہ نہیں کہ ہر بار اسی قسم کا فیصلہ کیا جائے۔ ذرائع کے بقول بالخصوص فوجی عدالتوں کے حوالے سے سخت موقف رکھنے والے پارٹی رہنما فرحت اللہ بابر اور رضا ربانی کی تجویز ہے کہ کسی طور پر ملٹری کورٹس میں مزید توسیع کے عمل کا حصہ نہ بنا جائے، جبکہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی بڑی حد تک ان رہنمائوں کی رائے سے کنونس دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری جانب سینیٹر عبدالرحمان ملک سمیت بعض اعتدال پسند رہنمائوں کا خیال ہے کہ فوجی عدالتوں کی توسیع کی مخالفت کر کے مزید سینگ پھنسانے کا فائدہ نہیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ حتمی فیصلہ پارٹی چیئرمین اور شریک چیئرمین نے کرنا ہے۔ فیصلہ چاہے جو بھی ہو اس پر سب کو عمل کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ دو برس قبل جب فوجی عدالتوں کے قیام میں پہلی بار توسیع کی جا رہی تھی تو پیپلز پارٹی نے اس توسیع کے حق میں ووٹ تو دے دیا تھا، لیکن بیشتر ارکان نے ساتھ ہی دودھ میں یہ کہہ کر مینگنیاں بھی ڈالی تھیں کہ وہ ووٹنگ کے لئے تو تیار ہیں لیکن اس عمل کی حمایت نہیں کرتے۔ حتیٰ کہ بل پر دستخط کرنے والے اس وقت کے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی باقاعدہ رو دیئے تھے۔ تاہم فوجی عدالتوں کی مدت میں پہلی بار توسیع پر مسلم لیگ ’’ن‘‘ نے بڑی گرمجوشی دکھائی تھی۔ حتیٰ کہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف رائے شماری والے دن ایوان میں خود تشریف لائے تھے۔ جبکہ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار کا کہنا تھا کہ ملک جن حالات سے گزر رہا ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ وقت کی ضرورت ہے۔ لیکن اب مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے جذبات تبدیل ہو چکے ہیں۔ نون لیگ کے اندرونی ذرائع کے مطابق اس بار پارٹی قیادت فوجی عدالتوں کی توسیع کے معاملے پر ڈانواڈول ہے۔ یہاں بھی معاملہ پیپلز پارٹی جیسا ہی ہے۔ یعنی پارٹی قیادت اس ایشو پر منقسم ہے، تاہم اکثریت کی رائے ہے کہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کو اس بار ملٹری کورٹس کی توسیع کے حق میں ووٹ نہیں دینا چاہئے۔
وفاقی دارالحکومت میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ دراصل احتساب کا شکنجہ مزید تنگ ہونے پر اپوزیشن کی ان دونوں پارٹیوں کو اس وقت فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع پارلیمنٹ کی کمزوری کے مترادف دکھائی دے رہی ہے۔ پہلی توسیع کے موقع پر چونکہ پاناما اسکینڈل آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا اور وزیراعظم نواز شریف کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی تھی۔ لہٰذا حکمراں پارٹی مسلم لیگ ’’ن‘‘ ان عدالتوں میں توسیع کی سب سے بڑی حامی تھی۔ اور اس نے ان عدالتوں کی مخالف اپوزیشن پارٹیوں کو بھی ایک صفحے پر لانے کے لئے متحرک کردار ادا کیا تھا۔ اب صورت حال تبدیل ہو چکی ہے۔ دونوں پارٹیاں فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کی حمایت کے عوض کچھ ریلیف لینے کی کوشش کر سکتی ہیں، لیکن فی الحال اس قسم کی کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں کی جانب سے فوجی عدالتوں کی مدت بڑھانے کی مخالفت کے نتیجے میں یہ معاملہ تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔ جبکہ چند دیگر چھوٹی پارٹیاں بھی مدت میں توسیع کی حامی نہیں۔ ان میں اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی، اسفند یار ولی کی عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ مجلس عمل میں شامل جمعیت علمائے اسلام (ف) شامل ہیں۔ گزشتہ برس فوجی عدالتوں کی مدت میں دو برس توسیع کے لئے آئین میں اٹھائیسویں ترمیم کا بل قبل ازیں قومی اسمبلی اور بعد میں سینیٹ سے بھی دو تہائی اکثریت سے منظور کیا گیا تھا۔ تاہم قومی اسمبلی میں محمود اچکزئی سمیت پشتونخواہ عوامی ملی پارٹی کے تین ارکان اور جمشید دستی نے مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ چاروں موجودہ قومی اسمبلی کا حصہ نہیں ہیں۔ دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام (ف) ووٹنگ کے عمل میں غیر جانبدار رہی تھی۔ اسی طرح سینیٹ میں پشتونخواہ عوامی ملی پارٹی کے سینیٹرز نے مخالفت میں ووٹ دیئے تھے جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی کے ارکان ایوان سے غیر حاضر ہو گئے تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ قومی اسمبلی کے دو آزاد ارکان محسن داوڑ اور علی وزیر بھی نجی محفلوں میں یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ ملٹری کورٹس کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے، بنیادی طور پر ان دونوں ارکان کا تعلق پشتون تحفظ موومنٹ سے ہے۔ ذرائع کے مطابق حکمراں پارٹی تحریک انصاف اور اس کی اتحادیوں پارٹیوں مسلم لیگ ’’ق‘‘، بلوچستان عوامی پارٹی، جمہوری وطن پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی مسلم لیگ کے تمام ووٹ ملٹری کورٹس کے حق میں یقینی ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملٹری کورٹس کی مدت میں توسیع کے لئے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں بھی اس سلسلے میں ساتھ دیں۔ ذرائع کے مطابق حیرت انگیز امر یہ ہے کہ فوجی عدالتوں کی حالیہ مدت ختم ہونے میں چند روز رہ گئے ہیں لیکن اس سلسلے میں اپوزیشن کو ساتھ ملانے کے لئے حکومت کی جانب سے فی الحال کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دے رہی۔ اس کے برعکس جب پہلی بار فوجی عدالتیں قائم کی گئیں اور پھر ان کی مدت کے اختتام پر جب پہلی توسیع کی گئی تو اس سے بہت پہلے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات و مشاورت کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
واضح رہے کہ فوجی عدالتیں دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے جنوری 2015ء میں پہلی بار قائم کی گئی تھیں۔ جس سے دہشت گردی میں ملوث سویلین کے مقدمات بھی دو برس تک ان عدالتوں میں چلانے کی اجازت حاصل ہو گئی تھی۔ بعد ازاں مارچ 2017ء میں یہ مدت پوری ہونے پر مزید دو سال کے لئے فوجی عدالتوں کو توسیع دے دی گئی تھی جو ، اب جنوری میں ختم ہو رہی ہے۔